مالدیپ کی خوبصورت سر زمین سترھویں سارک اعلی ٰ سطحی سر براہی کانفرنس کی شاہد بنی ۔ اس کانفرنس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کانفرنس میں شروع سے آخر تک خوشگواری کا ماحول رہا ۔ یہ خوشگواری بنیادی طور پر ہند و پاک کے خوشگوار ماحول میں بات چیت ہے ۔ عام طور پر گذشتہ کئی سارک کانفرنس ہندو پاک کی کشیدگی کے ارد گرد گھومتا رہا ہے ۔کیونکہ سارک ممالک میں ا ن دونوں ملکوں کو کئی اعتبار سے امتیاز حاصل ہے ، یہ دونوں ملک جغرافیائی اعتبار سے بھی اہم ہیں اور عالمی منظر نامے میں بھی ان دو ممالک کو خاصی اہمیت حاصل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سارک کے دیگر رکن ممالک کی نگاہیں بھی انھیں ملکوں کی جانب لگی رہتی ہیں۔ برسوں بعد یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان اور ہندستان کے درمیان رسمی ملاقات میں جو بات چیت ہوئی ہے اس میں بہت ہی اہم امکانات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ خود وزیر اعظم منموہن سنگھ نے یہ کہا کہ ہم دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط اور مستحکم رشتہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی اس بات کو زور دے کر کہا کہ آئندہ مذاکرات زیادہ ٹھوس اور نتیجہ خیز ہوں گے۔ مذاکرات کے بعد دونوں رہنماؤں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا جس میں ہندستان کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کہا کہ ’دونوں ملک الزام تراشی میں پہلے ہی بہت وقت ضائع کر چکے ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ وزیر اعظم گیلانی اس بات سے پوری طرح اتفاق کرتے ہیں کہ اب تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز کرنے کا وقت آگیا ہے اور بات چیت کے اگلا دور زیادہ نتیجہ خیز ہونا چاہیےتاکہ دونوں ملک ایک دوسرے کے اتنا قریب آسکیں جتنا پہلے کبھی نہیں تھے۔پاکستانی وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے پانی، دہشت گردی، کشمیر، سرکریک، سیاچن اور تجارت جیسے تمام کلیدی معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔ اس خوشگوار ماحول کا سارک کے تمام رکن ممالک نے بھی خیر مقدم کیا ۔ ہندستان کی جانب سے بھی اس کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جن مسائل کو لے کر ہندستان کی فکر رہی ہے ان مسائل کی جناب اب پاکستان نے توجہ دی ہے ۔ جیسے ممبئی حملوں کے سلسلے میں پاکستان کے متضاد بیانات نے ماحول کو کشیدہ کیا تھالیکن اب پاکستان کی جانب سے یہ بیان آیاہے کہ ممبئی حملے کی مجرم قصاب کوپھانسی ملنی چاہیے ۔ یہ ایک مثبت بیان ہے لیکن اس کے ساتھ دیگر پہلووں پر بھی غور کرتے ہوئے ان مجرموں کے حوالے سے بھی اقدام کی ضرورت ہے جن کا نام اس حوالے سے آرہا ہے ۔ مثلاً حافظ سعید کو پاکستان نے اب تک اس حوالے سے بے قصور ٹھہرایا ہے ، جبکہ اس معاملے میں حافظ سعید کو بھی کلیدی رول رہا ہے اس لیے پاکستان کو حافظ سعید کے حوالے سے بھی سوچنے کی ضرورت ہے ۔ قصاب چونکہ ہندستان کی قید میں ہے اور اس پر مقدمہ چل رہاہے ۔ جبکہ حافظ سعید پاکستان میں موجود ہیں اور ان کی دیگر سر گرمیوں پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے ۔ ایسے میں اگر پاکستان حافظ سعید کی یا تو بے گناہی ثابت کرے یا ہندستان کی جناب سے دئے گئے ثبوت کی جانچ پر کھ کے بعد کوئی قدم اٹھائےتو رشتوں کی استواری میں مزید استحکام آئے گا۔کیونکہ اس سے ہندستان کی شکایت ختم ہوجائے گی ۔
اس کانفرنس کی بعد پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے بھی بیان جاری کرتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا گیا ہے اور پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کا کہنا ہے کہ مالدیپ میں پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کے درمیان بات چیت سے رابطوں کو مزید فروغ حاصل ہوا ہے۔دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات کے نتیجہ خیز حل کے لیے بات چیت کی جائے گی۔دونوں ممالک کی جانب سے ملاقاتوں کے شیڈول کو بھی طے کرنے پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے۔بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں اس بات پر بھی اتفاق رائے کیا گیا ہے کہ پاک بھارت جوائنٹ کمیشن پر پہلے ٹیکنیکل ورکنگ گروپس کے اجلاس بھی بلائے جائیں گے۔ہندستان کے ہوئے خارجہ سیکریٹری رنجن مٹھائی نے بتایا کہ دونوں ملکوں نے مشترکہ کمیشن کی بحالی، ویزا کی شرائط میں نرمی اور تجارت کے فروغ کے لیےکام کرنے پر اتفاق کیا۔ بھارت نے پاکستان سے کہا کہ ممبئی پرحملوں کے ملزمان کو سزا دینے میں تاخیر نہیں کی جانی چاہیے اور دہشت گردی کو بہتر ہوتے ہوئے تعلقات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا جانا چاہیے۔ادھر ہندستان کی عدالت عالیہ نے ہندستانی جیلوں میں بند پاکستانی قیدیوں کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت کرتے ہوئے حکومت کو دو ہفتے میں ایسے پاکستانیوں کے بارے میں ایک جامع رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے جو لمبے عرصے سے قید ہیں اور جن پر کبھی مقدمہ نہیں چلایا گیا ہے۔اور یہ بھی حکم دیا ہے کہ حکومت یہ بھی بتائے کہ بھارتی جیلوں میں قید چار پاکستانی خواتین کو کیوں بلا تاخیر وطن واپس نہ بھیج دیا جائے۔ سپریم کورٹ کے اس اقدام کا پاکستان کی جانب سے خوش آمدید کیا گیا۔
ان تمام احوال کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے واقعی اب ہند و پاک کے درمیان نئے دور کی ابتدا ہونے والی ہے ۔خدا کرے کہ ایسا ہی ہو لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ملکوں کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ صحافتی ادارے بھی اہم رول ادا کریں ۔ خاص طور پر صحافتی ادارے عوامی سطح پر ذہن سازی کا کام کرتے ہیں ، انھیں چاہیے کہ اس طرح کے اقدام کو سراہیں اور عوامی ذہن سازی کا کام کریں ۔ گزشتہ دودنوں سے ہندستان کے اخبارات نے بہتر رپورٹنگ کی ہے اور نے جا تنقید کی باتیں کم ہی سامنے آئی ہیں ۔ لیکن پاکستان کے ایک بڑے اخبار روز نامہ جنگ کے ادرایے میں اس کی تعریف کرتے ہوئے ایک ایسے مسئلے کو اٹھایا گیا ہے جس پر اگر ابھی ہی زور دیا گیا یا اس کو اولین ترجیحات میں رکھا گیا تو شاید پھر سے بات آگے نہیں بڑھے گی ، اس اداریے میں کہا گیا ہے کہ :‘‘جہاں تک پاکستان اور بھارت کی جغرافیائی پوزیشن کا تعلق ہے تو دونوں پڑوسی ملکوں کا شمار اس خطے کے اہم ممالک میں ہوتا ہے۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ جہتی تعلقات کے علاوہ تجارت کے فروغ کی جو پالیسی اختیار کی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ بھارت بھی اس پالیسی کا مثبت جواب دیتے ہوئے کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینے کی رٹ چھوڑ دے۔ اس لئے کہ اگر بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے تو پھر پاکستان کے موقف کی پذیرائی اور خود اقوام متحدہ میں عالمی برادری کے سامنے بھارتی حکمرانوں کی طرف سے کشمیری عوام کو حق خود ارادیت کے ذریعے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دینے کے وعدوں کی کیا حقیقت باقی رہ جاتی ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد تنازع کشمیر پر پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خاں، بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو، اس کے بعد پاکستان کے ہر حکمران نے بھارتی حکمرانوں خاص طور پر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اس مسئلہ پر بھارتی وزیر خارجہ سورن سنگھ سے جو طویل مذاکرات کئے ان میں سے کوئی ایک بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکا اور وقت کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ نے بھی بھارتی حکمرانوں کے وعدوں کے باوجود اس پر خاموشی اختیار کرلی جس سے یہ تنازع دن بدن شدت اختیار کرتا چلا گیا، دونوں ملکوں کے درمیان اس مسئلہ پر تین خوفناک جنگیں بھی لڑی جا چکی ہیں۔ خاص طور پر یک طاقتی عالمی نظام کے بعد امریکی دباؤ کے تحت حق و انصاف کی بنیادوں پر اس مسئلے کا کوئی حل دکھائی نہیں دیتا۔ پاکستان کو اب پھر ایک مرتبہ امریکہ اور روس نے بھارت کے ساتھ مل بیٹھنے پر مجبور کیا ہے۔ پاکستان کے کم و بیش تمام وزرائے اعظم اور وزرائے خارجہ ہمیشہ اپنے بھارتی ہم منصبوں کی تعریف و تحسین کرتے چلے آئے ہیں لیکن ایک ملک کی طرف سے یکطرفہ موقف پر ڈٹے رہنے کے باوجود دوسرے ملک کی طرف سے ایک اہم ترین تنازع کے پرامن حل کی توقع رکھنا بے معنی بات ہے۔’’ اوراسی اخبار کے اداراتیہ مضمون بعنوان‘‘وہاں کچھ ہوتا ہی نہیں ’’میں نذیر ناجی نے لکھا ہے کہ حالیہ سارک کانفرنس انہی توقعات کے سایوں میں منعقد ہوئی جو گزشتہ 16کانفرنسوں سے کی جاتی رہی ہیں۔ یعنی توقعات پوری کئے بغیراور نتیجوں سے خالی۔ اس کی بنیادی وجہ دو بڑے ملکوں پاکستان اور بھارت کے بنیادی تنازعات ہیں۔ پہلی کانفرنسوں میں جانے سے قبل کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ پاکستان اور بھارت دونوں کی طرف سے کافی تیاریاں کی گئی تھیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلا اور یہ تنظیم جسے علاقائی تجارت کو فروغ دینے کے لئے قائم کیا گیا تھا‘ ابھی تک پاک بھارت کشیدگی کی یرغمالی بنی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے باقی رکن ملکوں میں بے چینی پیدا ہوئی اور سنا ہے کہ اب وہ رکن ممالک پاکستان اور بھارت سے علیحدہ ‘ باہمی تجارتی تعاون کے انتظامات پر غور کر رہے ہیں۔ شاید انہوں نے صحیح سوچا ہے۔ کیونکہ پاکستان اور بھارت ایک نئی سردجنگ کی دہلیز پر قدم رکھنے والے ہیں۔
جنگ کے اس اداریے اور ادارتی مضمون میں ماضی کی تلخیوں کو دہرایا گیا ہے ۔ حالانکہ اس ملاقات میں کشمیر کے حوالے سے بھی بات کرنے پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے ۔ اس لیے اگر اس کااسلوب رجائی ہوتا اور یہ نئی امیدوں کی جانب نئے امکانات پر بات کی جاتی تو یہ زیادہ مناسب تھا۔ اسی لیے میں اس موقف کو دہرانا چاہتا ہوں کہ ابھی ہمیں امن کی آشا کو قائم رکھنے کی ضروت ہے ۔ اور امن کی آشا میں روزنامہ جنگ بھی تو شامل ہے اس لیے ماضی کی تلخیوں کو بھول کر نئے سرے سے مذاکرات کو شروع کرنے پر دونوں ممالک کے سر براہوں پر زور ڈالنا چاہیے تا کہ کچھ مثبت نتائج سامنے آئیں ورنہ اب وہ دن بھی دور نہیں ہے کہ نئی نسل کے لوگ ان مذکرات کو بھی نا پسند کرنے لگیں گے اور مذاکرات کے دروازے ہی نہ بند ہوجائیں ۔ موجودہ عالمی منظر نامے کے حوالے سے بھی یہ وقت کا اہم تقاضہ ہے کہ ہندستان اور پاکستا نکے درمیان ہر سطح پر تعلقات بحال ہوں ۔مجھے امید ہے کہ اس کانفرنس کے نتایج بار آوار ہوسکتے ہیں اس کے ہمیں پر امید رہنے کی ضروت ہے اور مثبت فکر کو پروان بھی چڑھانے کی ضرورت ہے ۔ اگر ایسا ہو سکا تو یقیناً اس کے نتائج با آور ہوں گے۔