Home / Socio-political / سبز باغ

سبز باغ

سبز باغ
                          عباس ملک

ٹانگہ پارٹیوں والے عوام کے درد میں جنہیں آج عوام کا مجرم بتا رہے ہیں ماضی میں کبھی وہ شخصی آمریت یا جبری آمریت کے سہارے بنے  انہی کی گال کے بوسے لیتے تھے۔ فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ دینے والے نے آمریت کیلئے فرینڈلی کردار ادا کرنے کے جرم کا ازالہ کرنے کی سوچی ہے یا اقتدار سے دوری کا نالہ گریہ ہے۔ آج سچ بولنے پر کیسے مجبور ہیں۔ اپنی ساکھ بچانی اورتانگہ پارٹی کیلئے سواریوں کا بندوبست کرنا ہے۔ووٹوں کیلئے پورا پاکستان اتھل پتھل کرتے اـسی قائد کی پگڑی اچھالنے کیلئے ہراول کردار ادا کر رہے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ بکے ہیں یا جھکے ہیں لیکن اپ ہٹ گئے ہیں۔ آپ نے جگہ کیوں چھوڑی اور آپ نے پہلے کیوں قوم کواس شخص کی ضمانت دی کہ یہ ہی بہترین قیادت ہے۔ آپ کے ماضی کا اعتبار کیا جائے یا حال پر بھروسہ کیا جائے یا پھر آپ ماضی میں بھی ہمیں دھوکا دیتے رہے اور حال میں بھی گمراہ کر رہے ہیں۔

سیاستدانوں کاکون سا روپ سچا ہوتا ہے جب وہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں یا کسی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ ان کا کردار عوام کو بہکانے کے سوا کیا ہے۔ یہ پہلے کسی کے گھٹنے چھوتے ہیں تو پھر کچھ عرصہ بعد انہیں اس میں ہڈی نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ جس کو یہ مسیحا کہتے تھے اب وہ قصائی ہو گیا۔ جھوٹ کیا ہے جو پہلے بولتے تھا یا جو یہ جھوٹ ہے۔ کریڈٹ پر چند کالجز اور سکول کی اپ گریڈیشن یا چند کلو میٹر سڑک اور چند نالیوں کی تعمیر قومی خدمات قرار دی جا سکتی ہیں۔

سینٹ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران جب نالیوں گلیوں میں بیٹھ کر سوچیں گے تو اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ انسانی حقوق کا باب تشنہ ہی رہے گا۔انسانی حقوق کا نصاب کیا ہے ۔ایک اسلامی معاشرے میں عوام کو کیا حقوق حاصل ہیں اور حکمرانی کا فرض کتنا کٹھن ہے شاید ہمارے حکمران اس سے آشنا ہی نہیں۔ حق نمائیندگی کو شادی بیاہ اور جنازے میں شرکت یا تھانے کچہری میں ساتھ کے ساتھ جوڑ کر سیاست کو کتنا محدود اور کتنا پست کردار کردیا گیا۔جو قوم چھوٹے مقاصد سے ہی مطمئن ہو جائے تو راہنمائوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ اپنی جان ہلکان کریں ۔

 قبضے قتل اور اعانت جرم دھوکا دہی فراڈ کے ملزمان عوامی خادم اور سماجی راہنما کے طور پر معاشرے میں مقام بنا لیں وہاں پر شرافت کہاں پناہ گزیں ہوگی۔ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ جن پر نیب میں کیس رجسٹرڈ ہیں انہیں اے پی سی کی سربراہی سونپ دی گئی ۔ وہی جن کے پر ٹیکس چوری کے الزامات ہیں انہیں ٹیکس ریکوری کا اختیار دے دیا گیا۔ جن پر دھوکا دہی کی دفعات لگی ہیں انہیں قانون کی پاسبانی کا فریضہ عطا کر دیا گیا۔

افتخار چوہدر ی صاحب اوور ایج ہو گئے لیکن کیا پاکستان میں اور کوئی اوور ایج اس وقت کسی ادارے میں جاب نہیں کر رہا ۔کیا اس وقت تمام اداروں میں قانون وآئین کی پاسداری کی ایسی ہی اعلیٰ روایات کی اجارہ داری ہے ۔

 آئین وقانون کی پاسداری کی جائے لیکن اس کا اطلاق ہر جگہ پر یکساں ہونا چاہیے۔ کردار کا شخص یا اصولوں کی پاسداری کی طاقت رکھنے والوں کو راہ کا روڑا جان کر قانون کا اطلاق ان پر ہی کیوں۔ ایسے کئی لوگ اس وقت بھی مختلف اداروں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں جن کی عمریں رٹیائرمنٹ کی عمر سے زیادہ ہیں۔ میرٹ پر آئے ہوئے کو حق دینے کی بجائے اسے مجبور کر دیا جائے کہ وہ مستعفی ہو جائے تو پھر میرٹ کاتقدس کیسے بحال ہو سکتا ہے۔ معاشرے میں انقلابی اقدامات میرٹ کی پیروی سے ممکن ہے۔وہی سیاستدان جو اقتدار میں آنے پر میرٹ کے اطلاق کو ترجیح قرار دیتے تھے انہی کے ہاتھوں میرٹ کا جنازہ اٹھتا دیکھ کر ذومعنی پالیسی پر ایمان کیسے نہ لایا جائے ۔ معاشرے کوسیاسی خاندانوں کی تجربہ گاہ بنا کر مرضی مسلط کرنے کی آزادی میرٹ کیسے قرار پاتی ہے۔ جمہوریت کے نام پر شخصیتوں کو معاشرے پر  مسلط کرنا جمہوری سوچ مجروح کرتا ہے۔ پٹے ہوئے مہروں کا بار بار روپ بدل کر اپنا کردار ادا کرنا معاشرے جان گسال حزر جان معاملہ بن چکاہے۔ سیاست کو سماج کی خدمت کی بجائے حصول اقتدار واختیار کا زینہ بنا لینا جمہوریت نہیں ۔ شخصی آمریت کی راہ گذر کا سنگ میل ہے ۔

ایسے معاملات پر نیشنل میڈیا میں بات کرنا معیوب جانا جاتا ہے جس سے قومی یکجہتی یا اداروں کی عزت پر حرف آتا ہے۔یہ ضروری ہے کیونکہ اگر اداروں پر اعتبار ختم کر دیا جائے تو پھر معاشرے کے دست وبازو قطع کرنے کے مترادف ہے۔ادارے اگر اپنے فرائض ادا کرنے میں کوتاہ ہو جائیں تو معاشرہ جنگل سماں ہو جاتا ہے۔ دونوں صورتیں انتہائی اہم صورتحال کی عکاس ہیں۔ ایسے میں ہر دو کو ضروری ہے کہ وہ اپنے مفادات کیلئے اپنے فرائض کی ادائیگی آئین وقانون کے تقاضوں کی روشنی میں کریں۔ ایک شخص جو روایت شکن ہوتا ہے اس پر مخصوص لابی اس کے خلاف متحرک ہو جاتی ہے۔اس کے خلاف محاذ بنا کر اس کی مذمت اور مزاحمت دونوں کی جاتی ہے۔ایک شخص نے ہاں کی روایت کو توڑا لیکن بجائے اس کے اس کو راہنما کردار جانا جائے اس پر تنقید کر کے اس کی اہمیت کو گہنا نے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاکہ آنے والے وقتوں میں کوئی اور ایسا کرنے کی بجائے ہاں کو ہی ترجیح دے ۔ہم ہر ایسے کردار کو مٹانے پر تل جاتے ہیں جس سے بہتری کی طرف یا اچھی روایت کی طرف پیش قدمی کی توقع ہو۔ ہر ایسا کردار جو دھوکا دہی منافقت جھوٹ و فریب کی راہ کا مسافر ہو ہمارے لیے ہیرو ہے۔

ہم نے خود ہی سچائی کو رستہ نہ دینے کی رسم وقسم دونوں بنا رکھی ہیں۔

سارے ملک کو کنٹریکٹ پر چلانے کی کوشش سے اس کے مستقل ہمدردوں کیلئے جگہ کم ہی رہ جاتی ہے۔مزدور دیہاڑی دار کے حقوق کی کوئی تنظیم نہیں جومزدور یا کم آمدنی والے گریڈ فور لوگوں کے حقوق کا دفاع کر پائے ۔ایمنسٹی پاکستان کے ممبران جب خوف زدہ ہوں تو اگے کیا کہا جا سکتا ہے۔ کنٹریکٹ کی اذیت سے دوچار اصل لوگ آج بھی کسی مسیحا کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ چند اداروں کے مخصوص لوگ اگر مستفید ہو رہے ہیں تو اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ اس اذیت سے معاشرے کو پاک کر دیا گیا ۔یہاں ادارے کے ادارے کنڑیکٹ پر موجود ہیں ۔ اداروں میں مستقل ملازمین کے بنیادی اصول سے انحراف کے باوجود بھی ان کا کوئی بال بیکا نہیں کر پایا۔ سیاستدان خود تو مرتے دم تک سیاست سے چمٹے رہتے ہیں اور ان کی کوئی عمر کی حد نہیں لیکن باقی پورے معاشرے کیلئے عمرکی قید ہے۔نہ ان کیلئے کوئی میڈیکل کی شرط نہ ہی کوئی علم کی کوئی ڈگری نہ ہی کردارکو ئی سرٹیفکیٹ موج ہی موج ہے۔جیل سے نکل کر اسمبلی میں اور اسمبلی سے نکل کر جیل میں کوئی اے سی آر خرآب نہیں ہوتی کوئی ریڈ انٹری نہیں ہوتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اہل ہوں یا نااہل انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ ساری عمر ایک کو لیڈر قرار دیتے ہیں تو جب انہیں سمجھ نہیں آتی تو پھر اسی کو یہ غدار کہنا شروع ہو جاتے ہیں۔ سبز باغ دکھاتے ہیں او ر انہوں نے معاشرے کو چراگاہ اور عوام کو بھیڑ بکریاں بنا رکھا ہے۔ عوام کب خود کو انسان سمجھ کر ان کے ہاتھ سے لاٹھی چھینتے ہیں یہ عوام کی سوچ اور خودی کا امتحان ہے۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *