رشوت خور پولیس اور دہشت گرد وکیل
انعام الحق
پولیس تو رشوت لیتی ہی ہے جس کا ثبوت آئے دن میڈیا کی جانب سے کسی نہ کسی پروگرام میں دےکھاےا جاتا ہے۔جبکہ وکلاءپاکستان میں کافی عرصہ سے دہشت گردی کرتے نظر آتے ہیں۔دہشت گردی یوں کہ اپنی مرضی کے جج نہ بٹھائے جانے پر پولیس پر تشدد،میڈیا کو کوریج کرنے پر وکلاءکی جانب سے حملے کا سامنا،وکلاءکے خلاف کیسز کی وجہ سے وکلاءکا احتجاج،وکلاءکی جانب سے آئے دن جلسے جلوس اور ریلیاں،قانونی پابندی کے باوجود”دیوانوں“ کی طرح سڑکوں پر ڈرامے،اُسی عدلیہ کے خلاف پراپوگنڈا جس کی خاطر خود یہی وکلاءعدلیہ بحالی کے وقت پاگل تھے پھر دفعہ 144کے باوجود عدالتوں کے سامنے مظاہرے اس بات کی دلےل ہیں کہ یہ وکیل دہشت گردوں کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔ان کے دہشت گرد ہونے پر مقدمہ بھی درج ہے کیونکہ چند دن قبل پولیس اور وکلاءکے درمےان ہونے والے دنگل کے بعد پولیس نے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی ضلعی بار اےسوسی اےشن کے عہدےداروں سمیت دو سو وکلاءکے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ بھی درج کر لیا ہے۔یہ مقدمہ پولیس اہلکاروں کو زخمی کرنے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں درج کیا گیااور اس مقدمہ کے مدعی پولیس خود ہیںجبکہ ضلعی بار ایسوسی ایشن کے ارکان کے خلاف جو نیا مقدمہ درج کیا گیا اس میں بار اےسوسی ایشن کے ان عہدیداروں کو بھی نامزد کیا گیا ہے جن کو چند دن قبل چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سربراہی میں قائم دو رکنی بینچ نے ضمانت کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دےا تھا۔ہمارے ججز وہ ہیں جو اےمان داری سے کام کرنے اور نجانے کتنی نےکیاں بجالانے کا حلف اُٹھاتے ہیں اگر وہ اپنی تمام ذمہ دارےاں اےمانداری سے نبھائےں تو ملک کی مساجد پر حکومت علماءکی نہیں بلکہ ججز کی ہوتی….!وکلاءوہ ہیں جو یہ دےکھنے کی قطعی زحمت نہیں کرتے کہ ان کا موکل صحےح ہے ےا غلط،مقدمہ کی پےروی جو کی جا رہی ہے وہ صحےح ہے ےا غلط،ان کا ہر حال میں اےک ہی مطمع نظر رہتا ہے کہ ہم نے فےس لی ہے اور اب ہمیں اپنے موکل کو بری کروانا ہے خواہ وہ قاتل ہو،زانی ہو،ڈاکو ہو،چور ہو،لٹےرا ہو،ملک کا غدار ہو،جواری ہو،شراب فروش ہو،ذخےرہ اندوز ہو ےا کچھ بھی ہو وکلاءکا اےک ہی موقف ہوتا ہے کہ عدالت کے فےصلے سے پہلے کوئی مجرم نہیں ہوتا۔کہتے ہیں کہ ڈاکٹر اور وکیل سے کُچھ چھپانا نہیں چاہئے۔اسی لئے جب کوئی کےس وکیلوں کے پاس آتا ہے تو وہ مکمل سچ جاننے کے بعد عدالتوں میں کےس لڑتے ہیں اور سچے کو جھوٹا اور جھوٹے کو سچا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔کیا اُنہیں پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟نہیں اےسا ہر گز نہیں!!! اُنہیں سب معلوم ہوتا ہے وہ دےن کو دنےا پر مقدم رکھتے ہوئے کےس لڑتے ہیں اوراس مشہور شعر کے عےن مطابق ہیں
دوسری طرف پاکستان کا رشوت خور ترےن شعبہ ”پولیس“بھی کُچھ کم نہیںجو آجکل کُچھ زےادہ ہی خبروں میں آنے لگے ہیں۔جےسے کسی مکےنک کا مشن گاڑی کوپرفےکٹ کرنا ہوتا ہے اور اُس کے پےچےدہ نقائص کو تلاش کرکے صحےح کرنا ہوتا ہے اسی طرح پولیس کا کام بھی صحےح مجرم کو پکڑنا اور اصل واقع کی جڑ تک پہنچنا اور اصل ذمہ دار شخص کو پکڑ کر سزا دلوانا ہوتا ہے مگر اس سے کُچھ مختلف ہماری پاکستانی پولیس صحےح کو خراب اور خراب کومزےد خراب کر رہی ہے۔جےسے اکثر سُننے میں آتا ہے کہ بے گناہ کو سزا اور مجرم فرارےا پھر مجرم رشوت دے کر چھوٹ گیا اور کوئی غرےب ،مجبور اور لاچار پکڑا گیا۔اس کے علاوہ پولیس کا ڈنڈا بھی بہت مشہور ہے جو کبھی سرے عام توکبھی چھپ چھپا کے استعمال ہوتا ہے۔مگر پولیس کو اس ڈنڈے کی چوٹ کا اندازہ تب ہوا جب وکلاءکی جانب سے پولیس کی خوب پٹائی کی گئی۔تب پولیس اےسے حرکت میں آئی جےسے اُنہیں کسی نے مرچوں والے ڈنڈے سے لتاڑا ہو۔مگر جب یہ خود بے قصوروں کو مار رہے ہوں تب انہیں بالکل احساس نہیں ہوتا۔دنےا بھر میں پاکستانی پولیس کا ڈنڈا مشہور ہے ،افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سب سے زےادہ یہ ڈنڈا غرےب مسلمانوں پر استعمال ہوتا ہے۔