Home / Literary Articles / سلسلہ اسلامی تاریخ کے اہم شہر۔ قسط نبمر ۱: دمشق

سلسلہ اسلامی تاریخ کے اہم شہر۔ قسط نبمر ۱: دمشق

شہرِ دمشق

 ظفر امام

سابق پروفیسر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی۔نئی دہلی

مترجم

ڈاکٹر خواجہ اکرام

 پروفیسر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی۔نئی دہلی

دمشق۱

 

            دمشق غالباً اتنا ہی قدیم شہر ہے جتناکہ خود زندہ تاریخ۔ وافر آبی وسائل سے مالا مال اور تجارتی شاہراہوں پر واقع، مختصر علاقہ نے سلطنت اور تہذیب وتمدن اپنی طرف کھینچا ہے۔ پندرہویں صدی قبل مسیح ،تاریخی ریکارڈ میں تھوڑے بگڑے نام کے ساتھ اس کا اندراج اس وقت ہوا جب کہا جاتا تھا کہ ایک مصری فرعون کا اس پر تسلط تھا اور اس نے ایک زمانہ میں اس پر حکمرانی کی تھی۔ قدیم زمانہ میں یہ پہلے ہی ایک شہر بن چکا تھا۔ ایک طویل عرصے۳۳۳ قبل مسیح ،سکندر نے اس شہر اور اس کے مضافاتی علاقہ کو فتح کیا جسے ِسیر یا کہا جاتا ہے ۔ اس کے بعد رومن جنرل پومپی( Pompey) ۶۴ قبل مسیح نے اس پر حکمرانی کی۔ لیکن رومیوں نے سِیریائی صوبہ کا دارالخلافہ دمشق سے انٹی اوک ( Antioch ) منتقل کرلیا جو آج کل ترکی میں ہے۔ ان کے زیر تسلط دمشق ایک غیر اہم مختصر شہر کے بطور رہا اور بعد ازاں بزنطینی دور اقتدار میں بھی۔ تاہم یہ شہر طویل مدتی جنگ اور اس وقت کی دو طاقتور سلطنت- بزنظینی اور سساند (فارس) کے آپسی تصادم کے سبب تقریباً مٹ گیا۔ اس نازک موڑ پر ۶۳۲ ء میں پیغمبر محمد کے انتقال کے چار سال بعد عرب مسلم منظر نامہ پر ابھرے ۔ انہوں نے رومی عہد کے باقی ماندہ دمشق پر ایک شہر تعمیر کیا۔

            دسمبر ۶۳۶ء میں حضرت عمر کے ذریعہ بھیجی گئی عرب مسلم فوج نے بز نطینیوں کو شکست دی، دمشق پر اپنا تسلط قائم کیا اور حکومت کرنے کے لئے سیریا کو بطور دارالخلافہ پھر سے بحال کیا۔ خلیفہ حضرت عمر نے یزید بن ابوسفیان کو سیریا کا گورنر مقرر کیا اور ۶۳۹ء میں ان کے انتقال کے بعد ان کے بھائی معاویہ نے گورنر کا عہدہ سنبھالا ۔ علاوہ ازیں نیا دارالخلافہ جلد ہی ایک مبارک شہر کے طور پر مشہور ہونے لگا و ہ اس طرح کہ پیغمبر ابراہیم  کی جائے پیدائش اسی مختصر شہر کے قرب وجوار برز

( Berze) میں خیال کیا جاتا تھا۔ ۶۶۱ء میں اسلام کی پہلیاور دوسری سوِل وار(خانہ جنگی)میں فتح یابی کے بعد معاویہ بن ابوسفیان خود ہی خلیفہ بن بیٹھا اس نے دمشق کو اموی خلافت کا دارالخلافہ بنایا جسے دنیا کی عظیم ترین سلطنت ہونے کا فخر حاصل ہے۔ انہوں نے شہر کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا جو اپنی عظمت ووقار کے منتہائے کمال کو جا پہونچا۔ بہت ہی قلیل مدت میں دمشق عالمی نقشے پر اسلامی تاریخ کا پہلادارالسلطنت کے شہر کے طورپر ابھرا۔

            اس شہر کا عظمت ووقار ۷۵۰ء میں اموی خلافت کے خاتمہ تک تقریباً نوے سال بحال رہا۔ پھر بھی اس مختصر عرصے (۷۵۰۔۶۶۱)میں اموی خلفاء نے اپنی سلطنت کو وسعت دی اور دارالخلافہ کی تعمیر کرائی۔ عرب مسلمانوں نے رومن شہر کی باقی ماندہ نشانیوں کو نہیں مٹایا جو انہیں دمشق میں ملاتھا مثال کے طور پر شہر کی دیواریں اور صحن ۔ اس کی ایک عام وجہ تو یہ تھی کہ مسلمان نئے دارالخلافہ میں ہنوز اقلیت میں تھے تو دوسری طرف فاتحین صحرائی لوگ تھے جو صرف پرامن ماحول میں رہنا پسند کرتے تھے۔ ابتداء میں خلیفہ معاویہ نے اپنی رہائش کے لیے رومن گورنر کی قدیم رہائش گاہوں کو نئے طرز پر آراستہ کرایا لیکن جلد ہی انہیں نئے محل اور مسجد میں تبدیل کردیا گیا جبکہ شہر محافظ فوجی چھاوٴنی بنا رہا ۔ مکمل کمپلکس کی اونچی دیواروں سے گھیرابندی کی گئی جسے ’قلعہ‘ سے موسوم کیا گیا اور شہر کا ایک جز سمجھا گیا۔ خلیفہ الولید اول کے زیر اقتدار شہر کے تعمیری کاموں میں سنجیدہ پیش رفت ہوئی۔ اٹھارہویں صدی کے ابتدائی برسوں میں جامع مسجد کی تعمیر کا کام انھیں کے زیر نگرانی شروع ہوا جو ۷۱۵ء میں چھ برسوں بعد مکمل ہوا۔ یہ عظیم الشان مسجد فن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے ۔ اس مسجد کے احاطے میں مشہور عیسائی مجتہد سینٹ جان کا مقبرہ جوں کا توں محفوظ رکھا گیاہے ۔ اس طرح یہ شہر کی امتیازی علامت ہے اور ساتھ ہی اموی خلافت کی شان ہے۔نصف صدی سے بھی کم عرصے میں شہر کو بہتر آبی بہم رسانی (Water Sypply system) رہائشی قیام گاہوں ، سڑکوں ، ہاسپٹل اور محلوں کی تعمیر وغیرہ سے شہری شکل دی گئی لیکن یہ صورت حال زیادہ دنوں تک بحال نہ رہ سکی اور۷۵۰ء اور اس کے بعد یہ اس طرح متاثر ہوا کہ ان کے بعد زمام کار سنبھالنے والے عباسی خلفاء نے جامع مسجد کے علاوہ تقریباً تمام اموی عمارتوں کو منہدم کرادیا۔ نئی صدی کی ابتدا ہی سے مصر میں فاطمہ خاندان کے خلفاء نے بے مہا بہ انہدام پر قابو رکھا لیکن شہر پھر بھی دارالخلافہ کے معیار سے پست ہوکر ایک دفعہ پھر عام شہر کی حیثیت میں چلا گیا۔ اگلے تین سو یا اس سے بھی زیادہ برسوں تک طوائف الملوکی اور لاقانونیت کا دور دورہ رہا اور شہر میں بدقسمتی سے گروہی خلفشار اور حکومتی جنگیں جارہی رہیں۔اس کے علاوہ بدقسمتی سے دمشق دو وحشیانہ حملے ایک ہلاکو خاں (۱۲۴۰) اوردوسرا تیمور (۱۴۰۱۔۱۳۹۳) کی بربریت کا شکار رہا۔ شہر کے حق میں یہ چیزیں پھر بھی بہت بری ثابت نہیں ہوسکیں کیوں کہ بارہویں صدی کے اواخر میں اسلامی تاریخ کی ایک معروف شخصیت صلاح الدین ایوبی اور مصر میں ایوبی خاندان کی مقتدریت نے دمشق کو کچھ عرصے کے لیے مکمل طور پر برباد ہونے سے بچالیا۔ لیکن شہر جنگ وجدال اور حملوں کے تجربے کو کبھی نہیں روک سکا ۔ پھر بھی یہ کسی طرح اپنے آپ کو درمیانی زمانہ کے چند ترقیاتی کاموں کی بدولت زندہ رکھ پایا مثال کے طو رپر دفاعی قلعہ کے دروازوں کی بناوٹ ، باب الصغیر اور تیرہویں صدی کے درمیانی عرصہ میں ایوبیوں کا تعمیر کردہ باب شرقی ۔ اس وقت تک مدارس کی تعمیر بھی ہو چکی تھی جو دمشق کے معروف سنی مدرسہ کی ابتداء کا پتہ دیتا ہے او ر جس نے سنی اسلامی نظریے کی تبلیغ کی۔

            پندرہویں صدی کی ابتدا ء کے ساتھ ہی سیریا اور اس کا شہر دمشق ماضی میں اس خطے کے دیگر شہروں کی طرح مٹ گیا اور تاریخ میں اس کے نقوش ماند پڑگئے۔ تیموری حملے میں انہدام کے بعدشہر میں بمشکل ہی دستکار ، فنکار اور عمارت میں کام کرنے والے مزدور وہاں باقی رہے اس طرح کہ وہ تمام لوگ جن کا معاش اس سے وابستہ تھا ۱۴۰۱ء میں تیمور کے ساتھ اس کے دارالسلطنت سمرقند منتقل ہوگئے، لہذا نمایاں گنبدوں اور شیخ مملوک کے ذریعہ عمارت کے بیرونی حصہ کے نقش ونگار سے مزین چند مقبروں کے علاوہ شہر کی تعمیر کا کام بڑے پیمانہ پر نہیں کیا گیا۔ شہر جملہ روز مرہ کی ضروریات کیلئے قاہرہ اور مصر پر منحصر تھا ۔ تب سولہویں صدی کے اوائل ۱۵۱۶ ء میں Ottoman) ( عثمانیسلطان سلم اول نے مملوک کو شکست دی اور سیریا اور اس کے دارالسلطنت دمشق پر تقریباً بغیر کسی مزاحمت کے قبضہ کر لیا ۔ دمشق کا جو قلیل اثاثہ ضائع ہونے سے بچا رہا اسے ترکوں کی آمد کے ساتھ مزید تحفظ ملا۔

            تاہم عرب گورنر طبقہ اشرافیہ کی معاونت سے دوبارہ اقتدار میں آئے، بغاوتیں ہوئیں لیکن انہیں کچل دیا گیا ۔ ترک افواج میں شامل بیشتر رضاکاروں نے آبادی کو لوٹا اور شہر کے ایک تہائی سے بیشتر حصہ کو برباد کردیا۔ سلطنت عثمانیہ نے شہر کی تعمیر کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ تاہم اس دور کی بین الاقوامی تجارت نے ایک جداگانہ راہ پیداکی۔ یورپی تاجروں بطور خاص فرانسیسی تاجر وں کو دمشق میں اپنے تجارتی سازوسامان کو محفوظ کرنے اور انھیں بحیرہ ٴروم میں سپلائی کرنے کے لئے ایک بڑے گودام کی ضرورت ہوئی جو بتدریج سترہویں صدی سے تعمیر ہونا شروع ہوگیا۔ پورے شہر میں ان گوداموں کا جال بچھ گیا جن میں سے بعض سیرین فن تعمیر کا مکمل نمونہ ہیں۔ انہیں آج بھی دیکھا جاسکتا ہے جنھیں خان سلیمان پاشا نے ۱۷۳۲ء میں تعمیر کرایا تھا۔ سلطانی سلطنت کے شمال سے دمشق حج قافلوں کو مقدس مقامات کی زیارت اورایک جگہ مجتمع ہونے کیلئے موزوں ترین مقام ہے اور جیسا کہ عثمانیوں نے خود اپنے آپ کو مقدس شہروں کا محافظ قرار دیا ہے اس طرح دمشق کے تاجرین ہر سال حج کے مواقع فراہم کرتے تھے اور منافع کماتے تھے اس طرح ا ن کی پوزیشن نسبتاً بہتر ہورہی تھی۔ عثمانی انتظامیہ عموماً کمزور تھی اور یورپی تاجروں اور حاجیوں سے بمشکل ہی تعرض کرتی تھی لیکن امن وقانون کو یقینی بنائے ہوئی تھی۔ اٹھارہویں صدی کے اواخر سے’ قہوہ خانے‘ کا تصور عام ہونے لگا۔ قلعہ سے متصل پرانے شہر میں جامع مسجد کے قرب وجوار میں تاجروں کا رہنا سہنا عام ہوگیا جبکہ قاہرہ کے قدیم مملوکی نقش قدم پہ گلیاں صاف ستھری اور روشن کی گئیں۔ (۱۷۴۹ء) میں گورنر پاشا العزم کا تعمیر کردہ محل آج عثمانی عہد کے ترکی طرز تعمیر کی واحد قابل ذکر یادگار ہے۔ ایک کمپلکس میں سولہویں صدی کے درمیانی عرصہ میں ترکی طرز پر تعمیر کردہ چند مسجدیں آج بھی موجود ہیں جنھیں’ ترکیہ سلیمانیہ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس عہد کی قابل ذکر تعمیرات میں رقاص درویشوں (ایک صوفی طبقہ ) کے لیے سرائے، تقیہ مولاویہ اور عمریہ مدرسہ ہیں۔

            اٹھارہویں صدی کے اواخر سے عثمانی سلطنت میں یورپی طرز زندگی اور اصلاحی عمل رونما ہونا شروع ہوااس سے دمشق بھی متاثر ہوا ہر چند کہ بہت مختصر ہی سہی۔ (۱۸۴۰۔۱۸۳۲)کے دوران دمشق پر مصری تسلط کا دوبارہ دعویٰ دوررس نتیجہ کا حامل تھا۔ ۱۸۳۲ ء میں عثمانی سلطان نے سیریا میں مصری وائسرائے کو باقاعدہ تسلیم کرلیا۔ نئی مصری حکومت نے آزادانہ طور پر زیادہ سے زیادہ یورپیوں کے عام داخلہ کی اجازت دے دی، ملک میں ان کے اثرات بہت جلد محسوس کیے گئے۔ ولایتی اسکول کھولے گئے اور ا سکولی تعلیم کو وسعت ملی۔ لیکن جولائی ۱۸۶۰ ء میں شہر میں ایک بھیانک مسلم -عیسائی فساد پھوٹ پڑاجس نے زندگی میں جمود پیدا کردیا۔ اس طرح حکومت کمزور ہوئی اورعثمانی کی دوبارہ واپسی کی طرف لوگوں کی نظریں اٹھنے لگیں اس حکومت نے چند ہفتوں بعد ہی فرانس سے فوجیوں کی آمد کو سہل بنادیا۔ ان صورت احوال نے شہر کی تعمیر وترقی کو خطرے میں ڈال دیا اور شہرسازشی تحریکوں -عرب اور غیر عرب بلکہ فی الواقع ہر رنگ و روپ کے لیے مناسب جگہ بن گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران شہر عثمانی ترکوں کے ہاتھوں اس طرح متاثر ہوا ا کہ یہ اپنی ہی حکومت کے خلاف عرب سازش کا مرکز تصور کیا جانے لگا۔ جنگ کے بعد مفتوح عثمانی ترک اقتدار کی تقسیم کے یورپی منصوبہ کے مطابق سرکاری طور پر سیریا اور اس کی دارالسلطنت فرانس کے حوالہ کردیا گیا۔ اس طرح یہ شہر مضافاتی علاقہ میں گھسنے کے لئے فرانس کا راستہ بن گیا۔ فرانس نوآبادیاتی اقتدار کی باقاعدہ شروعات ۲۵ جولائی ۱۹۲۰ ء میں ہوئی لیکن روز اول سے ہی اسے مقامی آبادی کی مخالفت کا سامنا رہا۔ درحقیقت شہر کی صنعت کاری اور اس کے اثرات کو قابو میں کرنا ناممکن تھا۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی کی ابتداء کے ساتھ ہی شہر کے آس پاس کپڑے اور سیمنٹ کی فیکٹریاں ، چمڑا رنگنے کا کارخانہ، شیشے کا کام، رنگ ریزی کے کارخانے قائم کئے گئے اور روایتی دستکار پھر سے اپنے کاموں میں مشغول ہوگئے۔ نتیجتاً نئی مضافاتی بستیاں اور علاقے اس قدر ترقی کرنے لگے کہ عیسائی اپنے روایتی علاقے سے نکل کر نئی بستیوں میں رہنے لگے۔ اس طرح ان میں آپسی میل جول شروع ہوگیا۔ ایک فرانسیسی کمپنی نے شہر کے شمال اور جنوب پر ریلوے لائن بچھائی جس میں دمشق کو بڑا اسٹیشن بنایا گیا۔ ۱۹۳۲ ء میں برادا وادی سے شہر میں پانی بہم پہونچانے کے لئے نئی پائپ لائن بچھائی گئی۔ شہر کو اس طرح امتیازات اور ایک معاصر شہری مرکز کا درجہ ملا۔ فرانسیسی اپریل ۱۹۴۵ ء کے لیگ آف نیشن کے بین الاقوامی فرمان کے ختم ہونے پر بھی شہر چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے۔ مقامی فرانسیسی کمانڈروں نے ۲۹ مئی ۱۹۴۵ء کو شہری عوام پر زوردار فضائی بمباری کی جس سے شہر کو کافی بربادی اور نقصان اٹھانا پڑا۔ لیکن اس وقت تک سارے شہر میں حب الوطنی کا جذبہ زور پکڑ چکا تھا۔ بالآخر ولایتی افواج کو چند مہینوں بعد ۱۹۴۶ ء میں واپس ہونا پڑا۔ حصول آزادی کے ساتھ شہر گو ناگوں مسائل کے ساتھ پھر ترقی کی راہ پر گامزن ہوا۔ دمشق آج ایک ملین سے زیادہ آبادی والا قاہرہ کی بنسبت عرب دنیا کا دوسرا بڑا شہر ہے۔

            شہر دمشق نے ہمیشہ جنگ وجدل ، باہمی منافرت اور تباہی بھری خطرناک زندگی گزاری ہے۔ لیکن اس کا خاتمہ کبھی بھی نہیں ہوسکااور قاہرہ کے زیر سایہ رہتے ہوئے بھی یہ ہنوزعالمی نقشے پر نمایاں اورزندگی کی توانائیوں سے بھر پور ہے ۔

۱۹مئی ۲۰۰۵ء

About admin

Check Also

رزمیہ ادب

میری کتاب “رزمیہ اادب” پر ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب کا مضمون قارئین کی خدمت میں برائے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *