افغان مصالحتی کمیشن جو دوسال قبل ستمبر۲۰۱۰ء میں تشکیل دیا گیا تھااسے حامد کرزئی نے ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔اس کمیشن کے ابتدائی سربراہ سابق افغان صدر برہان الدین نے پہلے سال پاکستان کی سیاسی جماعتوں اورفوجی قیادت کے علاوہ حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے مبینہ شوریٰ کے ساتھ نہ صرف مذاکرات کئے تھے بلکہ طالبان دورِ کے وزیرِ تعلیم ملا ارسلان رحمانی کو مصالحاتی کمیشن کاجنرل سیکرٹری مقررکیاتھاتاہم ستمبر۲۰۱۱ء میں پروفیسر ربانی کے قتل کے چھ ماہ بعد ملا ارسلان کو بھی کابل میں نامعلوم افراد نے قتل کر دیا جس کے بعد حامد کرزئی نے پروفیسر ربانی کی جگہ ان کے بیٹے صلاح الدین ربانی کو مصالحاتی کمیشن کا سربراہ مقرر کردیالیکن صلاح الدین اب تک اس کمیشن کا کوئی اجلاس منعقد کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں بلکہ طالبان کی جانب سے مذاکرات کیلئے ۴۰/اراکین کے نام اپنے وعدے کے مطابق اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ سے نکالنے میں ناکام رہے ہیں۔پاکستان ،ایران اور سابق جہادیوںکی جانب سے صلاح الدین کی حمائت نہ ہونے سے یہ کمیشن یوں بھی عملاً ختم ہوچکاہے لیکن امریکا کی جانب سے حقانی نیٹ ورک کودہشتگرد تنظیم قرار دینے اورحامد کرزئی کی طرف سے اس کی حمائت پرطالبان اورحقانی نیٹ ورک نے مصالحتی کمیشن کے ساتھ مستقبل میں تمام رابطے ختم کر دیئے ہیں۔
حال ہی میںاپنے آقا کے اشارے پرافغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کا تعاون حاصل کرنے کی غرض سے افغان امن کونسل کے سربراہ صلاح الدین ربانی کی قیادت میں ایک اعلی سطحی وفد اسلام آباد پہنچ گیا ہے جبکہ پاکستان نے افغان حکومت سے پاکستان کی حدود کے اندر سرحد پار سے فائرنگ کے حوالے سے شدید احتجاج کیا ہے۔ ایسی فضاء میں ان مذاکرات کی کامیابی انتہائی مشکوک نظر آتی ہے۔دوسری جانب افغان صوبے کنڑکے علاقے واٹن شلکل اور دیگر علاقوں میں را،سی آئی اے اورموساد کی نگرانی میں پاکستان مخالف لشکروں کو تشکیل دیا جا رہاہے تاکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی تنازعات کو ہوا دیکر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خراب کرکے قبائل کوآپس میں لڑا دیا جائے تاکہ افغانستان کے مسئلے کو حل کرانے کی تمام درپردہ کوششوں کو سبوتاژ کرکے امریکا کو نہ صرف افغانستان میں رہنے کو مزید جواز فراہم کیا جائے بلکہ پاکستان اورامریکا کے درمیان جنگ کی کیفیت پیدا کرکے پاکستان کی نیوکلیر حیثیت کوختم کرنے کی آخری کوشش کی جائے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے امریکی حکومت سے مولوی فضل اللہ کو پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ادھرافغانستان کے جنوبی شہر قندھار میں تشدد کے واقعات عام ہو گئے ہیں ۔ حال ہی میں وہاں جس طرح سیاسی رہنماؤں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس سے عام آدمی ہی نہیں بلکہ افغانستان پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین بھی حیران ہیں۔قندھار افغانستان کا تاریخی دارالحکومت رہا ہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ جو قندھار جیت لیتاہے اس کاپورے ملک پر اقتدار قائم ہوجاتاہے۔ قندھار نہ صرف افغانستان کے صدر حامد کرزئی کا آبائی صوبہ ہے بلکہ ملا عمر سمیت طالبان کے کئی بڑے رہنماؤں کا اس علاقے سے تعلق ہے۔ قندھار کو پشتو ثقافت کے مرکز کے طور پر بھی جانا جاتا ہے لیکن جنوبی افغانستان کا یہ علاقہ جنگ کا اہم مرکز بن رہا ہے اور طالبان کی زیادہ تر کاررائیاں یہیں پر ہورہی ہیں۔متعدد ذرائع کی جانب سے جمع کئے گئے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ قندھار میں گزشتہ دس برسوں میں پانچ سو سے زیادہ بڑے سیاسی رہنماؤں اور بااثر قبائلی رہنماں کو ہلاک کیا گیاہے۔ان ہلاکتوں میں سب سے اہم نوعیت کا واقعہ صدر حامد کرزئی کے بھائی احمد ولی کرزئی کی ہلاکت ہے جنہیں ان کے محافظ نے گولیوں سے چھلنی کر دیا تھا۔
طالبان کا نشانہ بننے والے دیگر نامور ناموں میں کئی صوبائی پولیس کے سربراہ، میئر، ڈسٹرکٹ گورنرز، دیہی اور مذہبی رہنما، اساتذہ، ڈاکٹر اور حکومت اور نیٹو افواج کے حامی، عام شہری شامل ہیں۔افغانستان کے دیگر حصوں میں بھی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پیش آ رہے ہیں لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پورے افغانستان میں اس نوعیت کی جتنی ہلاکتیں ہوئیں ہیں ان سے زیادہ صرف قندھار میں ہوئی ہیں۔یہاں گزشتہ کئی برسوں سے اس قسم کی ہلاکتیں اگر روزانہ نہیں توہرہفتے میں ضرور ہوتی ہیں۔قندھار کے عوام کو لگتا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں میں سیاسی رہنماؤں کی ایک پوری نسل کو قتل کردیا گیا ہے۔قتل و غارت کا یہ سلسلہ اس وقت مزید تیز ہوگیا جب ۲۰۱۰ء میں امریکی اور نیٹو افواج نے طالبان کو قندھار سے نکالنے کی کوشش میں وہاںبھرپور فوجی مہم کا آغاز کیا۔
اس وقت امریکی اور نیٹو افواج یہ سمجھتی ہے کہ جو’’ قندھار میں ہوتا ہے، وہ افغانستان میں ہوتا ہے، اگر قندھار ہاتھ سے نکلتا ہے تو افغانستان بھی جائے گا‘‘۔ حامد کرزئی کے لئے ملک کی سلامتی کی صورتحال اب ایک بڑا چیلنج بن گئی ہے۔جنوبی افغانستان میں ہونے والے تقریبا ہر قتل کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ہے۔ طالبان نے افغان رہنماں سمیت بیرونی افواج کی حمایت کرنے والے ہر شخص پر حملے کی دھمکی دی ہے۔ طالبان کے ان حملوں سے انہیں نفسیاتی طور پر برتری کا احساس اور شہرت بھی ملی ہے۔ ایک ایسے شہر میں جہاں تشدد کوئی نئی چیز نہیں ہے ان ہلاکتوں نے عوام کو حیران کردیا ہے۔ایک اعلیٰ افغان سرکاری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایاکہ افغانستان میں چالیس سے زیادہ ملکوں کے فوجیوں نے ڈیرہ ڈالا ہوا ہے اور ان میں سے زیادہ تر کے جاسوسی نیٹ ورک قندھار میں موجود ہیں، ہمیں نہیں پتہ کہ کون یہاں کیا کر رہا ہے اور ان سب کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟لیکن یہ بات طے ہے کہ امریکا کی بظاہرر خصتی کے کوئی آثارنظرنہیں آتے۔
قندھار میں ان حملوں کا سب سے بڑا اثر شہر کے بنیادی ڈھانچے پر پڑا ہے اورمقامی شہری تیزی کے ساتھ سرکاری نوکریاں چھوڑ رہے ہیں کیونکہ انہیں اپنی جان کا خطرہ لاحق ہے۔ ایک مقامی سرکاری اہلکار نے بتایا ہے ’’مجھے کئی بار دھمکیاں ملی ہیں،طالبان دھمکانے کے لئے ان کے گھروں کے باہر رات کے وقت اپنا تحریری پیغام چسپاں کر دیتے ہیںکہ سرکاری نوکری چھوڑو ورنہ جان سے مارے جا ؤگے۔قبائلی رہنما نسل در نسل منتقل ہونے والی قدیم مقامی عقل و فہم اور تجرباتی علم رکھتے ہیں اور ان قبائلی عمائدین کے ہلاکتوں سے مقامی حکمت و علم کو بھی نقصان پہنچا ہے جس پر افغان حکومت قندھار میں امن لانے کے لیے انحصار کرتے ہیں۔پشتو کا ایک مشہور قول ہے کہ آپ کے سو مر جائیں لیکن ایک نہ مرے۔مقامی لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ان ہلاکتوں سے قندھار کو بڑا نقصان ہو رہا ہے۔
افغانستان پر شائع ہونے والی ایک نئی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے ’’کہ ۲۰۱۴ء میں نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغان حکومت کے ختم ہونے اور خانہ جنگی کا خطرہ ہے۔انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی طرف سے جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے افغان پولیس اور فوج ابھی ملک میں پوری طرح سکیورٹی کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ رپورٹ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر صدر حامد کرزئی نے شفاف انتخابات کرانے کے لیے اقدامات نہیں کئے تو دو سال بعد ملک میں انتخابات اتنے ہی پرفریب ہوں گے جتنا کہ گزشتہ انتخابات تھے‘‘۔بعض سیاسی مبصرین افغانستان کی تقسیم کے خدشہ کا اظہاربھی کرر ہے ہیںجس کے بعدیہ خطہ پھربرسوںامن سے کوسوں دورہوجائے گا۔