Home / Socio-political / راز ہائے زندگی

راز ہائے زندگی

              

راز ہائے زندگی

عباس ملک انسان نے اپنی زندگی کو کس قدر مشکل میں ڈال لیا ہے ۔اقدار اخلاقیات روایات سے ہٹ کر انسان نئی سوچ واقدار کے حسن سے گرویدہ ہو کر اس کی طرف کھینچا چلا جا رہا ہے ۔ اسے پرانی روایات اقدار قوانین فرسودہ اور متروک کرنے کی اتنی جلدی ہے کہ وہ یہ بھی نہیں دیکھتا کہ وہ کیا کھو اور کیا پا رہا ہے ۔ ترقی یافتہ کی سندحاصل کرنے کیلئے اور بنیاد پرست کہلانے کیلئے وہ ہر اس چیز سے خلاصی حاصل کرنے کا متمنی ہے جو اس کے حصول میں سد راہ نظر آتی ہے ۔اپنے مفاد کیلئے اپنوں کو بھی مشکل میں ڈال دینا انسان کیلئے کوئی نئی بات نہیں ۔ شاید یہ اس کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ اپنے مفاد کے حصول کیلئے اپنے آپ اور اپنوں دونوں کو مشکل اور امتحان میں ڈال دیتا ہے ۔اپنی خوشی کیلئے اسے اپنوں کی خوشی اگر قربان کرنی پڑے تو اسے وہ اپنا استحقاق سمجھتا ہے ۔سب کچھ خود حاصل کر کے دوسروں کو محروم کر کے بھی وہ یہی منطق پیش کرتا ہے کہ یہ اس کا نصیب اور کامیابی میرا مقدر ہے ۔انسان اگر چاہے تو قربانی دیئے بغیر بھی دوسروں کو خوشی اور آسائش فراہم کر سکتاہے ۔ اگر وہ صرف یہ تسلیم کر لے کہ خوشی اورآسائش دوسرے کا بھی حق ہے ۔ اگر انسان دوسرے کو اس لیے برا جانتا ہے کہ وہ اس کیلئے آسائش یا خوشی کی راہ میں رکاوٹ ہے تو پھر اسے خود یہ سوچنا چاہیے کہ وہ بھی دوسرے کی طرح ایک رکاوٹ کا کردار ہی کیوں ادا کر رہا ہے ۔اسے تو ایسا کردار ادا کرنا چاہیے کہ جو دوسروں کیلئے خوشی اور آسائش میں ممدد و معاون ہو۔ یہ طرز عمل دوسرے کیلئے بھی ایک سنگ میل بن سکتا ہے اور اسے دوسروں کیلئے ممدد و معاون کردار ادا کرنے پر مجبور بھی کر سکتا ہے ۔ شیطان انسان کو اچھائی کی راہ پر چلنے سے روکتا ہے اور اس کیلئے وہ کئی طرح کی منطق اور دلا ئل اس کے دماغ میں داخل کرتا ہے ۔انسان اس دلیل پر ہی تکیہ کر لیتا ہے کہ میں اکیلا اس سیلاب کے اگے کیسے بند باندھ سکتا ہوں ۔ وہ یہ نہیں سوچتا کہ اچھائی خواہ کم ہو یا زیادہ وہ باطل اور جھوٹ کے سیلاب کیلئے کافی ہوتی ہے ۔ایک ایک کر کے ہی تو گیارہ بنتے ہیں ،جب ایک ہی نہیں ہو گا تو گیارہ کی آس و امید سرآب سے سیراب ہونے کی توقع ہے ۔انسان اپنے آپ کو راست گو قرار دیے کر اپنے آپ کو کسی بھی طرح یہ نہیں سمجھتا کہ وہ بھی قابل تنقید ہے یا قابل اصلا ح ہے ۔ اس میں بھی کوئی خامی ہے اور اسے درست کیا جانا ضروری ہے ۔ ضروری نہیں کہ جوکچھ ابا و اجداد نے کہا یا کیا وہ درست ہو اور یہ بھی درست نہیں کہ انہیں ناخواندہ اور تہذیب و تمدن سے نا آشنا قرار دیے کر ان کی ہر بات کو رد کر دیا جائے ۔ ان کی بہت سی باتیں انتہائی قابل تقلید اور معیار کیلئے بھی معیار ہیں ۔ جبکہ ان کی کچھ چیزیں شاید ان کے وقت کے تقاضوں سے تو ہم آشنا ہو سکتی ہیں لیکن ہمارے لیے وہ قابل تقلید نہیں ۔ ایک انتہائی سادہ سی بات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ماضی قابل تقلید اور قابل توصیف تھا اور ہے ۔ ہماری روزمرہ زندگی میں جو محاورہ جات اور امثال پیش کی جاتی ہیں بزرگوں نے یہ کہا اور بزرگوں کا یہ طریقہ تھا ۔آج بھی روزمرہ اور محاورہ میں ماضی کی کہاوتوں اور امثال کی کثرت یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ ماضی کی قدریں ہر گز بھی متروک کرنے کی چیز نہیں ۔ اگر ماضی میں کچھ قابل اصلاح ہے بھی تو اس کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے ۔ تہذیب وتمدن اور معاشری روایات میں کچھ ایسی ہی روایات جو ماضی میں تو شاید اس وقت کی ضرورت تھیں اور شاید مجبوری تھی کہ وہ متروک نہیں کی جا سکیں کیا ان کو آج اس اکیسویں صدی کے متمدن معاشرے میں اگر جاری رکھنا ضروری خیا ل جا تا ہے تو اسے سوائے جہالت کے کیا کہا جا سکتا ہے ۔شادی بیاہ اور مرگ و فوتگی کے مواقع پر کچھ اضافی رسوم اس کی امثال میں اولین ترجیح کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں ۔ جہیز ، مہندی اور بارات کے موقع پر غیر ضروری نمود و نمائش اور اسراف سے اپنے آپ کو معاشرے سے بالا تر دکھانے کی روایات ایک مہذب اور متمدن معاشرے کی روایت کہلانے کی مستحق نہیں ۔ اگر انہیں اس کا استحقاق دیا جائے تو پھر متمدن کہلانے کے حق سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔معاشرے میں سب سے بڑا تضاد اس صورت میں پایا جاتا ہے کہ عام و خاص دین کو معاشرتی زندگی سے علیحدہ کوئی چیز ہے ۔ دین کا معاشرتی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ۔ دیندار لوگ معاشرے سے ہٹ کر اور کٹ کر ایک طرف صرف اللہ اللہ کریں اور دیگر لوگ ان سے عقیدت کا اظہار کر کے جنت کے طلب گار بن جائیں ۔یہ سوچ اس چیز کی اصل بنیاد ہے جس نے معاشرے سے اعلی اخلاقی روایات کو مداخلت کرنے کی اجازت نہیں دی ۔ دین اعلی اخلاقی روایات کا اصل ماخذ ہے ۔ جب اس سے استفادہ ہی نہیں کیا جائے گا تو پھر اخلاقیات کا جنازہ پڑھنے کیلئے بھی کوئی جگہ اور کوئی ورد نہیں ۔ دین کو اپنے مطلب اور مفاد میں استعمال کرنے کی روایت ترویج پا چکی ہے ۔ اس کی مثال مذہبی اکابرین یا ان کے مقلدین اورعقیدت مند حضرات کا عام زندگی میں دین سے متعلق توجیحات اور منطق بازی ہے ۔ خواتین کے بارے میں ہمارا عمومی رویہ اس کی زندہ مثال ہے ۔ طالبان کے نمائیندگا ن کا بم دھماکوں ، خودکش حملوں اور سکول اور درس گاہوں کے علاوہ مساجد اور مذہبی تقدس کی حامل جگہوں سے متعلق متشدد الزامات کو قبول کرنا اس رویے کی نشاندہی کرتا ہے ۔ہر فقہ اپنے آپ کو درست خیال کر کے دوسرے کو خارج از اسلام قرار دیتا ہے لیکن یہ کوئی نہیں کرتا کہ اسلام اور شریعت سے تضاد رکھنے والے عناصر کو اپنے آپ سے علیحدہ کر دے ۔ وہ ان کے متعلق دلائل اور منطق کے انبار کھڑے کرتا جاتا ہے جس سے مسلہ دب جاتا ہے جبکہ تضادات اور اس پر اختلافات کی
خلیج وسیع ہوتی جاتی ہے ۔ایسے مذہبی تضادات نے معاشرے میں کٹائو کی رفتار کو مزید تیز کر کے ملی اور قومی یکجہتی کے عناصر کو کمزور کر دیا ہے ۔ ہم کبھی بھی خود کو بحیثیت مسلمان اور پاکستانی پیش نہیں کرتے بلکہ ہمیں اپنے گروہی ، لسانی اور علاقائی تعارف کے ساتھ اپنے قبیلہ سے منسلک ہونا زیادہ قابل فخر محسوس ہوتا ہے ۔ اس سوچ کے زیر اثر کیسے ممکن ہے کہ ہم ایک ملت اور ایک قوم بن پائیں ۔ جب مذہب اور ملک کی چھتری سے ہمیں کوئی انسیت ہی نہیں تو پھر اس کے نیچے پناہ لینے کا تصور بھی ایک خیال کے سوا کچھ نہیں ۔ سب سے پہلے ضروری ہے کہ ملت کے عنصر کو اہمیت دی جائے اور اس کے بعد بحییثت قوم کے ایک ہو جائے ۔ اس کے زیر سایہ جب اپنے مفادات اور اپنی خواہشات کو لایا جائے گا تو ہم ایک معاشرہ اور ایک ہو کر اگے بڑھ پائیں گے ۔ اقوام عالم میں ہماری شناخت اور ہمارا وقار بحال ہو پائے گا ۔مذہب اور ملت ملک وقوم کے علاوہ دیگر گروہی لسانی اور عصبی جھگڑے خود بخود ختم ہو جائیں گے جب ہم ایک ملت اور ایک قوم بن کر سوچیں گے ۔اس ملت کے پرچم کے سائے تلے ہم سب ایک اور ایک جیسے ہیں اور سب کو مساوی حقوق حاصل ہیں ۔ اسی طرح اس ملک اورقوم کے پرچم تلے ہمارا دکھ ، تکلیف ،پریشانی ،غم اور خوشی سب ایک ہے ۔اگر کسی بھی مسلمان یا کسی بھی پاکستانی کو دکھ پہنچتا ہے یا اسے کوئی پریشانی لاحق ہے تو وہ سب کیلئے ہے ۔ زندگی چند روزہ ہے اس کی معیاد کسی کو معلوم نہیں لیکن اس کا معیار سب کو معلوم ہے ۔ سب نے اپنے معیار قائم کر لیے ہیں اگر اس کو معیار کو معیاری پیمانہ سے منسلک کر دیا جائے تو سب کیلئے ایک معیار ہو گا اور سب ایک ہونگے ۔پاکستان ایک ہونے کیلئے بنایا گیا تھا نہ کہ اسے تقسیم ہونے کیلئے اتنی قربانیوں کے بعد معارض وجود میں لایا گیا تھا۔ زندگی کا راز ایک ملت اور ایک قوم ہونے میں پنہاں ہے ۔ عمل سے ہی اس کا حصول ممکن ہے ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *