Home / Socio-political / زمیں شق ہوئی نہ آسماں جلا !

زمیں شق ہوئی نہ آسماں جلا !

سمیع اللہ ملک

ہائے تشویش ہمیں تیرا خیال ہے ‘جب دیکھو ہم تجھ میں مبتلا رہتے ہیں ۔تجھ سے محبت کرتے ہیں ، ہائے ہائے کا درد کرتے ہیں ۔ ہاں ہم اظہار یکجہتی بھی کرتے ہیں تصویر یں کھنچوا تے ہیں اور پھر اخبارات میں چھپواتے ہیں تا کہ سندر ہے کہ ہم تشویش کی بیماری میں یکجہتی بھی کرتے ہیں ۔یہ دیکھو تصویر ی ثبوت، ہم دن مناتے ہیں ․․․․ ماں کا دن ، باپ کادن ، محبوبہ کادن، اور نجانے کتنے دن۔ کل ہمارے حکمرانوں نے مرحومہ نصرت بھٹو کے انتقال پر پورے ملک میں عام تعطیل منائی ہے اورمرحومہ کے سیاسی کارناموں پرخراج تحسین پیش کیاگیا اور اسی جماعت کے کئی دیگراکابرین تشویش میں مبتلا ہیں کہ اب یہ جماعت مکمل طورپرزرداری صاحب کوورثے میں مل گئی ہے جیساکہ انہوں نے پہلے ہی اپنے بچوں کے نام کے ساتھ بھٹوکے نام کے لاحقے کااضافہ کرلیاہے۔
دو دن پہلے ہم نے ایک خبر دیکھی ‘ٹی وی چینلز نے اپنے کیمروں کی آنکھ سے یہ منا ظر محفوظ کیے اور پھر چل سو چل ۔ غربت اور افلا س سے مجبور ماوٴں نے اپنے جگر گو شوں کے گلے میں”برائے فروخت“کی تختی لگاکرہمارے موجودہ معاشرے اورغریبوں کی حامی حکومت کابھیدکھول کررکھ دیاہے اورکئی ماں باپ توغربت کے ہاتھوں مجبورہوکراپنے بچوں کوایدھی کے حوالے کرکے غائب ہوگئے ہیں، وہ ایدھی جو گزشتہ باسٹھ سال سے سماج سیوا میں لگے ہوئے ہیں اور ہمیں کھا نا کھلا نے کے لیے بھیک بھی ما نگتے ہیں ۔ سینکڑوں کے حساب سے بچے ایدھی ہومزمیں پل رہے ہیں۔اگر دیکھنے کی ہمت اورتاب ہے توان معصوموں کودیکھنے ضرورجائیں کہ شائدضمیرجاگ اٹھے۔ تفصیلا ت تو آپ پڑھ چکے ہوں گے، بہت اچھے ہیں ہم سب۔
اس سے پہلے ہم نے برداشت کادن منا یا تھا ۔ لیکن آخر کب تک برا دشت!! بس تبلیغ ہی تبلیغ ، لیکچر ہی لیکچر ، باتیں ہی باتیں‘سیمینا ر سجائیے‘ یہ شداد کی جنت پنج ستارہ ہو ٹل کس لیے ہیں‘سجی ہوئی لمبی سی میز ،اس ترتیب سے رکھے ہوئے گلاس جن کے اندر سفید رومال ٹھنسا ہو تا ہے اور پھر منرل واٹر ۔ میز کے کناروں اور درمیان میں تازہ پھولوں کا ڈھیر‘گہری سوچ میں ڈوبے ، تشویش زدہ دانش ور ۔ آسودہ حال ، سوشل اور ٹائم پاس سا معین‘ٹشوپیپر ، کافی ، چائے ، پیسٹری اور کو کیز کے شوقین ۔ مستعد اور فرمانبر دار ویٹرز، اور ہر لمحے کو محفوظ کرنے والے کیمرے ‘کیا خواب ناک ما حول؟ اور پھر سیمینا ر ختم اور پیسہ ہضم ۔ وہی ڈھاک کے تین پات ، چکنے گھڑے ۔ ہر ایک پندرونصائح کا ٹوکر اسر پر اٹھا ئے گھوم رہا ہے۔ باتیں لے لو باتیں کتنے کلو چاہئیں ! لوگ مہنگائی کورورہے ہیں ۔ وہ شکوہ کررہے ہیں ارزانی نہیں ہے ارے کتنی باتیں چاہئیں ، کتنے لیکچر چاہئیں باتیں اور ہاں وہ بھی بالکل مفت ۔ دو چار من تو میں خود بھی تھامے گھوم رہا ہوں ۔ باتوں سے مر عوب کرنے والے روح سے خالی جسم اور ویسی ہی باتیں بس بو لنا ہے ۔ بولتے رہنا ہے کر نا کرانا کچھ نہیں ۔
ہم سب اشتہارکے رسیا ہیں ‘ بس اشتہار چھپا تو دوڑ پڑتے ہیں ۔ پھر ہر ایک کے دل میں درد بھر جاتا ہے تصویر کھنچوانی ہے ناں جناب ۔ پھر کوئی راشن لے کر پہنچ جا تا ہے کوئی نو کری دینے لگتا ہے ‘سب حاتم طائی کی اولادبن جاتے ہیں ۔ ویسے سو شل ڈنر کر تے ہیں پارٹیاں منعقد کرتے ہیں جھو م برابر جھوم ، دو دو لاکھ کا عروسی جوڑا ، اور لاکھوں روپے کے زیورات ، دکھا وا ہی دکھاوا ۔ پوچھا جائے کہ لائے کہاں سے یہ دولت ؟ تو تیوری پر بل پڑتے ہیں ۔ عمرے پر عمرہ ‘جہاز بھر بھر کر لے کر جاتے ہیں کروڑوں روپے قومی خزانے کے اور ثواب کا ثواب ۔ ابھی دیکھتے رہیے ‘ عید ِ قرباں پر ایک سے ایک خبر آئے گی اتنے لاکھ کا بکرا ‘ اتنے لاکھ کا بچھڑا ‘ ڈیڈی نے اتنے کر وڑ کے جانورقربان کردئیے ۔خاک بسر لوگ قربان ہورہے ہیں کسی کی کان پر جوں تک نہیں رینگتی ، سب کچھ اپنے اللے تللوں اور نمائش کیلئے‘ ہم وہ نمائشی بھکاری ہیں جنہیں اپنے پڑوسی کی خبر نہیں ہے اور رورہا ہوں پورے ملک کو ۔ یہاں کماوٴ حلال حرام کے چکر چھوڑو ۔ باہر کے بینکوں کے پیٹ بھر و۔ یہاں بھی عیش اور باہر بھی عیش ۔ رندکے رندرہے اور ہاتھ جنت نہ گئی ۔ اور عمرہ کرکے پاک پو تر ہو جاوٴ۔
سب ڈھکو سلہ ، جعلی پن بکواس ڈھٹائی ، بے حسی اور بے غیرتی ، وہ جناب عیسیٰ نے با آواز بلند کہا : مارو ضرور مارو پتھر لیکن پہلا پتھر وہ مارے گا جو پوترہو۔ ہم تو خودترسی کے مریض ہیں خدا کے لیے ترس کھاوٴ ہم پر ۔ زندگی کے نام پر بدترین موت ۔ کبھی دو پل نہیں سوچتے کہ کب تک ایسا ہو تا رہے گا کب تک بھیک ما نگیں گے! شرم وحیا کا لفظ ہی ہماری لغت سے غائب ہو گیا ہے ہمیں بھیک چاہیے دیتے جاوٴ ہمارے ساتھ جو چاہے کر لو ہاں جو چاہے کرو بہن لے لو ۔ ہماری بیٹی لے لو ۔ جو چاہو لے لو بس بھیک دے دو۔ لعنت ہے ایسے جینے پر ۔ کچھ نہیں بد لنے کا یہاں کچھ بھی نہیں ۔ ہم خو د کو نہیں بدلتے تو سما ج کیسے بدل جائے گا ! ہر ایک اپنا اُلو سیدھا کرنے میں لگا ہوا ہے ۔ بس آج کا دن گزارنا ہے اس پیٹ کے دوزخ کو بھر نا ہے چاہے عزت بیچنی پڑے‘ گا لیان سننی پڑیں بس پیٹ بھرنے کے لیے راتب دے دو۔ پھر سڑکوں پر آکر یہ جیوے وہ جیوے کے نعرے ، کب ہوش میں آئیں گے۔
وہی عشوہ گری ہے اور وہی رسمِ عزاداری یہاں طرزِ طرب، نہ شیوئہ ماتم بدلتا ہے
کہیں پر کسی مظلوم پر ظلم ہو تا ہے اور ہم سب تما شا دیکھتے ہیں ۔ اخبارمیں ایک خبر چھپی ‘سر خی تھی قبضہ گروپ کی چنگیزی ، مڈل کی طالبہ کو بر ہنہ کرکے کھمبے سے باندھ کر سر عام تشدد ، اہل محلہ کی منتیں ، حوا کی بیٹی پر چادر ڈالی ۔ آپ کہتے ہیں کہ میں بہت سخت زبان استعما ل کر تا ہوں ۔ ایک معصوم بچی کو پورے محلے کے سامنے برہنہ کیا گیا اور پورا محلہ ان کی منتیں کرتارہا ۔ اسے بے غیر تی نہ کہوں تو کیا کہوں ! اگر وہ متحد ہو جاتے تو کس کے باپ میں اتنادم ہے کہ وہ کسی معصوم بچی کو برہنہ کر تا ۔ لیکن جناب بہت پیاری ہے ہمیں اپنی جان ، بے غیرتی کا شا ہکا ر زندگی ۔ مجرموں کی بعد میں اور ان اہل محلہ کی کھال پہلے کھینچنی چاہیے کہ تم میں سے کوئی ایک بھی غیرت مند نہیں تھا سب کے سب بے غیرتی کا مجسمہ ! میں کہوں گا کہ پھر ایسے بے غیرتوں کو جینے کا حق ہی نہیں ہے ۔
کتنی خبریں سناوٴں ، بالکل صحیح کہتے تھے باباجی : جو سو یا ہوا ہوا سے جگا یا جا سکتا ہے جو سونے کی ایکٹنگ کر رہا ہو اسے کسی کا باپ بھی نہیں اٹھا سکتا ۔ آپ نہیں جان سکتے ناں اُس ماں کا دکھ جس کی بیٹی کے ساتھ یہ سلوک ہوا ! ہم سب نے انہیں زندہ در گور کر دیا جیسے ہمیں تو ایک چٹخار ے دار خبر مل گئی دوسری خبر آنے تک اس سے مزے لیں گے ۔ اور دوسری خبر بھی زیادہ دور نہیں ہے۔ صوبہ سندھ کے ہمارے صوبائی وزیر قانون وپارلیمانی امورچائلڈ ایکٹ کے تحت ان والدین کے خلاف کا رروائی کرنے جارہے ہیں جو غربت سے تنگ آکر اپنے بچے ایدھی کے حوالے کریں گے‘قانون کی حکمرانی زندہ باد ۔ اوہو یہ تو میں بھول گیا کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے حکمرانوں نے غربت،مہنگائی اورکرپشن کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کااعلان کردیا ہے اوردوسری طرف عمران خان نے بھی ملک میں انقلاب برپاکرنے کرنے کیلئے لاہورکاانتخاب کیاہے۔
آپ ضرور جائیں ‘میں بھلا کون ہوتا ہوں آپ کو روکنے والا‘ ریلی ریلی اورسیمینار سیمینار کھیلیں ، باتیں بیچیں ، باتیں کھائیں ، جو زف ہیلر کے افسانے ”آشوب شہر “ کا ایک جملہ یاد آگیا :”ہمارے گھر آنے والے غربیوں کو ہمارے انداز رہائش سے لطف اٹھا نے کی اجازت ہے “۔
کچھ اور دیر نمائش ہے شور وشر کی یہاں یہ اک حباب ہے موجِ فنا پہ ٹھہرا ہے
فروغِ حسن سرورِ کشید دل سے ہے نشاطِ عشق غم بے بہا پہ ٹھہرا ہے

زمیں شق ہوئی نہ آسماں جلا !سمیع اللہ ملک ہائے تشویش ہمیں تیرا خیال ہے ‘جب دیکھو ہم تجھ میں مبتلا رہتے ہیں ۔تجھ سے محبت کرتے ہیں ، ہائے ہائے کا درد کرتے ہیں ۔ ہاں ہم اظہار یکجہتی بھی کرتے ہیں تصویر یں کھنچوا تے ہیں اور پھر اخبارات میں چھپواتے ہیں تا کہ سندر ہے کہ ہم تشویش کی بیماری میں یکجہتی بھی کرتے ہیں ۔یہ دیکھو تصویر ی ثبوت، ہم دن مناتے ہیں ․․․․ ماں کا دن ، باپ کادن ، محبوبہ کادن، اور نجانے کتنے دن۔ کل ہمارے حکمرانوں نے مرحومہ نصرت بھٹو کے انتقال پر پورے ملک میں عام تعطیل منائی ہے اورمرحومہ کے سیاسی کارناموں پرخراج تحسین پیش کیاگیا اور اسی جماعت کے کئی دیگراکابرین تشویش میں مبتلا ہیں کہ اب یہ جماعت مکمل طورپرزرداری صاحب کوورثے میں مل گئی ہے جیساکہ انہوں نے پہلے ہی اپنے بچوں کے نام کے ساتھ بھٹوکے نام کے لاحقے کااضافہ کرلیاہے۔ دو دن پہلے ہم نے ایک خبر دیکھی ‘ٹی وی چینلز نے اپنے کیمروں کی آنکھ سے یہ منا ظر محفوظ کیے اور پھر چل سو چل ۔ غربت اور افلا س سے مجبور ماوٴں نے اپنے جگر گو شوں کے گلے میں”برائے فروخت“کی تختی لگاکرہمارے موجودہ معاشرے اورغریبوں کی حامی حکومت کابھیدکھول کررکھ دیاہے اورکئی ماں باپ توغربت کے ہاتھوں مجبورہوکراپنے بچوں کوایدھی کے حوالے کرکے غائب ہوگئے ہیں، وہ ایدھی جو گزشتہ باسٹھ سال سے سماج سیوا میں لگے ہوئے ہیں اور ہمیں کھا نا کھلا نے کے لیے بھیک بھی ما نگتے ہیں ۔ سینکڑوں کے حساب سے بچے ایدھی ہومزمیں پل رہے ہیں۔اگر دیکھنے کی ہمت اورتاب ہے توان معصوموں کودیکھنے ضرورجائیں کہ شائدضمیرجاگ اٹھے۔ تفصیلا ت تو آپ پڑھ چکے ہوں گے، بہت اچھے ہیں ہم سب۔ اس سے پہلے ہم نے برداشت کادن منا یا تھا ۔ لیکن آخر کب تک برا دشت!! بس تبلیغ ہی تبلیغ ، لیکچر ہی لیکچر ، باتیں ہی باتیں‘سیمینا ر سجائیے‘ یہ شداد کی جنت پنج ستارہ ہو ٹل کس لیے ہیں‘سجی ہوئی لمبی سی میز ،اس ترتیب سے رکھے ہوئے گلاس جن کے اندر سفید رومال ٹھنسا ہو تا ہے اور پھر منرل واٹر ۔ میز کے کناروں اور درمیان میں تازہ پھولوں کا ڈھیر‘گہری سوچ میں ڈوبے ، تشویش زدہ دانش ور ۔ آسودہ حال ، سوشل اور ٹائم پاس سا معین‘ٹشوپیپر ، کافی ، چائے ، پیسٹری اور کو کیز کے شوقین ۔ مستعد اور فرمانبر دار ویٹرز، اور ہر لمحے کو محفوظ کرنے والے کیمرے ‘کیا خواب ناک ما حول؟ اور پھر سیمینا ر ختم اور پیسہ ہضم ۔ وہی ڈھاک کے تین پات ، چکنے گھڑے ۔ ہر ایک پندرونصائح کا ٹوکر اسر پر اٹھا ئے گھوم رہا ہے۔ باتیں لے لو باتیں کتنے کلو چاہئیں ! لوگ مہنگائی کورورہے ہیں ۔ وہ شکوہ کررہے ہیں ارزانی نہیں ہے ارے کتنی باتیں چاہئیں ، کتنے لیکچر چاہئیں باتیں اور ہاں وہ بھی بالکل مفت ۔ دو چار من تو میں خود بھی تھامے گھوم رہا ہوں ۔ باتوں سے مر عوب کرنے والے روح سے خالی جسم اور ویسی ہی باتیں بس بو لنا ہے ۔ بولتے رہنا ہے کر نا کرانا کچھ نہیں ۔ ہم سب اشتہارکے رسیا ہیں ‘ بس اشتہار چھپا تو دوڑ پڑتے ہیں ۔ پھر ہر ایک کے دل میں درد بھر جاتا ہے تصویر کھنچوانی ہے ناں جناب ۔ پھر کوئی راشن لے کر پہنچ جا تا ہے کوئی نو کری دینے لگتا ہے ‘سب حاتم طائی کی اولادبن جاتے ہیں ۔ ویسے سو شل ڈنر کر تے ہیں پارٹیاں منعقد کرتے ہیں جھو م برابر جھوم ، دو دو لاکھ کا عروسی جوڑا ، اور لاکھوں روپے کے زیورات ، دکھا وا ہی دکھاوا ۔ پوچھا جائے کہ لائے کہاں سے یہ دولت ؟ تو تیوری پر بل پڑتے ہیں ۔ عمرے پر عمرہ ‘جہاز بھر بھر کر لے کر جاتے ہیں کروڑوں روپے قومی خزانے کے اور ثواب کا ثواب ۔ ابھی دیکھتے رہیے ‘ عید ِ قرباں پر ایک سے ایک خبر آئے گی اتنے لاکھ کا بکرا ‘ اتنے لاکھ کا بچھڑا ‘ ڈیڈی نے اتنے کر وڑ کے جانورقربان کردئیے ۔خاک بسر لوگ قربان ہورہے ہیں کسی کی کان پر جوں تک نہیں رینگتی ، سب کچھ اپنے اللے تللوں اور نمائش کیلئے‘ ہم وہ نمائشی بھکاری ہیں جنہیں اپنے پڑوسی کی خبر نہیں ہے اور رورہا ہوں پورے ملک کو ۔ یہاں کماوٴ حلال حرام کے چکر چھوڑو ۔ باہر کے بینکوں کے پیٹ بھر و۔ یہاں بھی عیش اور باہر بھی عیش ۔ رندکے رندرہے اور ہاتھ جنت نہ گئی ۔ اور عمرہ کرکے پاک پو تر ہو جاوٴ۔ سب ڈھکو سلہ ، جعلی پن بکواس ڈھٹائی ، بے حسی اور بے غیرتی ، وہ جناب عیسیٰ نے با آواز بلند کہا : مارو ضرور مارو پتھر لیکن پہلا پتھر وہ مارے گا جو پوترہو۔ ہم تو خودترسی کے مریض ہیں خدا کے لیے ترس کھاوٴ ہم پر ۔ زندگی کے نام پر بدترین موت ۔ کبھی دو پل نہیں سوچتے کہ کب تک ایسا ہو تا رہے گا کب تک بھیک ما نگیں گے! شرم وحیا کا لفظ ہی ہماری لغت سے غائب ہو گیا ہے ہمیں بھیک چاہیے دیتے جاوٴ ہمارے ساتھ جو چاہے کر لو ہاں جو چاہے کرو بہن لے لو ۔ ہماری بیٹی لے لو ۔ جو چاہو لے لو بس بھیک دے دو۔ لعنت ہے ایسے جینے پر ۔ کچھ نہیں بد لنے کا یہاں کچھ بھی نہیں ۔ ہم خو د کو نہیں بدلتے تو سما ج کیسے بدل جائے گا ! ہر ایک اپنا اُلو سیدھا کرنے میں لگا ہوا ہے ۔ بس آج کا دن گزارنا ہے اس پیٹ کے دوزخ کو بھر نا ہے چاہے عزت بیچنی پڑے‘ گا لیان سننی پڑیں بس پیٹ بھرنے کے لیے راتب دے دو۔ پھر سڑکوں پر آکر یہ جیوے وہ جیوے کے نعرے ، کب ہوش میں آئیں گے۔  وہی عشوہ گری ہے اور وہی رسمِ عزاداری یہاں طرزِ طرب، نہ شیوئہ ماتم بدلتا ہے کہیں پر کسی مظلوم پر ظلم ہو تا ہے اور ہم سب تما شا دیکھتے ہیں ۔ اخبارمیں ایک خبر چھپی ‘سر خی تھی قبضہ گروپ کی چنگیزی ، مڈل کی طالبہ کو بر ہنہ کرکے کھمبے سے باندھ کر سر عام تشدد ، اہل محلہ کی منتیں ، حوا کی بیٹی پر چادر ڈالی ۔ آپ کہتے ہیں کہ میں بہت سخت زبان استعما ل کر تا ہوں ۔ ایک معصوم بچی کو پورے محلے ک] ]>

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *