سلمان تاثیر کی موت اور پاکستان کاسیاسی ماحول
سلمان تاثیر کی موت نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں بحث کا موضوع بنا ہوا۔ سلمان تاثیر پر قاتلانہ حملے کی وجہ ان کا ایک بیان ہے ، جس میں انھوں نے توہین رسالت کے مرتکب کو بچانے کی عملی کوشش کرتے ہوئے پاکستان کے توہین رسالت قانون کو ‘‘ کالا قانون’’ کہا تھا۔ ان کا یہ بیان پاکستان میں ایک سیاسی بھونچال لے کر آیا ہر طرف ان کی مخالفت کی گئی ۔ ایک اسلامی ملک میں اس طرح کے مسائل انتہائی حساس ہوتے ہیں۔لیکن حکومت وقت نے اس حساسیت کو نہیں سمجھا اور کوئی پہل نہیں کی کہ اس معاملے کو حساس بننے سے روکا جائے۔اور نہ ہی گورنر سلمان تاثیر کو تنبیہ کی۔ ہر ملک کی جمہوریت وہاں کے مقامی معاملات کو لے کر حساس ہوتی ہے خاص طور پر مذہبی معاملات زیادہی نازک ہوتے ہیں۔سلمان تاثیر کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے کوئی نیا معاملہ نہیں ہے بلکہ دنیا میں اس طرح کے کئی معاملات سامنے آئے ہیں ۔ خود ہندستان میں جب اندار گاندھی کے دور اقتدار میں خالصہ موومنٹ تیز ہوا اور گولڈن ٹیمپل اس کا مرکز بننے لگا تو آپریشن بلیو اسٹار کے ذریعے اس کو کچلنے کی کوشش ہوئی ۔ ہندستان کی سکھ کمیونٹی کو اس سے تکلیف ضرور ہوئی لیکن یہ وقت کا تقاضہ تھا کہ ملک میں کسی طرح کی دہشت گردی کو پھیلنے سے روکا جائے تو آپریشن بلیو اسٹار ہوا۔ نتیجے کے طور پر اندار گاندھی کی ذاتی سیکورٹی پر تعینات سکھ جوان نے ان کو گولی مار دی اور قتل کر کے اپنے جذبات کی تسکین کی ۔ یہ تسکین کا لفظ کسی طرح زیب تو نہیں دیتا لیکن صرف اس نوجوان کے حوالے سے یہ لفظ بار بار آیا۔ ابھی پاکستان میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے جہاں ایک نوجوان جو سلمان تاثیر کی ذاتی سیکورٹی پر تعنیات تھا ، اس نے اپنے جذبات کی تسکین ان کو گولی مار کر کیا۔ اب پاکستان میں صورت حال یہ ہےکہ زیادہ تر لوگ اسے صحیح ٹھہرا رہے ہیں اور ممتاز قادری کو ہیرو کا رتبہ دے رہے ہیں ۔ اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس فعل کو یہ کہہ کر غلط ٹھہرا رہے ہیں کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا غلط ہے ۔ بات اس اعتبار سے درست ہے کہ اگر ہر شخص خود منصف بن جائے اور خود عملی اقدمات کرنے لگے تو پاکستان ہی کیا کسی بھی ملک میں اس طرح کے عمل سے تاراجی پھیل جائے گی۔پاکستان میں علمائے کرام اور دیگر جماعتوں نے بہت محتاط انداز میں اپنے اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے ۔ میں یہاں کچھ پاکستانی قلمکاروں کی تحریریں من وعن لکھ رہا ہوں تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ اس واقعے کو لوگ کس انداز سے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے خود ممتاز قادری کا اقبالیہ بیان دیکھیں : ممتاز حسین قادری کا کہنا تھا کہ” سلمان تاثیر نے توہین رسالت کے قانون کو” کالا قانون“ کہا تھا،وہ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتکب ہوئے،اُس کی گستاخ رسول آسیہ مسیح کے ساتھ ہمدردی اور پھانسی سے بچانے کی کوشش پر مجھے شدید رنج پہنچا تھا،اِس لئے میں نے گورنرکے قتل کا منصوبہ بنایا،مجھے اپنے کئے پر کوئی ندامت نہیں،گارڈملک ممتاز حسین قادری کا یہ بھی کہنا تھا کہ اُس کا کسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں،اُس نے غلامی رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ خون کیا ہے کہ سرکارصلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی غلامی میں قبول کرلیں۔“موقع پر موجود ایک عینی شاہد کے مطابق ملک ممتاز حسین قادری نے سلمان تاثیر کو مارنے کے بعد ”اللہ اکبر “ کا نعرہ لگایا اور گن زمین پر رکھتے ہوئے کہا کہ ”یہ شخص گستاخ رسول تھا،اِسی لئے واجب القتل تھا،گستاخ رسول کی یہی سزا ہے،موقع پر موجود سب لوگ دیکھ لیں کہ میں نے گورنر کے علاوہ کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔“ اس واقعے نے پاکستانی میڈیا کو بھی ایک امتحان میں ڈال دیا۔ الیکٹرونک میڈیا کی بات کریں تو زیادہ تر معماتی گفتگو کی ۔پرنٹ میڈیا میں تو لوگوں نے کھل کر اختلاف یا اتفاق کا اظہار کیا۔ یہاں چند اقتباسات دیکھیں: ارشاد محمود ۔ اردو نیوزپاکستان میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ: ‘‘سلمان تاثیر کے قتل نے پورے ملک کو سوگوار کردیا ہے۔ جس طرح دن دیہاڑے انہیں ہلاک کیا گیااس نے پاکستانی معاشرہ میں پائی جانے والی انتہاپسندی اور جنونیت کو بے نقاب کردیا ہے۔ قانون اپنے ہاتھ لینے اور اپنی مرضی کی سزا سنانے کا رجحان پہلے کے مقابلے میں کئی زیادہ تقویت پکڑ چکا ہے۔سلمان تاثیر کے قتل پر سامنے آنے والے ردعمل نے بھی چونکا دیا ہے۔ان کے قاتل کو ایک ہیرو کی طرح پیش کیا جارہاہے ۔علمااور مذہبی سکالر ز کا ایک بڑا طبقہ اس قتل کی مذمت پر بھی آمادہ نہیں ہے۔سلمان تاثیر کا قتل محض ایک فرد ممتاز قادری کی کارستانی نہیں ہے ۔اگر اس مفروضے کوحقیقت تسلیم کرلیا جائے کہ حملہ آور کسی کا آلہ کار نہیں تھا اور اس قتل کے پس منظر میں کوئی سازش کارفرما نہیں ہے ۔اس کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتاہے کہ بہت سارے افراد اورتنظیموں کی دانستہ یا نادانستہ کوششوں سے ایک ایسا سازگارماحول تیار ہوا ۔جس میں ممتاز قادری کو یہ شہ ملی کہ وہ سلمان تاثیر کو قتل کردے۔اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی مسکراہٹ سے بھی یہ ظاہر ہوتاتھا کہ وہ اپنے کیے پر مطمئن ہے۔ دراصل یہ ماحول پیدا کرنے والے افراد اور گروہ ممتاز قادری سے بڑے مجرم ہیں۔‘‘ ملک عباس اپنے کالم اردو نیوز میں لکھتے ہیں کہ: ’’گورنر تاثیر بقول شخصے انتہائی پڑھے لکھے اور نہایت شفیق اور دلیر شخص تھے ۔انسان کے گذر جانے کے بعد مرنے والے کی تکذیب شریعت میں ناپسندیدہ عمل ہے ۔حقائق اور حقیقت اگر پس پردہ لے جانے کی سعی ہو رہی ہو تو حقیقت کا افشا تکذیب کیے زمرے میں نہیں آئے گا ۔ حفاظت خود اختیاری کے تحت اگ] ]>