Home / Socio-political / سیاسی شہادت یا سیاسی ہلاکت

سیاسی شہادت یا سیاسی ہلاکت

سمیع اللہ ملک

سپریم کورٹ نے قومی مصالحتی آرڈیننس یعنی این آر او کے بارے میں عدالتی فیصلے پر عمل درآمد سے متعلق از خود نوٹس کے کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے اٹارنی جنرل کو وزیراعظم کی نااہلی سمیت چھ آپشنز دئیے ہیں۔ عدالت نے اس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیجتے ہوئے لارجر بینچ بنانے کی تجویز دی ہے اور سماعت سولہ جنوری تک ملتوی کر دی ہے۔منگل کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ” بادی النظر میں وزیراعظم ایماندار شخص نہیں رہے اور کوئی شخص جو ایماندار نہ ہو پارلیمان کا رکن نہیں رہ سکتا، وزیراعظم نے آئین کی بجائے سیاسی جماعت سے وفاداری کی“۔عدالت کی جانب سے دی جانے والی تجاویز میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم اور وفاقی سیکرٹری کے خلاف توہین ِعدالت کی کارروائی کی جائے۔ وزیراعظم کو آرٹیکل۳۶ جی کے تحت پارلیمنٹ کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا جائے ،عدالت ایک کمیشن قائم کرے جو اس فیصلے پر عملدرآمد کروائے۔

چیئرمین نیب کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی کی جائے۔آرٹیکل ۸۴۲کے تحت اگر کوئی چاہے کہ اسے سنا جائے تو وہ لارجر بینچ کے سامنے اپنا موقف بیان کرے۔عدالت نے چیئرمین نیب، سیکرٹری قانون، اٹارنی جنرل اور پراسکیوٹر جنرل نیب کو سولہ جنوری کو طلب بھی کیا ہے۔اس سے قبل منگل کو ہی سپریم کورٹ نے قومی مصالحتی آرڈیننس کے بارے میں عدالتی فیصلے پر عمل درآمد سے متعلق از خود نوٹس میں فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی نے اس از خود نوٹس کی سماعت شروع کی تو اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے عدالت کو بتایا کہ این آر او سے متعلق عدالتی پر عمل درآمد ہو رہا ہے جس پر بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اگر عمل درآمد ہوا ہے تو اس کی تفصیلات عدالت میں کیوں جمع نہیں کروائیں گئیں۔اپنے آخری آپشنزمیں کہاگیاکہ عدالت تحمل کا مظاہرہ کرے اور فیصلہ عوام کے نمائندوں پر چھوڑ دیا جائے ،

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا حکومت نے سوئس عدالتوں میں مقدمات کی بحالی کے لیے سوئس حکام کو خط لکھا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں انہیں مزید مہلت دی جائے۔عدالت نے وفاقی سیکرٹری قانون مسعود چشتی کی غیر حاضری کے بارے میں استفسار کیا تو عدالت کو بتایا گیا کہ وہ غیر ملکی دورے پر ہیں اور بیمار ہیں جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ” کیا انہیں ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ عدالتی علاج کی بھی ضرورت ہے، سیکرٹری قانون نے بیماری کے بارے میں عدالت کو اگاہ کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا“۔ نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کے کے آغا کی یہ سادگی ملاحظہ فرمائیں کہ انہوںنے عدالت کو بتایا کہ جب عدنان خواجہ کو او جی ڈی سی ایل کا چیئرمین مقرر کیا گیا تو سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ عدنان خواجہ سزا یافتہ ہیںجس کے جواب میںجسٹس آصف سعید کھوسہ نے فوری تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ عدنان خواجہ کی تقرری وزیر اعظم کے ایک ٹیلی فون پر سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے کی تھی۔

عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل سے استفسار کیا کہ کیا اختیارات کا ناجائز استعمال نیب آرڈیننس کے تحت نہیں آتا؟ عدالت نے سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا تھا جس پر کے کے آغا کا کہنا تھا کہ سابق اٹارنی جنرل کے خلاف نیب آرڈیننس کے تحت کارروائی نہیں ہو سکتی۔نیب کے سربراہ فصیح بخاری کا کہنا تھا کہ کسی بھی شخص کے خلاف انکوائری کروانا چیئرمین نیب کا استحقاق ہے اور ان افراد کے خلاف مزید تحقیقات کی ضرورت نہیں ہے۔خیال رہے کہ گزشتہ منگل اس کیس کی سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ این آر او سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے لیے حکومت اور قومی احتساب بیورو کو آخری موقع دیا جا رہا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ اگر این آر او پر عمل درآمد شروع نہیں ہوا تو خواہ کوئی بھی شخص چاہے جتنے بڑے عہدے پر فائز ہوا، اس کے خلاف مناسب کارروائی کی جائے گی۔

ا منگل کو سپریم کورٹ نے قومی مصالحتی آرڈیننس یعنی این آر او کے بارے میں عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے سے متعلق از خودنوٹس کی سماعت پر فیصلہ سناتے ہوئے وزیر اعظم کی نااہلی سمیت چھ ممکنہ حل بتائے اور اس معاملے کو چیف جسٹس کو بھجواتے ہوئے کہا کہ وہ اس ضمن میں لارجر بینچ تشکیل دیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے عدالتی احکامات پر عمل درآمد اور آئین کی پاسداری نہ کرکے اپنے حلف سے روگردانی کی ہے اور” بادی النظر میں وہ ایماندار نہیں رہے اور اگر کوئی بھی شخص ایماندار اور امین نہ ہو تو وہ پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا۔ وزیر اعظم نے آئین کی پاسداری پر اپنی سیاسی وابستگی کو ترجیح دی“۔عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ” صدر پاکستان اور وزیر قانون بھی بظاہر اپنے حلف سے روگردانی کے مرتکب ہوئے ہیں اور انہیں بھی ایسے ہی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے“۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ آئین کے ارٹیکل ۹۸۱کے تحت تمام ادارے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں۔ عدالت وزیر اعظم، وزیر قانون اور سیکرٹری قانون کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی بھی کرسکتی ہے کیونکہ انہوں نے جان بوجھ کر عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کیا۔ اگر انہیں اس الزام کے تحت سزا ہوجاتی ہے تو آئین پاکستان کے تحت ان کے رکن پارلیمان بننے پر پانچ سال کی پابندی لگ سکتی ہے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں صدر آصف علی زرداری کا ایک نجی ٹی کو دیے گئے انٹرویو کا بھی حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ این آر او سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے کچھ حصوں پر عمل درآمد نہیں کیا جائے گا۔

عدالت نے یہ امکان بھی سامنے رکھا ہے کہ آئین کے ارٹیکل ۷۸۱ کے تحت سپریم کورٹ ایک کمیشن تشکیل دے جو این آر او سے متعلق عدالتی فصیلے پر عمل درآمد کروائے۔سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ چیئرمین نیب نے عدنان خواجہ اور احمد ریاض کے بارے میں کہا ہے کہ ان کے خلاف اب مزید انکوائری کی گنجائش نہیں ہے۔ عدالت دو سال سے این آر او پر عمل درآمد نہ ہونے پرصبرو تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے جبکہ آئین میں یہ واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنایا جائے گا۔ چیئرمین نیب نے عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کیا اور بادی النظر میں انہوں نے مس کنڈکٹ کیا ہے اور کیوں نہ ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں ان کے عہدے سے ہٹایا جائے۔

عدالت نے اپنی تجویز میں کہا ہے کہ اگرچہ سماعت کے دوران ابھی تک کسی نے آئین کے آرٹیکل ۸۴۲ کے تحت حاصل استثنیٰ کا معاملہ نہیں اٹھایا ہے تاہم اگر عدالت کی تجاویز کے نتیجے میں کوئی متاثر ہوتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کا موقف سنا جائے تو اسے موقع دیا جانا چاہیے۔

یادرہے کہ۵۲نومبر۱۱۰۲ءکو سپریم کورٹ نے این آراوکے فیصلوں پرنظرثانی کی درخواست مستردکرتے ہوئے سپریم کورٹ کے احکام پرعملدرآمدکاحکم دیاتھالیکن حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کے احکام کی کوئی پرواہ نہیں کی گئی جس کے بعد۴۱دسمبر۱۱۰۲ءکو سپریم کورٹ نے این آراوکے فیصلوں پرعملدرآمدنہ ہونے پرنوٹس جاری کیا تھا۔عدالت عالیہ نے تحمل کامظاہرہ کرتے ہوئے ۳جنوری ۲۱۰۲ءکو این آراوکے فیصلوں پرعملدرآمدکےلئے حکومت اورنیب کوآخری موقع دیاتھالیکن حکومت کی طرف سے عدم تعاون کی بناءپرسپریم کورٹ کوبالآخرچھ آپشنزپریہ فیصلہ جاری کرناپڑا۔شائدموجودہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ پچھلے چارسال کی کرپشن اوربدعنوانی کوچھپانے کابہترین طریقہ یہ ہے کہ عدالت کے آخری آپشن پرعمل کرتے ہوئے سیاسی شہادت قبول کرتے ہوئے نئے انتخابات کااعلان کردیاجائے لیکن آئندہ انتخابات میں قوم اپنی بالغ نظری سے یہ ثابت کردے گی یہ سیاسی شہادت نہیں بلکہ ایسی سیاسی ہلاکت ہوگی کہ موجودہ حکومت کوسرچھپانے کےلئے بھی جگہ میسرنہ ہوگی۔

****

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *