Home / Socio-political / سربجیت پر حملہ : ذمہ دار کون؟

سربجیت پر حملہ : ذمہ دار کون؟

سربجیت پر حملہ : ذمہ دار کون؟

پاکستان میں الیکشن کا دور دورہ ہے اور ہر طرف الیکشن کے ہی چرچے ہیں۔ کہیں الیکشن کا جوش و خروش کے ساتھ استقبال کیا جا رہا ہے تو کہیں لوگ اس جمہوری تہوار کی وجہ سے خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ پاکستان میں شدت پسندوں اور غیر جمہوری طاقتوں کا چہرہ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ خیر الیکشن میں جو ہونا ہوگا ہوگا لیکن ان انتہا پسند قوتوں  کے اثر و رسوخ کا یہ عالم ہے کہ یہ جہاں  چاہیں وہاں اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔ لاہور کے کوٹ لکھپت جیل میں سربجیت پر جان لیوا حملہ اس  کی زندہ مثال ہے۔ سربجیت سنگھ پاکستان کی جیل میں قید ایک ہندوستانی شہری ہے جسے دہشت گردی کےالزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ وہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھا یا نہیں اس کے فیصلے کے لئے عدالتیں ہیں اور انہوں نے جو فیصلہ دیا اس سے اختلاف رائے ہو سکتی ہے لیکن بہر حال اس کو ماننا پڑے گا۔ پاکستان کے قانون کے تحت ہی سربجیت سنگھ کی معافی کی عرضی صدر پاکستان  کے فیصلے کی منتظر ہے۔  ہم کہہ سکتے ہیں کہ سارا معاملہ قانون کے تحت ہو رہا تھا اور کبھی بھی بھارت کی حکومت نے اس کارروائی میں زبر دستی دخل اندازی کی کوشش نہیں کی۔  حالانکہ پاکستان کی انہیں عدالتوں میں سزا یافتہ مجرموں کو وہا کی انتظامیہ نے بہت آسانی کے ساتھ ملک کے سرحد پار کرنے کی اجا زت دی ہے اور کچھ معاملوں میں تو حکومت نے دوسرے فریق پر دباؤ تک ڈالا ہے کہ وہ مقدمہ واپس لے لے۔ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ ابھی تازہ ہی ہے ۔

                حکومت جو حال ہی میں بین الاقوامی اجلاس میں بھارت کو پانی کے معاملے پر مورد الزام ٹھہراتی رہی ہے اور بین الاقوامی قوتوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتی رہی ہے کہ بھارت اس کے ساتھ جبر کا رویہ روا رکھتا ہے کیسے ان حرکتوں پر پردہ ڈال پائیگی۔  یا پھر وہ سوچ سہی ہے کہ پاکستان میں حکومت نام کی کوئی شے موجود نہیں ہے اور وہا ں انتہا پسند اپنی من مانی کرتے ہیں۔ مختلف کانفرنسوںمیں  یہ بات اٹھتی ہے کہ پاکستان میں حکومت دار الحکومت تک محدود ہے کیونکہ راولپنڈی میں فوج کی حکومت ہے اور باقی جگہوں پر دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کی۔  یہ عجیب مضحکہ خیز معاملہ ہے کہ ایک طرف تو امن کی آشا جیسی کوششوں کے تحت دونوں ممالک کے عوام کو جوڑنے کی بات کی جاتی ہے دوسری طرف اتنے حساس معاملوں میں اس طرح کی لاپروائی برتی جاتی ہے جس سے عوام میں صرف نفرت پیدا ہو۔  سربجیت پر حملے سے قبل اسی طرح ایک بھارتی قیدی چمیل سنگھ کی موت جیل میں پر اسرار طریقے سے واقع ہوئی اور ابھی تک بھارت کی عوام پاکستان سے اس موت کی وجہ دریافت کر رہی ہے۔  چمیل سنگھ کی موت کی وجہ پاکستانی حکام نے حرکت قلب بند ہو جانا قرار دیا تھا لیکن صحیح وجہ آج تک معلوم نہیں ہو سکی ہے۔ در اصل پاکستان جن شدت پسندوں کے ہاتھ کی کٹھ پتلی ہے وہ نہیں چاہتے کہ بھارت اور پاکستان کے رشتے بہتر ہوں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سربجیت کے وکیل کو بھی جان سے ہاتھ دھونے کی دھمکی دی گئی تھی۔ یہ دھمکی سربجیت کے وکیل اویس شیخ کو اس وقت دی گئی تھی جب وہ سربجیت کے کیس سے متعلق پریش کانفرنس کرنے والے تھے۔ در اصل طالبان اس لئے بھی خوفزدہ تھے کہ اویس شیخ کی کتاب جو سربجیت کی زندگی پر لکھی گئی ہے کہیں عوام میں اس کے لئے ہمدردی نہ پیدا کر دے۔  سربجیت نے اس سے قبل بھی جیل انتظامیہ کی بد سلوکی کی شکایت کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ اسے کھانے میں کچھ ملا کر دیا جا رہا ہے جس سے اس کی ایک پیر میں شدید درد ہے۔ اس نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس کے کھانے میں کچھ ایسا ملایا جا رہا ہے جو اس کی صحت کو دن بہ دن خراب کر رہا ہے۔

                سربجیت اور چمیل سنگھ جیسے لوگوں کے ساتھ جو پاکستان میں ہو رہا ہے اس میں صرف پاکستان تو ملوث نہیں ہیں۔ کیا جیل انتظامیہ جس کی سربجیت نے شکایت کی انہیں حکومت سے الگ کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔ کیا اس معاملے میں بھی حکومت پاکستان Non State Actors  کی بات کہے گی۔ در اصل پاکستان کی غلط پالیسیاں اب اس کے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہیں اور اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو اسلام آ باد میں بھی بہت جلد طالبان ہی نظر آئیں گے۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *