Home / Socio-political / سیاسی کھیل

سیاسی کھیل

                             

سیاسی کھیل

عباس ملک

پاکستانی معاشرہ اور عوام جمہوری خطرات سے گھرا ہوا ہے ۔معاشرے میںاصلاحات کو انارکی اور انقلاب کے ساتھ نتھی کر کے غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل کی راہ ہموار کرنے اور اس میں ممدد ومعاون بننے کیلئے تیاری کی جا رہی ہے ۔جمہوریت کے پاسدار آئین سے پاسہ مار کر جمہوریت کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر سیاسی شہادتوں کے حصول کے متمنی ہیں۔ ایک دوسرے کے دامن پر چھینٹے ڈال کر آلودگی کی ایسی فضا قائم کر دی گئی ہے جس میں ہر طرف گندگی کے ڈھیر ہی نظر آتے ہیں۔آئین نے ان تمام ضوابط کااحاطہ کیا ہے جو کسی بھی سیاسی شخصیت کے احتساب کیلئے ضروری ہیں۔ اسی آئین نے قانون اگربیان کیا ہے تو ساتھ میں قانون نافذ کرنے کا طریقہ بھی بیان کیا ہے ۔ملک کو چلانے اور اس کے چلانے کے ذمہ داران کیلئے ضروری قوائد ضوابط سے اغراض برت کر جو غفلت برتی گئی اس کے نتیجے میں بحران جنم لیتے ہیں۔ حکمران جماعت اور اپوزیشن نے پانچ سال کا عرصہ گذار لیا ۔ عوام پر جو بیتی سو بیتی لیکن اب جمہوریت کے تسلسل کیلئے دونوں کو سوچنا ہوگا ۔  غیر جمہوری طرز عمل یا طرز فکر سے نہ صرف عوام بلکہ سیاسی قیادت کو بھی نقصان ہوگا۔حکمران اپنے کیے پر شرمندہ ہیں یا نہیں لیکن وہ شاید اب مزید عوامی استحصال کیلئے گنجائش نہیں رکھتے ۔اپوزیشن کسی طرح بھی خود کو اس قابل نہیں پاتی کہ وہ کوئی ایسا قدم اٹھائے یا عوام کو احتجاج کیلئے باہر نکال کر اپنی باری کو خرآب کرے ۔عوام کے بارے میں تو تب ہی سوچا جا سکتاہے جب اپنی باری محفوظ ہو ۔ بھوکے سے کیسے توقع رکھی جائے کہ وہ اپنی باری کسی اور کو کھانے کے لیے دے گا۔ہر طرف سے اقتدارکے بھوکے امڈکر آرہے ہیں۔ سیاستدانوں نے ہر طرح سے عوام کو بلیک میل کیا ہے ۔یہ پاکستان کو ہر وقت خطرے میں بتاتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اس کو کس سے خطرہ ہے۔ جن سے خطرہ ہے ان کی گود میں تو یہ خود بیٹھے ہیں ۔کیادوستی کا ہاتھ بڑھانے سے دوسرے کا بغض اور کینہ و غصہ کم کیا جا سکتا ہے ۔ پاکستان کو لسانی گروہی عصبیتوں کی آماجگاہ بنانے میں سیاسی قیادت ہی استعمال ہورہی ہے۔اس پر واویلا بھی سیاسی قیادت ہی مچا رہی ہے۔مذہب کو بنیاد پرستی اور اسے اپنی ترقی میں حائل سیاسی قیادت ہی قرار دیتی ہے اور معاشرے میں مذہب کی اجارہ داری کیلئے بھی سیاسی قیادت ہی کوشاں ہے ۔ معاشرے کو سیکولرازم سے خطرہ ہے کیمونزم اس ملک کے لیے ناسور ہے یہ بھی سیاستدان بتاتا ہے۔ ان کے آئیڈیل کون ہیں وہ ان افکار کے بانی وہ بھی یہ ہی بتاتے ہیں۔اسلام کی ترویج میں بھی یہی حائل ہیں اور سیکولرازم کے طرف بھی مائل ہیں۔ استحصال واستبداد کے یہ قائل ہیں لیکن نعرے یہ کارکن اور مزدور کیلئے لگاتے ہیں۔ امریکہ کو اپنی جلسوں کی تقاریر میں یہ استحصالی اور استبدادی گروہ کا سرغنہ مانتے ہیں لیکن حکومت ملنے پر یہ مجبور ہو جاتے ہیں ۔ پھر امریکہ کا صدر تو کیا اس کا سفیر ہی ان کیلئے کافی ہے۔ جھوٹ کی تہہ در تہہ سیاست نے ان کی موروثی  سیاست کو تو دوام بخشا ہے لیکن اس سے پاکستان کے ہلالی جسد پر عصبیتوں کے کتنے داغ بنا دئیے ہیں۔مریض کے لواحقین کو ڈاکٹر ڈراتے ہیں کہ اگر آپ نے یہ ٹیکہ نہ لایا تو آپ کا پیارا زیت ناک موت سے ہمکنار ہو سکتا ہے ۔ اس کے یہ ٹیسٹ کرائو اس کیلئے یہ لائو وہ لائو ۔ وہ اپنے پیارے کی زندگی کیلئے اپنا کچھ بیچ کر اور کچھ اپنے اپ کو بیچ کر دوا لاتے ہیں۔ کچھ بھیک مانگتے ہیں تو کچھ خون بیچتے ہیں۔ کچھ ضمیر بیچتے ہیںتو کچھ خود کو بیچتے ہیں۔ مقصود اپنے عزیز کی اذیت دور کرنا ہوتا ہے ۔ وہ اپنا سب کچھ قربان کر کے اپنے عزیز کی کیلئے لاتے ہیں لیکن ڈاکٹر اپنے دائو پیچ استعمال کر کے مریض کی حالت سنبھل جانے کی نوید سنا دیتا ہے ۔ لواحقین عزیز کی حالت بہتر ہو جانے کی نوید سن کر یہ بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے کیا بیچا اور کیا دیا۔ ان کا احسان اپنے عزیز پر ہوتا ہے کہ ہم نے تمھارے لیے یہ کیا ۔حقیقت میں تو ڈاکٹر اس کا سارا فائدہ اٹھا گیا۔ ڈاکٹر فائدہ اٹھا کر ایک طرف ہو گیا اور مریض کا مرض بھی قائم اور اس کے لواحقین پر احسان بھی ہے۔ وہ اسے مسیحا جان کر جھک جھک کر سلام بھی کرتے ہیں اس کا احترام بھی کرتے ہیں ۔ اس سے اپنے دکھ اور درد کی دوا بھی چاہتے ہیں۔ وہ انہیں لوٹتا ہے لیکن ان کیلئے مسیحا ہے ۔سیاستدان بھی اپنے اپنے مقاصد کیلئے ہمیں ہمارے پاکستان کو خطرات میں گھرا بتا کر ہم سے قربانیاں مانگتے رہتے ہیں۔ ہمیں نے جانیں بھی دیں ، مال بھی دیا ، ایمان بھی بیچا خود کو بھی بیچا عزت بھی نیلام کی غیرت سے بھی ہاتھ دھوئے لیکن پھر بھی ہمارے پیارے پاکستان کو لا حق خطرات کم نہیں ہوئے ۔ درد بڑھتاگیا جوں جوں دوا کی کے مصدق پاکستان کے محب الوطن سیاستدانوں کے ہر حربے کے بعد پاکستان خطرات کی عمیق گہرائیوں کی ہی طرف بڑھتا ہے۔ یہ اعجاز مسیحائی کیا ہے ۔ مفادات کی دلدل کو مسیحائوں نے اس کا تریاق تجویز کیا ہے ۔جس کو اس ملک کے ناسور قرار دیا جاتاہے اسی کو اس ملک کیلئے ناگزیر بھی قرار دیا جاتاہے۔دشمن سے رحم کی بھیک مانگنا اور اس سے اپنے دکھوں کا مداوا چاہنے میں کون سی دانش چھپی ہے۔دشمن جھکے ہوئے سر دیکھ کر اور پھیلے ہوئے ہاتھوں کو بوسہ نہیں دیتے ۔ پگڑی اچھالتے ہیں اور ہاتھ جھٹک دیتے ہیں۔معلوم ہے کہ ہم نے خودی اور خوداری کے بغیر ترقی نہیں کرنی پھر بھی کاسہ گدائی بڑھانا ضروری کیوں ۔پاکستان نے جو بھی ترقی کی منازل طے کی ہیں وہ خودی اور خودشناسی کے سبب ہیں۔ اٹامک پاوور کیا دشمن کی دی ہوئی بھیک سے ملی ۔جہاں بھی ہلالی پرچم سربلند ہوا وہ خود ی کے سبب تھا۔ جس بھی حکمران نے خودی اخ

تیارکی اس نے ایسے شعبہ جات پاکستان کیلئے اہم جانے جن کے سبب مستقبل میں پاکستان اور پاکستانیوں کو فوائد حاصل ہوئے ۔نعروں اور ایک دوسرے کی دامن کشائی سے قوموں کی ترقی منسلک نہیں ہوتی۔ ایک دوسرے کو برابھلا کہنے سے قوم میں نفاق اور انارکی ہی پیدا ہو سکتی ہے اتحاد ویکجہتی اس کا موضوع نہیں۔ اگر سیاسی اکابرین کے بیانات کو بنیاد بنا کر عدالت فیصلہ دے تو عصر حاضر کی تمام لیڈر شپ غدار کرپٹ اور نااہل قرار پاتی ہے۔ان کے بیانات کو جھوٹ مانا جائے ، تعصب قرار دیا جائے یا بغض وعداوت سمجھا جائے تو کیا یہ اس قابل ہیں کہ انہیں کسی قوم کا راہنما بھی قرار دیا جائے ۔ اگر سچ سمجھا جائے تو بھی اس سبب وہ کیا قومی لیڈر کہلانے کا استحقاق محفوظ رکھتے ہیں۔ یہ کیا ہیں سچے ہیں یا جھوٹے ہیں۔ یہ سچے بھی ہیں اور جھوٹے بھی ہیں۔ اگر ان کے دو چہرے ہیں تو پھر یہ ابن ابی کے پیروکار تو نہیں بنتے ۔ذو اشکال سے کیسے توقع کی جائے کہ ان کا مجوزہ زاویہ عوام اور پاکستان کیلئے ہی موزوں ہے یا ان کے مفادات اورخواہشات وضروریات پر مرکوز ہے۔کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔ جو پوتڑوں بگڑے ہوئے ہوں یا چاندنی کی رکابوں کے عادی ہوں کا سنبھل جانا اتنا آساں تو نہیں۔ امید پر دینا قائم اور مایوسی کفر ہے۔ ہمت اور جنوں سے ہی قوم کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے۔ تو اپنی طرح نہ بدل تو ہم کیسے اپنی روش چھوڑ دیں۔ کسی کو من عزیز ہے تو کسی کو تن عزیز ہے پر کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں صرف صنم عزیز ہے ۔اپنے لیے جینا تو سب جانتے ہیں پر اپنوں کیلئے جینا کسی کسی کو آتا ہے۔ مشکل منزل ہے من مارنا اور تن توڑنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ سچ کو سچ ماننا نہیں لیکن اس سے کیا سچ کہنا بند کر دیا جائے ۔ سچ کو سچ تسلیم نہ کرنے سے کیا سچ کیا جھوٹ ہو جاتا ہے۔ سیاست کے کھیل میں کہیں میدان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھو یہ خیال رہے۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *