عابد انور
ہندوستانی مسلمانوں کا احتجاج رنگ لایا اور بالآخر سلمان رشدی کا دورہ ہندوستان منسوخ ہوگیاآخر آخرتک اس پر شبہات کے بادل چھائے رہے وہ آر ہے ہیں یا نہیں یہاں تک کہ وزارت داخلہ نے دہلی اور جے پور پولیس کو الرٹ بھی کردیا تھا جس سے ایسا لگ رہا تھا کہ سلمان رشدی کا دورہ رد نہیں ہوا ہے۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ مرکزی حکومت کو مسلمانوں کے جذبات کا احساس نہیں ہے ۔ کیوں کہ اس ۲۰ سال کے عرصے میں سلمان رشدی پانچ بار ہندوستان آچکے ہیں۔ لیکن اتنی خاموشی کے ساتھ دورہوتا تھا کہ مسلما نوں کودیر سے پتہ چلتا تھا لیکن اس بار میڈیا نے اس کو ہوا دینے میں ایڑی چوٹی کی زور لگادیا تھا اور وہ ہر اس سلسلے کے ہر چھوٹے بڑے واقعہ کو کور کر رہا تھا۔ہر نیوز چینل پر مباحثے اور مذاکرے کا طویل دور چل رہا تھا ۔ میڈیا اس کو اس طرح پیش کرنے کی کوشش کی کہ مسلمانوں کو سلمان رشدی کے علاوہ کسی چیز سے مطلب نہیں ہے۔ معاملہ چوں کہ ٹی آر پی کا تھا اس لئے میڈیا اس طرح کے کسی موقع کو گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ میڈیا نے آج مسلمانوں کے کسی مسائل کو اس طرح اجاگر نہیں کیا جس طرح سلمان رشدی کے معاملہ کو کیا ہے اس کا یہ واضح مقصد تھا کہ مسلمان اظہار آزادی کا احترام نہیں کرتے۔میڈیا کا مقصد صرف مسلمانوں کو کٹر پسند دکھانا تھا۔ اسی کے ساتھ مسلمانوں کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے معاملے میں اپنی طاقت جھونکنے کے ساتھ ساتھ اپنے دیگر معاملات کو بھی اسی شدت کے اٹھائیں ۔ جس طرح اس معاملے میں تمام مسلک کے افراد نے یک آواز بلند ہوکر اس کی مخالفت کی اس طرح دیگر معاملات میں اس اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے۔اس سے یہ واضح پیغام ملتا ہے کہ اگر مسلمان چاہیں اور سارے مسلک کے علماء ، مشائخ اور مذہبی رہنما چاہیں تو ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو روکا جاسکتا ہے اور حکومت کو کسی بھی مسلم دشمن پالیسی بنانے سے روکا جاسکتا ہے۔ صرف اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جب سکھ فرقہ جو دو ڈھائی فیصد کے برابر ہے، اپنی ساری بات حکومت سے منوا سکتا ہے اور حکومت کو سرخم تسلیم کرنے پر مجبور کرسکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان جو آبادی کے لحاظ سے ایک چوتھائی ہیں اپنی بات نہیں منواسکتے۔ صرف عزم، خلوص، اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔کم از کم دو واقعات نے بات کو سچ ثابت کردیا ہے۔ ایک تو یہ کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شاخ کھولنے کے سلسلے میں حکومت بہار کے تین سال سے ٹال مٹول کے رویہ کے خلاف احتجاج نے حکومت بہار کو زمین دینے پر مجبور کردیا ۔ دوسرا رشدی کا واقعہ ہے جس نے مرکزی حکومت کو لیت و لعل کے باوجود گھٹنے ٹیکنے پرمجبور کردیا۔ یہ اس لئے ممکن ہوسکا کہ پورے ہندوستان سے ایک اس سمت میں آواز اٹھ رہی تھی۔
مسلمان کبھی بھی آزادی ااظہار کے خلاف نہیں رہے ۔ لیکن نام نہاد ادیب شعراء آزادی اظہار کا مطلب ہی نہیں سمجھتے۔ ہر چیز کا ایک دائرہ ہوتا ہے اور جب تک وہ چیز دائرے میں رہتی ہے اچھی لگتی ہے لیکن جیسے ہی دائرے سے نکلتی ہے وہ بھونڈی ہوجاتی ہے ، اسے تجاوزات میں شمار کیا جانے لگتا ہے۔ لکھنے، بولنے اور کہنے کی ہر شخص کو آزادی حاصل لیکن کسی کو گالی دینے، لکھنے کی اجازت قطعاَ نہیں ہے۔ ہر شخص کی زندگی کی پرائیویسی کا خیال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ادیبوں کیلئے بھی لازم ہے کہ وہ اس کا خیال رکھے۔ اگر کوئی بھی شَخص سلمان رشدی کی ماں کے بارے میں بھی نازیبا الفاظ لکھے گا تو انہیں یقینا برا لگے گا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جو تمام مسلمانوں کی ماں ہیں ان کے شان میں نازیبا الفاظ استعمال کیا جائے تو مسلمانوں کو غصہ کیوں نہیں آئے گا۔ صرف اسی مسلمان کو غصہ نہیں آئے جو اسلامی تعلیمات کو نہیں مانتے لیکن اس کے باوجود اسلام کے دامن پناہ لئے ہوئے ہیں۔ سلمان رشدی سے مسلمانوں کا کوئی خاندانی جھگڑا نہیں ہے بلکہ ان کی گستاخی سے ہے جو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اورحضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شان میں کی ہے۔ یہ جرم قطعی قابل معافی جرم نہیں ہے جب تک وہ اسے حذف نہ کردے اور اس سے توبہ نہ کرلے۔
سلمان رشدی کا ناول ’شیطانی آیات‘ کافی متنازع رہا ہے اور ساری دنیا میں مسلمان اس کے خلاف احتجاج کرتے رہے ہیں ہندوستان کے شہر جے پور میں سالانہ ادبی میلے میں سلمان رشدی نے اپنی شرکت کا پروگرام بظاہر حکومت کے دباوٴ میں منسوخ کر دیا ہے۔ سلمان رشدی کی آمد کے خلاف بعض مذہبی مسلم تنظیمیں احتجاج کر رہی تھیں۔جے پور ادبی میلے کی ویب سائٹ پر دیے گئے پروگرام کے مطابق سلمان رشدی بیس اور اکیس جنوری کو خطاب کرنے والے تھے۔ لیکن ویب سائٹ پر نیا شیڈو ل جاری کیا ہے اس میں سلمان رشدی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ میلے کے منتظم سنجے رائے نے ایک بیان میں کہا تھاکہ ’سلمان رشدی بیس جنوری کو ہندوستان میں نہیں ہوں گے ۔ تاہم جے پور ادبی میلے کی جانب سے وہ اس میں شرکت کے لیے مدعو ہیں۔راجستھان کی ریاستی حکومت نے ادبی میلے کے منتطمین کو بتایا تھا کہ سلمان رشدی کے آنے سے امن و قانون کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ خبروں کے مطابق حکومت سلمان رشدی ان کی سلامتی کے بارے میں انتظامات سے مطمئن نہیں کر سکی جس کی وجہ سے انہوں نے اپنا دورہ منسوخ کر دیا۔چند ہفتے قبل جب یہ اعلان ہوا تھا کہ شلمان رشدی جے پور ادبی میلے میں شرکت کریں گے تو اس وقت مایہ نازاسلامی تعلیمی ادارہ اور ام المدارس دارالعلوم دیو بند نے حکومت سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ رشدی کو ملک میں نہ آنے دیا جائے۔دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا عبد القاسم نعمانی نے ایک بیان جاری کرکے کہا تھاکہ ہندوستانی حکومت کو سلمان رشدی کا ویزا منسوخ کر دینا چاہیے۔ رشدی نے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت ہند کو رشدی کے خلاف مسلمانوں کے جذبات کا خیال کرنا چاہیے۔سلمان رشدی کی کتاب پر ہندوستان میں پابندی عائد ہے۔ سلمان رشدی ہند نژاد برطانوی شہری ہیں اور کچھ عرصے سے امریکہ میں رہائش پزیر ہیں۔ ان کی کتاب شیطانی آیات پر ایران کے مرحوم مذہبی رہنما آیت اللہ خمینی نے ان کے خلاف ۲۴ فروری 1989 کوموت کا فتویٰ جاری کیا تھا۔ ایران کے آیت اللہ خمینی نے اب سے ٹھیک بیس برس پہلے ’سٹانک ورسز‘ یا ’شیطانی آیات‘ نامی کتاب تحریر کرنے پر سلمان رشدی کے خلاف ’واجب القتل‘ ہونے کا فتوٰی جاری کیا تھا۔ اس ناول کے منظر عام پر آتے ہی مسلمانوں نے اس پر غم و غصہ کا اظہار کیا اور رشدی کے خلاف شدید احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اس کتاب کو ’توہین رسالت‘ قرار دیا گیا اور مشتعل عوام نے مظاہروں میں اس کتاب کی کئی کاپیاں جلا ڈالیں لندن کے بریڈفورڈ میں بھی زبردست مظاہرہ ہواتھا اور پوری دنیا کے مسلمان رشدی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے اس میں کئی مسلمانوں کی جانیں بھی گئی تھیں۔ اس کے بعد کئی برس بعد تک رشدی کو چھپ کر رہنا پڑا اور وہ منظر عام پر نہ آئے جبکہ ان کو اپنی خصوصی حفاظت کا انتظام بھی کرنا پڑا۔ رشدی کی حفاظت پر حکومت برطانیہ کروڑوں پونڈ کرچکی ہے یہاں تک کہ شہزادہ چارلس نے ایک مرتبہ کہا: “سلمان رشدی برطانوی ٹیکس دھندگان کیلئے ایک غیرمعمولی بوجھ بن چکا ہے”۔ برطانوی ہوائی سروس “برٹش ایئر ویز” نے 1998 تک اپنے جہازوں میں سلمان رشدی کے سفر پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ اسی طرح ” کینیڈا ایئر لائنز” نے چند سال پہلے اپنی کمپنی میں رشدی کے سفر کو ممنوع قرار دیا تھا۔ رشدی نے عالم اسلام کے غم وغصے کے باوجود اپنی کفر آمیز کتاب کی مزید اشاعت جاری رکھی۔ان واقعات کے بیس برس بعد اگرچہ اب رشدی کافی حد تک عوامی زندگی گزار رہے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ سٹانک ورسز کا معاملہ اب بھی ان کے لیے مشکلات کا باعث ہے۔ یہ کتاب 1988 میں برطانیہ میں ریلیز کی گئی تھی اور نو ہی روز کے بعد ہی اس پر ہندوستان میں پابندی عائد کردی گئی۔
ان کا پہلا ناول ’گرئمس‘ 1975 میں شائع ہوا لیکن عام پبلک اور ادبی حلقوں میں اسے اتنی پذیرائی نہیں ملی۔ تاہم ان کا دوسرا ناول ’مڈ نائٹ چلڈرن‘ ان کی ادبی شہرت کا سبب بنا۔ اس کی وجہ سے انہیں 1981 میں بکر پرائز ملا اور 1993 میں اس سے بھی بڑھ کر ’بکر آف بکر‘ کے اعزاز سے نوازا گیا کیونکہ بکر ایوارڈ کی پچیس سالہ تاریخ میں اسے سب سے بہترین ناول قرار دیا گیا تھا۔ اس میں ناول میں انہوں نے سابق وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیا تھا۔ محترمہ اندرا گاندھی کے سخت اعتراض کے بعد رشدی نے اس حصے کو کتاب سے حذف کردیا تھا لیکن انہوں نے شیطانی آیات سے قابل اعتراض حصہ کو اب تک محو نہیں کیا ہے۔ جب ایک انسان کی دل آزاری پر اور اعتراض پر حذف کیا جاسکتا ہے توآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ صدیقہ کے بارے میں لکھے گئے غیر مہذب جملے کو حذف کیوں نہیں کیا جاسکتا۔
ایک رپورٹ کے مطابق 1968 میں کیمبرج یونیورسٹی میں حصول تعلیم کے دوران سلمان رشدی بائیں بازو کی جماعت کا حامی تھا۔ انہی ایام میں اس میں شوق پیدا ہوتا ہے کہ کوئی آرٹسٹک کام کرے۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ ایک چھوٹی ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں نوکری کی اور اسی دوران اپنا پہلا ناول لکھنا شروع کر دیتا ہے جو ایک مسلمان روحانی شخصیت سے متعلق تھا۔ تاہم وہ اسے شائع کرانے میں ناکام رہا۔ اسی طرح اسکی دوسری کتاب “گریموس کی کہانیوں کا مجموعہ” بھی خاص مقبولیت حاصل نہیں کر پاتی۔ وہ مایوس نہیں ہوتا۔ پانچ سال بعد 1981 میں اس نے اپنا ناول “آدھی رات کے بچے” شائع کروایا۔اس ناول نے برطانیہ کی مطبوعات کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی۔ یہ ناول انڈیا کی آزادی کی کہانی ہے جو ایک مسلمان نوجوان کی زبانی بیان کی گئی ہے۔ تاہم اس ناول میں بھی مسز اندرا گاندھی کو بیوہ خطاب کرنے اور اس وقت کی انڈین حکومت کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے کی وجہ سے ہندوستان میں شدید اعتراض کا باعث بنا۔ اسی طرح رشدی نے 1983 میں اپنے ناول “Shame” میں بعض پاکستانی شخصیات پر تنقید کی تھی، خصوصا اس میں بے نظیر بھٹو کو غیر اخلاقی الفاظ سے یاد کیا تھا جس پر پاکستان میں اس پر پابندی لگا دی گئی۔ 41 سال کی عمر میں رشدی نے اپنا ناول “شیطانی آیات” لکھ کر پانچ لاکھ برطانوی پاونڈ کی صورت میں ایک ارب مسلمانوں کی اذیت اور دل آزاری کا انعام وصول کیا۔ شیطانی آیات میں ایک من گھڑت اور ضعیف روایت کا حوالہ دے کر سرکار دوعالم حضرت محمد ص کی شان میں گستاخی کی گئی ہے۔ 547 صفحات پر مشتمل ناول “شیطانی آیات” سب سے پہلے انگریزی زبان میں 26 ستمبر 1988 کو پینگوئن پریس کے ایک شعبے “وائکنگ” نے شائع کیا۔ یہ ناول اسکی پانچویں تصنیف تھی۔ رشدی نے یہ ناول وائکنگ پریس کے یہودی سربراہ “گیلن ریٹیکن” کی سفارش پر 5 لاکھ 80 ہزار برطانوی پاونڈ کے عوض میں یہ ناول لکھا تھا۔
پورے ملک کے مسلمانوں کے شدید احتجاج اور حکومت راجستھان کے ہاتھ کھڑے کرلینے کی وجہ سے آخری مرکزی حکومت سفارتی پالیسی اپناتے ہوئے سلمان رشدی کو دورہ رد کرنے پر راضی کرنا پڑا۔ راجستھان کے وزیر اعلی اشوک گہلو ت نے کہا کہ “کوئی بھی ریاستی حکومت خراب قانون نظام نہیں چاہتی۔ میں نے مرکزی حکومت کو مقامی جذبات سے آگاہ کروا دیا ہے”۔ انہوں نے چدمبرم سے ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا ، “مجھے سرکاری طور پر پتہ نہیں ہے کہ رشدی آ رہے ہیں یا نہیں۔اس بارے میں ہمارے پاس کوئی سرکاری پیغام نہیں آیا ہے. مقامی لوگوں نہیں چاہتے ہیں سلمان یہاں آئیں۔ “گہلوت نے یہ بھی کہا کہ سلمان رشدی پرسن آف انڈین اورجن (یعنی انہیں ہند نڑاد شہری کا درجہ حاصل) ہیں اور حکومت انہیں یہاں آنے سے نہیں روک سکتی ، نہ ہی منتظمین کو کوئی مشورہ دے سکتی ہے ۔ مرکزی حکومت نے رشدی کو ہندوستان نہ آنے کے لئے جو راضی کیا ہے وہ مسلمان کی محبت میں نہیں کیا ہے بلکہ صرف پانچ ریاستوں اور خاص طور پر یوپی میں ہونے والے الیکشن کے پیش نظر کیا ہے۔ تاکہ مسلمان ناراض نہ ہوجائیں اور اس کا خمیازہ اسے انتخابات میں نہ بھگتنا پڑے۔
ہندوستان کے ہندی اور انگریزی کے ادیبوں کا معار ہمیشہ دوہرا رہا ہے۔ وہ مغرب کی نقل تو کرتے ہیں ان میں فراخ دلی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جس طرح یہاں عموما َحکومت، افسران، عدالت، میڈیا، مقننہ، منتظمہ کا معیار مسلمانوں کے تعلق امتیازی رہا ہے اسی طرح یہاں کے دانشور، ادیب، شاعر اور دوسرے طبقہ سے تعلق رکھنے والے سرکردہ افراد کی سوچ، سلوک معیار بھی اسی نوعیت رہا ہے۔ مسلمانوں کی دل آزاری والی کوئی بات ہو اس کی حمایت میں خم ٹھوک کر میدان میں کود پڑتے ہیں۔ اسی طرح کا سلوک ان لوگوں نے تسلیمہ نسرین کے بارے میں بھی کیا تھا۔ ا ن کے اندر فوراَ آزادی اظہار کا خیال کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔اسی طرح آج ہندوستان کے ادیب سلمان رشدی کی حمایت میں میدان میں کود پڑے ہیں ۔ہندوستانی ادیبوں میں اظہاری آزادی اور آزادی تحریر کے تئیں اتنا دم خم ہے تو وہ ہندو مذہب اور اس میں موجود مفروضات کے بارے میں کچھ بھی ایسا ویسا لکھ کر دکھائیں۔یہاں بات یہ عام طور پر محسوس کی جاسکتی ہے کہ ہر اس چیز کو ہوا دی جاتی ہے جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہو۔ مدھیہ پردیش میں گائے ذ بیحہ کے قانون کے تحت مجرم کو سات سال کی سزا ہے۔ کیا یہ کھانے کی آزادی کے خلاف نہیں ہے۔کتنے ہندوستانی ادیب اس قانون کے خلاف میدان میں آئے۔ اس کے علاوہ بعض ادیبوں نے جس بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شیطانی آیات کے اقتباسات پڑھے وہ مسلمانوں کی دل آزاری سے کم نہیں ہے۔ہرانسان کو اپنی پسند کا کھانا کھانے کا حق ہے لیکن ہندوستان کی بعض ریاستوں میں اس پر پابندی عائد کیوں ہے محض اس لئے کہ اس بہانے مسلمانوں کا ناطقہ بند کیا جائے۔ اس وقت ان کا آزادی اظہار کا نعرہ کہاں گیا تھا جب ہندو شدت پسندوں نے ایم ایف حسین کو ملک چھوڑنے پر مجبور کردیاتھا۔ وہ ساری زندگی ہندوستان کے لئے تڑپتے رہے لیکن نہ ہی حکومت، نہ ہی یہاں کا مہذب اورخواندہ معاشرہ، اور نہ ہی ادیب اور شاعروں کی تنظیم اس کے حق میں آواز بلند کرسکے۔ وہ لوگ آج کس منہ سے رشدی کی حمایت میں خم ٹھوک کر میدان میں ہیں؟۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
abidanwaruni@gmail.com