Home / Socio-political / روپ کے کندن

روپ کے کندن

                                

روپ کے کندن

عباس ملک

الیکشن کمپین کے دوران کیاکیا دعویٰ کیے گئے تھے۔یہ سرآب بھیانک روپ لیے اب عوام کے سامنے ہیں۔ مسیحا کہتے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ پانچ سال سے پہلے ختم نہیں ہو سکتی ۔ شارٹ فال ختم کرنے کیلئے اقدامات کرنے میں انہیں طویل مدت کے منصوبے درکارہیں۔ مرحوم دوست صفدر تسنیم صاحب اللہ مغفور فرمائے جو کہ گرڈ سٹیشن انسٹال کرتے تھے کے ساتھ بات چیت میں کچھ ایسے حقائق سے واسطہ پڑا تھا۔انہوں نے دعوی سے یہ کہا تھا کہ لوگ اپنا نام پریس میں لانے سے گریز کرتے ہیں لیکن میرا نام لکھ کر میری تصویر دے کر میری طرف سے لکھو ۔ واپڈا کا نظم ونسق میرے حوالے کیا جائے میں اس کو اسی حالت میں چلائوں گا اور نہ لوڈ شیڈنگ ہوگی اور نہ ہی بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوگا۔اگر ایسا ہوتو مجھے پھانسی دے دی جائے ۔ انہی کے ساتھ گفتگو میں کالاباغ ڈیم کے متعلق یہ بھیانک حقیقت بھی افشا ہوئی کہ اے این پی کالاباغ ڈیم کی مخالفت صرف سیاسی بنیادوں پر کر تی ہے۔ انہوں نے کہا تھاکہ ولی خان جرنل ذوالفقاراور شمس الملک اور ایک اور صاحب میٹنگ میں بیٹھے تھے کہ شمس الملک کے سمجھانے پر ولی خان نے کہا تھا کہ مجھے سب کچھ پتہ ہے۔ آپ لوگ سمجھتے کیوں نہیں یہ مسلہ ہماری سیاسی بقاء کیلئے کتنا اہم ہے۔ہماری سیاست کا یہ اہم ترین نعرہ ہے۔مجھے کالا باغ ڈیم کے مساوی سیاسی نعرہ دو اور کالا باغ ڈیم بنا لو۔ اس طرزفکر اور طرز عمل کے زیر اثر سیاست اور سیاستدانوں سے عوامی ملکی مسائل اورقومی یکجہتی جیسے عناصر کا پنپنا کیونکر ممکن ہو گا۔

میاں صاحب کہتے ہیں کہ دیگر مسائل بہت ہیں لیکن وہ لوڈ شیڈنگ کی دلدل میں پھنس کر ان پر توجہ نہیں دے پارہے ۔ تجربہ کار ملاح کے ہوتے ہوئے مسافر وں کو سکون ہوتا ہے کہ وہ منزل تک سلامتی سے پہنچ جائیں گے لیکن یہاں پر حقیقت اس سے برعکس نظر آرہی ہے۔تجربہ صرف پی آئی اے میں اعلی عہدوں کی تعیناتی تک ہی محدود ہے۔ کئی ممالک میں ابھی سفیروں کی تعیناتی تشنہ بہ التفات کی منتظر ہے لیکن وسیع تر قومی مفاد میں ابھی اندروں ملک گرفت مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز ہونے کی وجہ سے توجہ نہیں دی گئی۔فیصل آباد میں آپ اعلان کرتے ہیں اور لاہور پہنچ کر وہ ہوا ہو جاتا ہے ۔ یہ طرز حکمرانی کیا ہے۔

 توانائی کے مسائل کو حل کیے بغیر ملک کو ترقی کی راہ پر لانا ایسے ہی ہے جیسے ہوا میں قلعہ تعمیرکر کے اسے حفاظت کیلئے کافی جاننا ہو۔ ضروری ہے کہ فیصلے دیر پا اور دور رس نتائج کے حامل ہوں۔ انہیں شارٹ ٹرم یا ڈنگ ٹپائو پالیسی کا مظہر نہیں ہونا چاہیے۔ عوام اگر آج تکلیف کاٹ رہے ہیں تو کل تو ان کا محفوظ ہونا چاہیے ۔پچھلی کئی دہاہیوں سے ہر آنے والا حکمران یہی کہتا چلا آ رہا ہے کہ یہ غلط پالیسوں کی وجہ سے ہے۔ جناب آپ کی پالیسیاں کس  پلڑے میں رکھی جائیں۔آج تک کسی کو غلط پالیسی بنانے پر یا صیح پالیسی پر عمل درآمد نہ کرنے پر سزا ہوئی ۔کسی کو اس کے جرم کی سزا ملی۔ سپریم کورٹ جس کو سزا وار قرار دیتی ہے اسے بیرون ملک پناہ کیلئے بھیج دیا جاتا ہے۔ سیاسی مفادات کے حصول کیلئے استعمال ہونے والے مہرے سیاستدانوں کی پناہ میں قانون اور آئین سے بالا بالا قرار پاتے ہیں ۔

ملک میں ڈیم نہ بننے کی وجہ سے پانی کی کمی ہے یہ تو ٹھیک ہے لیکن کیا ملک میں سورج نکلنا بھی بند ہو گیا ہے۔ شمسی توانائی کے حصول کیلئے کیا پالیسی اختیار کی گئی ۔اس کے زریعے ملک میں عام سطح پر بجلی کے حصول اوراسے عوام تک پہنچانے کی کیا تدبیر اختیار کی گئی ۔ہائیڈرل پاور یونٹس کی مینٹینس پر کیوں توجہ نہیں دی جاتی۔ لائن لاسسز کو کم کرنے کی طرف توجہ کیوں نہیں۔ بجلی کے بحران سے نپٹنے کیلئے رینٹل پاور پر جتنا سرمایہ خرچ کیا جاتا رہا اگر اسے ڈیموں پر خرچ کیا جاتا تو اس سے قوم کا بھلا ہو تا لیکن اس سے سرمایہ کاروں کا مفاد متاثر ہوتا ۔ اس لیے قرض کی مے کو ترجیح دی گئی۔

شمسی توانائی کو ملک میں عام کر کے غریبوں تک اسے رسائی نہ دینے کی وجہ سمجھ سے بالا ہے۔ اس کے ساتھ ہی میں بڑی ہائوسنگ سوسائیٹوں کو بھی راغب کیا جا سکتا تھا کہ وہ شمسی توانائی کے یونٹس میں ترجیحی بنیادوں پر انوسٹمنٹ کر یں تاکہ ملک میں توانائی کے بحران سے نپٹنے میں آسانی ہو۔ بڑی ہائوسنگ سکیموں کو بائی آرڈر شمسی توانائی کے یونٹس لگانے کا کہا جا سکتا ہے۔ شمسی توانائی کے یونٹس  پر سبسڈی کیوں نہیں دی جارہی تاکہ عوام کو کم قیمت پر توانائی کے حصول کی ایک اور سہولت باہم پہنچائی جا سکے ۔ معاملات کوحل کرنے کی بجائے انہیں سیاسی ایشو بنا کر استعمال کرنے سے معاملات ختم نہیں ہوتے بلکہ مزید گھمبیر صورت حال اختیار کر جاتے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ اپوزیشن کا ایشو نہ بنایا جائے بلکہ اسے قومی مسلہ جان کر اسے حل کرنے کیلئے متبادل حل اختیار کیے جائیں۔ کاشغر ریلوے ٹریک بھی ضروری ہے لیکن اس سے کہیں اہم ایشو توانائی کا حصول ہے۔ بلٹ ٹرین کو اگر توانائی ہی میسر نہیں ہوگی تو وہ چلے گی کیا سیاسی بیانات کے ذور پر۔ ملک میں صنعت و حرفت سب کیلئے توانائی کی ضرورت ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس اہم ترین مسلہ کو حل کرنے کیلئے جنگی بنیادوں پر پالیسی اختیار کی جائے۔ ہائیڈرل یونٹس میں توسیع کے ساتھ شمسی توانائی سے بجلی کے حصول کیلئے پالیسی ترتیب دی جائے اور اس کیلئے سبسڈی دی جائے تاکہ یہ عام ہو کر ہائیڈرل یونٹس پر سے بوجھ کم کرے۔ اس کے علاوہ چھوٹے ہائیڈرل یونٹس جو محدود پیمانے پر لوکل سطح پر بجلی کی ضرورت کو پورا کر سکیں کو فروغ دیا جائے تاکہ بڑے ڈیموں کی تکمیل تک ان سے مستفید ہو ا  جا سکے ۔ہوا سے بجلی پیدا کرنے کیلئے بھی پہاڑی اور میدانی علاقوں میں یونٹس لگائے جائیں ۔ ان سے محدود پیمانے پر کم ازکم لوکل سطح پر توانائی کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔ اہم ترین چیز یہ ہے کہ بجلی کے لائن لاسسز کو کم کرنے کیلئے تاروں کا گچھا سسٹم کم کرنا ہوگا۔ ایک ہی جگہ پر تاروں کا گچھا بن جانے سے بجلی ضائع ہو تی ہے اور مسلسل ضائع ہوتی ہے۔ ضروری ہے کہ ایسی جگہوں پر جہاں کنڈا سسٹم کے امکانات زیادہ ہیں وہاں پر تاروں کو انڈر گرائونڈ کیا جائے تاکہ کھلی ہونے کے سبب ان پر کنڈ ا ڈالنے کی ترغیب ختم ہو جائے ۔بجلی کے بل گریڈ سٹیشن سے آوٹ ہونے والی بجلی کو پورے علاقے پر تقسیم کرنے کی روایت کی بجائے حقیقی طور پر میٹر ریڈنگ کے مطابق بل بھیجے جائیں تو اس سے بھی کنزیمر کیئر ہو گی ۔ میٹر ریڈنگ میں باضابطگیوں کی شکایت بھی عام ہے ۔ بجلی پوری پاور یعنی 440وولٹ نہیں مہیا کی جاتی جس کی وجہ سے بھی میٹر ریڈنگ ایکسٹرا آتی ہے ۔ اشیاء زیادہ طاقت لگاتی ہیں جس سے توانائی کا استعمال بھی زیادہ ہوتا او ر اس کا بل بھی زیادہ آتا ہے۔ یہ بل زیادہ آنے کی سب سے اہم وجہ بیان کی جا تی ہے۔ واپڈا میں اصطلاحات کی انتہائی ضرورت ہے ۔ توانائی کے اس بحران پر قابو پانے کے کئی طریقے ہیں اگر کوشش کی جائے تواس بحران پر غالب آیا جا سکتا ہے۔ نیک نیتی کے ساتھ اگر کا م کیا جائے تو بہت کم عرصے میں اس پر قابو پا کر ملکی معیشت اور سیاست دونوںسے اس ایشو کو آئوٹ کیا جا سکتا ہے۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *