پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
کشمیر کو خد ا نے واقعی ہر طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے۔ خوبصورتی کسے کہتے ہیں وہ یہیں آکے معلوم ہوتا ہے۔بلکہ یوں کہیں کہ لفظ خوبصورتی کا اصل معنی ومفہوم یہیں کے مناظر کے دیدار سے واضح ہوتا ہے۔جس قدر کشمیر رنگارنگ مناظر فطرت سے مالا مال ہے اسی طرح یہاں کے لوگ حسن ِ اخلاق سے سرفراز ہیں۔ مجھے یہاں ہر طرح کے لوگوں سے ملنے کاتفاق ہوا بلکہ میں نے یہ کوشش کہ کی سڑکوں پہ دوکان لگانے والے ، خوانچے والے ، شکارے او ر بڑی دوکانوں کے مالکان سے کسی نہ کسی بہانے ملاقات کی جائے۔اللہ نے یہ موقع بھی فراہم کیا اور میں نے ان سے باتیں کرتے ہوئے ان کے لفظوں کی گہرائیوں میں اترنے کی کوشش کی۔کیونکہ یہ میرے لیے بڑا مشکل مرحلہ تھا کہ اب تک کے مفروضے کو قطعا نظر انداز کردوں۔ کشمیر کے حوالے سے اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ یہاں کے لوگ اچھے نہیں ہوتے ، لیکن میں نے ان باتوں پر کبھی یقین نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں کوئی بھی مخلوق ہو وہ خد اکی مخلوق ہے اور محض علاقے کی بنیاد پر یہ مفروضہ قائم کر لیا جائے تو خد اکو بھی ناگوار گزرے گا۔اس خیال سے میں نے کبھی کسی کو مشکوک نگاہوں سے نہیں دیکھا بلکہ انتہائی محبت اور احترام سے عام لوگوں سے پیش آیا اور ان سے طرح طرح کی باتیں کیں۔مجموعی طور پر مجھے یہاں کے لوگ نرم مزاج ،خلیق اور ملنسار نظر آئے۔لوگ کہتے ہیں کہ وہ علاقے جو سیر سیاحت کے اعتبار اہم ہیں ،وہاں کے لوگو ں کی روزی روٹی اسی سیاحت سے جڑی ہوتی ہے۔لہٰذا ان کا خلیق ہونا ان کے پیشے کے لیے بھی ضروری ہے۔یہ مفروضہ بھی غلط ہیاوتکر ایسا کر کے گناہ کا مرتکب نہیں ہونا چائیے۔اس مفروضیکے سبب بھی لوگ ان کے دلوں میں جھانکنے کی کوشش نہیں کرتے اور ان کے اخلاق و مروت کو پیشے سے جوڑ کر ان کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں۔میرا ذاتی تجربہ ان مفرضوں سے الگ ہے۔میں نے ہر طبقے کے لوگوں سے بات کرتے ہوئے یہمحسوس کیا کہ یہاں کے لوگ غیور اور خود دار ہوتے ہیں۔اور اپنی شناخت اور تہذیب کے دلدادہ۔وہ کسی بھی قیمت پر اپنی انا کو ٹھیس نہیں پہنچنے دیتے۔ اگران سے اخلاق سے ملیں تو یہ اپنا دل وجان نچھاور کر سکتے ہیں۔
۱۲؍مئی کی شام کو ہم لوگ سری نگر پہنچے ڈاکٹر بلال جو سری نگر بی ایڈ کالج میں لیکچرر ہیں ، انھوں نے ہمارے لیے پہلے سے سری نگر کی سب سے خوبصورت جگہ ڈل جھیل کے کنارے اپمیریل ہوٹل بْک کرا رکھا تھا۔ ہم ائیر پورٹ سے سیدھے ہوٹل پہنچے۔ہوٹل بہت عمدہ تھا۔کمرے کی کشادہ کھڑکیاں ڈل کی جانب کھلتی تھیں۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی ہم نے کھڑکیاں کھول دیں۔کشمیر کے خوبصورت نظارے او ر ٹھنڈی ہوائیں سے ہم لطف اندوز ہوتے رہے۔ میری بیٹی ثنا فاطمہ جو ائیر پورٹ سیہوٹل کے راستے میں بھوک سے پریشان تھیں،ہوٹل سے ڈل کے نظارے دیکھ کر بھوک کو بھول گئیں۔تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹر بلال تشریف فرما ہوئے۔ اور ہمیں خوش آمدیدکہتے ہوئے اپنی ہمرہی میں شام کو سری نگر دیکھنے کی پیشکش کی مگر ہم نے تکلف سے کام لیا اور شکریہ ادا کیا۔ان کے جانے کے بعد ہم نے شکارے میں بیٹھ کر ڈل کی سیر کا ارادہ کیا۔اسی درمیان ہماری عزیز این امین کا فون آیا انھوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ لوگوں سے فورا ملنا چاہتے ہیں مگر آج سر نگر میں ہڑتال ہونے کے سبب کوئی سواری نہیں مل رہی ہے۔ وہ بہت دنوں سے میری شریک حیات نجمہ اور بچوں سے ملنا چاہتی تھیں۔مگر ہم سے باتیں کرتے ہوئے ان کی مایوسی بڑھتی جارہی تھی کیونکہ دوسرے دن بھی سر ی نگر میں ہڑتال تھا۔انھیں تسلی دینے کے بعد ہم لوگ شکار میں بیٹھے۔ ہر سیر گاہ کی طرح یہاں بھی شکارا میں بیٹھنے سے پہلے مول بھاو کیا۔دوگھنٹے تک سیر کرتے رہے شکار اچلانے والے نثار سے باتیں کرنے میں بڑا مزہ آیا۔ان سے باتیں کرتے ہوئے محسوس ہواکہ وہ تو پر نثار ہوئے جارہے ہیں۔ اور ہوا بھی ایسا کہ وہ اب ہمارے بھائی کی طرح ہیں ، ہر روز ان سے باتیں ہوتی ہیں۔بس ایک بات کا افسوس ہے کہ انھوں نے باربار گھر آنے کی دعوت دی اور ہم نہیں جاسکے۔
ڈل جھیل سر نگر کی سب سے خوبصورت جگہ ہے یہ ہر چہار جانب سے پہاڑوں سے گھرا ہواہے۔پانی اس قدر صاف وشفاف ہے کہ تہہ تک کی چیزیں صاف نظر آتی تھیں۔ ڈل میں ہر طرف خوبصورت شکارے چلتے ہوئے بہت ہی دلفریب نظارہ پیش کرتے تھے۔پانی میں بنے ہوئے بوٹ ہاوس ، Floating Makts یہ سب کشمیر کی شان ہیں۔غروب آفتاب کے وقت شکارے میں بیٹھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔خدا نے یہ دن دیکھایا اور ہم ان قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو سکے۔چشمہ شاہی ، پری محل ، شالیمار باغ ، نشاط گارڈن۔ مغل گارڈن اور حضرت بل اسی جھیل کے کنارے واقع ہیں۔چشمہ شاہی کا پانی واقعی اس قدرخنک اور میٹھا ہے کہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا اسے پی کر ہی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ باغات کا قدرتی حسن انتہائی دلفریب اور دلکش ہے۔ان باغات کی تفریح نہ صرف صحت بخش ، روح پروراور دلکش ہے بلکہ یہاں آکر انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اس دنیا کی خوبصورتی جب اس قدر دیدہ زیب ہے تو جنت کی خوبصورتی کیا ہوگی۔نشاط باغ میں جب ہم اپنی شریک حیات اور بیٹی کے ساتھ بیٹھے باتیں کر رہے تھے تب ہی کشمیر یونیورسٹی کے ایک اسکالر کا فون آیا او ر انھوں نے ہم سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی ،ہم نے موقعے کو غنیمت سمجھااور انھیں یہیں ملنے کو بلالیا۔ وہ انتہائی ذوق وشوق میں ہم سے ملنے آئے۔ہم سب ان سے مل کر اس لیے بھی زیادہ خوش ہوئے کہ انھوں نے اپنی ہمرہی میں کشمیر کی خوبصورتی دیکھانے کی پیشکش کی۔ان کے ساتھ ہم حضرت بل اور دیگر مقامات کی سیر کرتے رہے اور کشمیر کی تہذیب و تمدن کے حوالے سے باتیں کرتے رہے۔ جس بات پر مجھے اور میری بیگم کو سب سے زیادہ حیرت ہوئی وہ یہ کہ یہاں لڑکیوں کی شادی میں والدین کو سب سے زیادہ دشواری ہوتی ہے۔ یہ دشواری اکثر جہیز کے مطالبے اور غیر ضروری رسوم رواج کی تکمیل کے سبب پیش آتی ہے۔ ہمیں یہ بتایا گیا کہ یہاں شادیات کے موقعے سے اتنے رسوم ہیں کہ اکثر پیسوں کا اصراف یہیں ہوتا ہے۔ بارات کے دن کھانوں کا اہتمام اس قدر ہوتا ہے کہ غریب والدین اس کے متحمل نہیں ہوتے۔ تکلفات کا یہ عالم ہے کہ تقریبا تیس چالیس اقسام کے کھانے بنائے جاتے ہیں اور کھانے والوں? کو کھانے کی پلیٹ کے ساتھ پالی بیگ بھی دیا جاتا ہے۔ پالی بیگ اس لیے دیا جاتا ہے کہ انھیں رسم کے مطابق ہر طرح کے کھانے میں سے کچھ نہ کچھ لینا ہی ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کوئی شخص کتنا کھا سکتا ہے۔لہٰذا جو بچ جائے اسے پالی بیگ میں ڈال کر اپنے ساتھ لے جانا ہوتا ہے۔مجھے اس رسم پر ہنسی بھی آئی اور حیرت بھی ہوئی کہ یہ کیسی رسم ہے کہ کھاؤ بھی اور باندھ کر ساتھ بھی لے جاؤ?۔اگر یہ رسم ختم کر دی جائے تواصراف سے بچ سکتے ہیں اور غریب والدین پر لڑکیاں بار نہ ہوں۔ لیکن افسوس اس بات پر بھی ہے کہ آج تک اس رسم کے خلاف کسی نے کوئی آواز بھی بلند نہیں کی۔ صدیوں سے چلی آرہی اس رسم کو ختم کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ کشمیر کی تہذیب وتمدن کے نام پر سیاست کرنے والوں کی نظر اس جانب کیوں نہیں جاتی؟ماں بہنوں کی عصمت اورتحفظ کے نام پر ہنگامہ آرائی کرنے والے ہزاروں لڑکیوں کی تباہ ہوتی زندگی کی جانب یہ لوگ توجہ کیوں نہیں دیتے۔
۱۳؍ مئی کو بھی ہڑتال کی خبر تھی اس لیے ہم نے صبح ہی صبح گلمرگ کا پروگرا م بنا لیا۔ سری نگر سے تقریباً ۰۵ کیلو میٹر کی دوری پر یہ گلمرگ یعنی “پھولوں کا میدان “واقع ہے۔دوپہر تک ہم گلمرگ پہنچے۔اتنی خوبصورت پہاڑیوں کے درمیان برف سے ڈھکے علاقے کی سیر کے لیے تقریبا ہر وہ شخص آتا ہے جو کشمیر آتا ہے بلکہ یوں کہیں کہ کشمیر دیکھنے والے گلمرگ، پہلگام اور ڈل دیکھنے کے لیے ہی آتے ہیں۔لیکن یہاں آنے والے تمام لوگوں کو اس بات پر مایوسی ہوتی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں سیاح آتے ہیں مگر صوبائی حکومت نے کبھی اس جانب توجہ نہیں دی کہ سڑکوں کو ٹھیک کرایا جائے۔ہر طرف ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ،دھول اڑاتے راستے مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔جبکہ آس پاس کے تمام علاقوں کے لوگوں کی روزی روٹی اسی سے جڑی ہوئی ہے۔جب ہم نے گلمرگ پہنچ کر اونچائی کا سفر طے کرنے کے لیے گھوڑے کرائے پر لیے تو گھوڑیوالے کے ساتھ ایک مددگار کو بھی ساتھ لیا۔عام طور پر یہاں لوگ مددگار کے طور پر خود کو بڑے اخلاق اور جانثاری کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ کیونکہ یہی ان کا پیشہ بھی ہے۔پانچ کیلومیٹر کی اونچائی کا سفر طے کرتے ہوئے ہم نے ان لوگوں سے باتیں کیں۔ان میں ایک تنویر نامی شخص بڑی دلچسپی سیتمام مقامات کی تفصیلات بتا رہا تھا میں نے ان سے ان کے گھر کے احوال دریافت کیا ،اس بتایا کہ صاحب ہمارے پاس اور کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے۔ صرف آپ لوگوں کی خدمت کر کے ہمارا گزارا ہوتا ہے۔ لیکن اتنے لوگ بیکار ہیں کہ پورا کا پورا علاقہ یہاں صبح ہی صبح آجاتا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ مہمانوں سے زیادہ تعدا د ہماری ہوجاتی ہے۔اور اب تو کچھ سیاح آنے بھی لگے ہیں۔اس لیے ہمارا کم از کم دو تین دن کے بعد نمبر آجاتا ہے۔اور ایک دن میں محض تین سو روپے ملتے ہیں ،ایسے میں ہمار اگزار اکیسے ہوگا یہ آ پ بھی سوچ سکتے ہیں۔ جب ہم نے ان سے یہ جاننا چاہا کہ حکومت آپ لوگوں کے لیے کچھ نہیں کرتی؟ تو اس نے برستہ یہ کہا کہ حکومتوں نے کبھی کچھ نہیں کیا۔اگرحکومت صرف اتنا کر دے کہ حالات بہتر ہوجائیں تو پھر کوء مسئلہ ہی نہیں۔حکومتیں ہم غریبوں اور ریاست کا بھلا کب چاہتی ہیں۔؟ کاش ۰۸سے پہلے کا دن واپس آجائے تو کیا بات ہے۔ ہم بھی اپنے بچوں کو اچھے اسکولوں میں پڑھاتے اور اپنی فیملی کے ساتھ خوشحال زندگی گزارتے مگر یہ ہمارے نصیب میں کہاں۔ ان لوگوں کی یہ باتیں سْن کر دل مضمحل ہوگیا اور گلمرگ کے حسن سے لطف اندوز نہیں ہو سکے۔
کشمیر یونیورسٹی کے اساتذہ سے پہلے سے ہماری ملاقاتیں رہی ہیں۔پروفیسرشفیقہ پروین صاحبہ جو ڈسٹینس ایجوکیشن کی ڈائریکٹر ہیں ان سے ملاقات کے لیے ہم ان کے سینٹر گئے۔ ان سے ملنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انھیں شکریہ بھی کہنا تھا اور معذرت بھی پیش کرنی تھی کیونکہ انھوں نے ہمارے لیے یونیورسٹی گیسٹ ہاوس میں قیام کا انتطام کیا تھا مگر ہم اپنی فیملی کے ساتھ تھے اس لیے ڈل کے پاس ہی ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔ہم پرفیسر شفیقہ پروین صاحبہ کیبہت ممنون ہیں کہ انھوں نے ہمارے لیے زحمت کی مگر ہم ان کی ضیافت سے محروم رہے۔جب ہم ان سے ملنے حاضر ہوئے تو وہ اپنی مصروفیات کو درکنار کر کیہم سے بہت دیر تک باتیں کرتی رہیں اور آئندہ سفر کے لیے ہم اپنے گھر قیام کی دعوت دی۔ انھوں نے ہماری آمد کی اطلاع اپنے رفیق کار کو بھی د ی اور تھوڑی ہی دیر میں کء اساتذہ ہم ملنے تشریف لائے اور بڑی محبت سے پیش آئے۔ ا ن کے اخلاق اور خندہ پیشانی سے استقبال کر نے کے انداز کو ہم کبھی نہیں بھلا سکیں گے۔ان سے رخصت ہوکر ہم کشمیر یونیورسٹی کے انتہائِ خوبصورت کیمپس دیکھتے ہوئے ہوٹل آئے۔اس کے بعد ہم نے ہاوس بوٹ میں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔ عبدالر شید شکارے والے کی مدد سے ہم پیمپوش ہاوس بوٹ میں ٹھہرے۔ ایک معمر شخص نے ہمیں خوش آمدید کہا اور دو روز تک بالکل گھر کی طرح سلوک کیا۔یہ اور بات ہے کہ بوٹ ہاوس کا قیام جیب پر بھاری پڑتا ہے۔ لیکن یہ بھی کشمیر جانے کا ایک خوبصورت تجربہ تھا۔
لیکن دوسری بڑی سچائی یہ ہے کہ آج تک کسی صوبائی حکومت نے اپنے عوام کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ان کے لیے کوئی کام کیا۔اس سفر میں نثار شکار والے سیمیری تفصیلی ملاقات رہی۔ ان کے خلوص اور محبت کا یہ عالم ہے کہ یہ آج تک ایک دو روز کے وقفے سے فون کرتے رہتیہیں۔ ہم لوگ صرف ایک دن ان کے شکارے پر بیٹھے تھے لیکن جتنا ہم نے اس دن سیر کے لیے پیسے دیئے تھے ،اس سیزیادہ انھوں نے ہم سے بات کرنے کے لیے فون پر پیسے خرچ کیے۔اور جب تک ہم لوگ کشمیر میں رہے انھوں نے یہی کوشش کی کہ ہر روز ملاقات کی جائے۔ ہم لوگ بھی ان سے اسی طرح ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں۔ نثار صاحب کو دیکھ کر کشمیر کی انسان دوستی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ جب ہم نے ان سے ان کے پیشے اور مالی حالت کے بارے میں جاننا چاہا تو ان کا یہ کہنا تھا کہ جس صوبے کی حکومت ان کے بارے میں نہ سوچتی ہو اس صوبے کے عوا م کے بارے میں کیا پوچھتے ہیں۔ہماری روزی روٹی تو سیاحو ں سے ہی جڑی ہوئی ہے۔لیکن المیہ یہ ہے کہ اب یہاں سیاح آتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔ یہ تو خدا کا شکر ہیکہ اب کچھ سیاح آنے لگے ہیں۔ ورنہ دس پندرہ برسوں سے ہم لوگوں نے کیسی زندگی گزاری ہے یہ تو خدا ہی جانتا ہے۔جب میں نے یہ پوچھا کہ صوبائی حکومت آپ لوگوں کے لیے کیا کرتی ہے تو کہا کہ صر ف مفتی سعید کی حکومت ایسی تھی جس نے سیاحت کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی اس لیے ہم سب تجارتی لوگ مفتی سعید کی حکومت کی
واپسی چاہتے ہیں۔لیکن یہ بھی اتفاق ہے کہ دوبارہ مفتی صاحب کی حکومت نہیں آئی۔جب میں نے یہ پوچھا کہ عمرعبداللہ تو نوجوان ہیں اور اکثریت سے حکومت میں آئے ہیں۔وہ کیا کر رہے ہیں تو جواب مایوس کن تھا۔نثار صاحب کا کہنا تھا کہ یہ تو کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں ہیں مگر آج تک انھوں نے کچھ نہیں کیا۔
ان کی باتوں کے بعد میں نے کشمیر کودوسری نظرسے دیکھنے کی کوشش کی۔ اب جب سری نگر کی سیرکرتے ہوئے وہاں کی سڑکوں اور اہم شاہراہوں کو دیکھا تو واقعی حیرت ہوئی،ہر طرف ٹوٹی ہوئی سڑکیں، ہر طرف ٹریف میں پھنسے لوگ۔میں نے یہ بات کئی ٹیکسی ڈرائیوروں اورآٹو چلانے والے سے پوچھی ،سبھوں کا یہی کہنا تھا کہ صاحب حکومت میں بیٹھے لوگ کچھ نہیں کرتے۔ اگر صوبے کا نظام درست ہوجائے اور اور سیاحت کو پھر سے فروغ ملے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہاں بے رزگاری ہو اورنوجوانوں کو کوئی بہکا سکے۔میں نے دبی زبان میں کئی لوگوں سے پاکستان کے بارے میں جاننا چاہا تو اکثر کا جواب یہی تھا صاحب پاکستان کو کشمیر چاہیئے،انھیں کشمیریوں سے کو ئی محبت نہیں ،اگر ایسا ہوتا تو وہ کبھی بھی ہمیں عذاب میں نہیں ڈالتے۔ جب میں نے ان سے علاحدگی پسند لیڈروں کے بارے میں چاننا چاہا تو اکثر لوگ بے زار نظرآئے کیونکہ آئے دن کی ہڑتال سے یہ لوگ پریشان رہتے ہیں۔میں نے کہا کہ جب لوگ بے زار ہیں تو پھر ان کی کال میں شریک کیوں ہوتے ہیں ، انھوں نے کہا کہ یہاں بے روزگاری بہت ہے۔ یہ لیڈران لوگوں کو خرید کر ان سیان سے پتھراو کراتے ہیں۔ یہ لوگ بچوں کو سو روپیے ، اس سے بڑوں کو ڈیڑھ سو روپے اور اس سے بڑوں کا دو سو روپے دیتے ہیں ، تو آپ ہی بتائیے کہ اگر بیٹھے بیٹھائے دو تین گھنٹے میں کسی کو اتنے پیسے مل جاتے ہیں تو کیا حرج ہے۔ اس لیے آپ یہ نہ سمجھیں کہ لوگ ان کے حق میں آکر ہڑتال کرتے ہیں بلکہ یہ پیسوں کا کھیل ہے اور ان کا ڈر بھی ہے ورنہ عمومی طور پر دن بہ دن ان کی مقبولیت کم ہوتی جارہی ہے۔عام لوگوں سے بات کرنے کے بعد مجھے جو نئی باتیں معلوم ہوئیں اس سے میری آنکھیں کھل گئیں۔اسی لیے میں نے چاہا کہ یہ باتیں ہمارے قارئین تک بھی پہنچے۔ اور صوبائی حکومت کو یہ باور بھی کراسکیں کہ صوبے کی خوشحالی کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔اسی میں ملک اور صوبے دونوں کا بھلا ہے۔
مجموعی طورپرقدرتی مناظر سے مالامال یہ ریاست ابھی بھی کئی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔اس کی وجہ صرف حکومت کی عدم توجہی ہی نہیں ہے بلکہ عوام کی غفلت بھی ہے۔ اس صوبے اور عوام کی بد قسمتی یہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے یہ پریشان حال ہیں پہلے انھیں آزدی کے نام پر ورغلایا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں کو آزادی کے نام پر متحد کیا گیا اور شہادت کا خواب دیکھا کر انھیں مرنے مارنے پر تیا ر کیا گیا نتیجہ یہ ہوا کہ ہزاروں کی تعداد میں نوجوان آزادی اور شہادت کے نام پر قربان ہوئے۔لیکن حیرت یہ ہیکہ جو لوگ اس طرح کے نعرہ دینے والیتھے ان میں سے نہ تو کوئی شہید ہوا اور نہ ان کے خاندان کے کسی فرد کو اس طرح کے ہنگامے اورفساد میں پیش پیش دیکھا گیا ، نہ تو ان کے خاندان والے کبھی زخمی ہوئے اور نہ ہی کوئی ہلاک ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف عوام کو ہی تختہ مشق بنایا گیا۔ہر طرح کی صعوبتوں کے شکار تو عوام ہوئے لیکن ہر طرح کی سہولیات حاصل کرنے والے یہ لیڈران ہوئے۔ لیکن کبھی انھوں نے عوام کی دستگیری نہیں کی اور نہ ہی ان کے حالات زار کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔یہی وجہ ہے جب عوام کو ان کی حقیقت کا علم ہوا تو عوا م اور گمراہ نوجوان ان کے اشتعال سیبچنے لگے اور آج صور ت حال یہ ہے کہ اب لوگ جمہوری طریقے سے اپنے مطالبے کو حکومت ہند کے سامنے رکھنے کے حامی نظر آرہے ہیں۔بات بھی یہی ہے کہ ایک جمہوری ملک میں جمہوری انداز سے ہی لڑائی لڑنی چاہیے۔خدا کریجلد اس ریاست میں امن وسکون لوٹ آئیاور لوگ خوشحال زندگی گزار سکیں۔ 0000
Tags Kashmir travelogue کشمیر ، کشمیر کا سفر نامہ