سیاست دانوں کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ خود نہیں بدلتے ہیں وقت کو بدلتے ہیں اور سب کچھ ان کے حساب سے ہوجاتا ہے۔ ہندوستان میں وقت کو بدلنے کے ڈھیر ساری مثالیں ہیں اور آئے دن ہم روز مرہ کی زندگی میں اس کا معائنہ اور سامنا کرتے رہتے ہیں مثلاً کسی محکمے ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں صرف مسلمان ہی رکھے جاسکتے ہیں یا یہ شرائط صرف مسلمان ہی پوری کرسکتے ہیں لیکن کیوں کہ مسلمانوں کو بحال کرنا مقصد نہیں ہوتا اس لئے سیاست داں اور نوکر شاہ اس جگہ کو ایس سی ایس ٹی کے لئے مختص کردیتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ مسلمان ایس سی ایس ٹی نہیں ہوتے اس لئے وہ تمام صلاحیت اور قابلیت کے باوجود وہ اس جگہ کیلئے درخواست نہیں دے سکتے۔ یوں تو جمہوریت ، آزادی اور خود مختاری کے الفاظ میں سننے میں بہت اچھے لگتے ہیں لیکن ان الفاظ کا نفاذ اور عمل اتنا ہی مشکل ہے جتنی مشکل سے یہ چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔ ہندوستان کی جمہوریت،انتظامی ادارے کی خودمختاری ، تفتیشی ایجنسیوں کو آزادانہ حیثیت جس طرح قانونی طور پر حاصل ہے اسی طرح وہ کسی نہ کسی طبقہ کا غلام بھی ہے۔ کوئی ادارہ حکومت کا غلام ہے تو کوئی کسی طبقہ کا۔ غلامی بہر حال ہندوستان کے تنظیمی اداروں کا جز لاینفک ہے۔ ہندوستان میں ایڈمنسٹریٹو سروس (سول سروس) کے افسران نوکر شاہ کہلاتے ہیں۔ حقیقی حکمراں یہی ہوتے ہیں وزرائے کے بارے میں فلائنگ برڈ (اڑتی چڑیا) کہا جاتا ہے آج ہے کل رہیں گے یا نہیں کوئی ضمانت نہیں لیکن نوکر شاہ اپنی سروس کی مدت پوری کرتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی اورتنزلی میں ان کا بہت اہم رول ہوتا ہے۔ تمام منصوبے اور پروجیکٹ یہی افسران بناتے ہیں اورنفاذ کی ذمہ داری بھی ان کی ہوتی ہے۔ سیاست داں انتخابات کے دوران جو وعدے کرتے ہیں ان کا نفاذ بھی یہی کرتے ہیں۔ اگر کسی منصوبے اور پروجیکٹ کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا تو سیاست داں کم نوکر شاہ زیادہ ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ہم آسانی سے سیاست داں کو رات دن کوستے رہتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں سیاست داں اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں لیکن افسران کی ذمہ داری بھی کم نہیں ہوتی ۔ نوکر شاہوں سے عام آدمی ہی نہیں سیاست داں بھی پریشان رہتے ہیں کیوں کہ جن جن منصوبوں کو وہ حکومت سے منظور کراتے ہیں یہ نوکر شاہ اس کے نفاذ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ کسی مخصوص طبقے کے لئے مختص رقم کو کس خوبصورتی کے ساتھ دوسروں پر خرچ کردیتے ہیں جس میں کمیشن کا بڑا حصہ ان کا ہوتا ہے۔ اسی لئے ہندوستان میں بدعنوانی میں سیاست دانوں کے بعد نوکر شاہوں کا نمبر آتا ہے۔ ہندوستان کے نوکر شاہ دنیا کے بدعنوان ترین افسران ہیں۔ سیاست دانوں کی بدعنوانی پر عوام اور میڈیا انہیں برا بھلا کہتے ہیں لیکن نوکر شاہوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ جب سے ہندوستان میں میڈیا بے لگا م (ہندوتوا کا رنگ اختیار کیا ہے) ہوا ہے افسران کے مزے آگئے ہیں۔ ہندوستان میں رشوت کی سطح میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور نوکر شاہوں کی چاندی ہوگئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ افسران کو سیاست داں آزدانہ طور پر کام نہیں کرنے دیتے ہیں لیکن یہ انہی افسران کے ساتھ ہوتا ہے کہ جو ایماندار ہوتے ہیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ ہندوستان میں افسران کا ایماندار ی سے کام کرنا تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔ اسی لئے یہاں کام میں آزادی اورخود مختاری کی بات کہی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ افسران میں اتنی ہمت اور جرات ہے کہ وہ آزادانہ طور پرپروفیشنل انداز میں کام کرسکیں ۔ ایسے افسران آپ کو انگلیوں پر گن سکتے ہیں اور ان کا وجود صرف مثال پیش کرنے کے حد تک ہے۔ سی بی آئی یوں تو ایک آزاد اتفتیشی ایجنسی ہے لیکن وہ کبھی بھی آزادانہ طور کام نہیں کرسکی۔ہر دور میں اس پر حکومت کے منشا کے مطابق کام کرنے کا الزام لگتا رہا ہے جو کسی حد تک صحیح بھی ہے لیکن اس وقت سی بی آئی کی خود مختاری گوئلہ بلاک الاٹمنٹ میں مبینہ بدعنوانی کی تفتیش کے سلسلے میں ہے۔
سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی ) کا قیام غلام ہندوستان میں 1941میں اسپیشل پولیس اسٹبلشمنٹ (ایس پی ای) کے طور پر عمل میں آیا تھا۔ اس بعدیکم اپریل 1963 کو اس کا نام سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کردیا گیا۔ اس کے پہلے ڈائرکٹر ڈی پی کوہلی تھے جو اسپیشل پولیس اسٹبلشمنٹ میں انسپکٹر جنرل آف پولیس تھا۔ جب اس تفتیشی ایجنسی کو سی بی آئی کا نیا نام دیاگیا تو مسٹر کوہلی اس کے پہلے ڈائرکٹر بنائے گئے۔ سی بی آئی ڈائرکٹر کی تقرری ایک عمل کے تحت ہوتی ہے۔ پہلے ایک سلیکشن کمیٹی جس میں چیف ویجلنس کمشنر (چرمین) ویجلنس کمشنر (ممبر) سکریٹری داخلہ (ممبر) سکریٹری کوآرڈینشن آف گریوانسیز (کیبنیٹ سکریٹریٹ) ممبرہوتے ہیں جوکسی نام کی سفارش کرتے ہیں اس کے بعد کابینہ کمیٹی برائے تقرری اس کو منظوری دیتی ہے ۔ اس کے بعد سی بی آئی کے ڈائرکٹرکی تقرری عمل میں آتی ہے۔ سی بی آئی کے موجودہ ڈائرکٹر رنجیت سنہا نے یہ اعتراف کیا کہ سی بی آئی ایک خود مختار ادارہ نہیں ہے اور حکومت کا ایک حصہ ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس کا بھی اعتراف کیاکہ سپریم کورٹ نے سی بی آئی پر جو تبصرہ کیا ہے وہ صحیح ہے۔ سپریم کورٹ نے سی بی آئی کو پنجر ہ میں بند ایک طوطا قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنی سخت ناراضگی اس وقت ظاہر کی جب اسے معلوم ہوا کہ کوئلہ بلاک الاٹمنٹ کی تفتیش کے سلسلے میں سی بی آئی نے اسٹیس رپورٹ سابق وزیر قانون اشونی کمار اور پی ایم او اور وزارت کوئلہ کے سکریٹری کو دکھائی ہے۔ حلف نامہ میں رنجیت سنہا کی طرف سے کہا گیا ہے، “میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اسٹیٹس رپورٹ کا مسودہ سپریم کورٹ میں داخل کرنے سے پہلے سابق وزیر قانون کو دکھایا گیا تھا کیونکہ وہ اسے دیکھنا چاہتے تھے۔ سی بی آئی ڈائریکٹر نے حلف نامے میں سابق وزیر قانون اشونی کمار، پی ایم او اور کوئلہ وزارت کے مشورہ پر اسٹیٹس رپورٹ میں چار تبدیلیاں کرنا قبول کیا ہے۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ آگے کوئلہ الاٹمنٹ معاملے میں خصوصی تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کے سمیت تمام پہلوؤں پر غور کیا جائے گا۔ 26 اپریل کو جو تازہ اسٹیٹس رپورٹ پیش کی گئی وہ کسی بھی سیاسی شخصیت کو نہیں دکھائی گئی ہے۔ حلف نامہ میں کہا گیا ہے، “میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ عدالت میں پیش کردہ موجودہ اسٹیٹس رپورٹ کسی بھی طرح سے انتظامیہ کے کسی بھی سیاسی شخصیت کو نہیں دکھائی گئی ہے۔کوئلہ بلاک الاٹمنٹ گھوٹالہ معاملے میں سی بی آئی جانچ کی پیش رفت رپورٹ میں حکومت کی مداخلت پر سخت ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے حکومت اور جانچ ایجنسی دونوں کو سخت پھٹکار لگائی تھی اور کہا تھا کہ سی بی آئی پنجرے میں بند ایسا طوطا بن گئی ہے جو اپنے مالک کی بولی بولتا ہے۔ یہ ایسی غیر اخلاقی کہانی ہے جس میں ایک طوطے کے کئی مالک ہیں۔عدالت نے سی بی آئی کو بیرونی اثرات اور مداخلت سے آزاد کرنے کے لئے حکومت سے 10 جولائی تک قانون بنانے کو کہا ہے۔سپریم کورٹ کے مطابق کولگیٹ کی جانچ رپورٹ کے ‘اصل عنصر’ کو ہی تبدیل کر دیا گیا۔ اس نے رپورٹ میں تبدیلی پر سی بی آئی، وزیر اعظم کے دفتر اور کوئلہ وزارت کے سینئر افسران کی سخت تنقید کی اور کہا کہ سی بی آئی کو تمام دباؤ سے نمٹنا آنا چاہئے۔موجودہ کیس ملک اور نظام کے لئے ایک بڑا سبق ہے۔ اس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے بینچ نے کہا کہ ہماری پہلی ترجیح سی بی آئی کو سیاسی مداخلت سے آزاد کرنا ہے۔ اس پر حکومت اور اپوزیشن، دونوں کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا ۔آج کے وقت میں سی بی آئی کے پاس تحقیقات کے لئے ڈھیر سارے معاملے ہیں۔ اس میں مجرمانہ معاملات سے لے کر دھوکہ دہی، ناجائزآمدنی، جائیداد میں گڑبڑی، گھپلے ، ، مرکز اور ریاستی حکومت کے ملازمین سے متعلق شکایتیں وغیرہ شامل ہیں۔ ملک کو اتنا اعتماد تو ضرور ہے کہ ہر چھوٹے موٹے کیس کو بھی سی بی آئی کے حوالے کرنے کی بات اس وقت کی جاتی ہے جب مقامی جانچ ایجنسیوں پر اعتماد نہیں ہوتا۔سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ کوئلہ گھپلے میں جاری سی بی آئی جانچ میں مداخلت کر کے حکومت نے پوری عمل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔اس کے مطابق عدالت کی پہلی کوشش سی بی آئی کو سیاسی مداخلت سے آزاد کرنے کی ہوگی۔ اس سے حکومت کو سی بی آئی کا غلط استعمال کرنے کی صلاحیت حاصل ہو جاتی ہے اور اس کا استعمال وہ اپنے دوستوں کو بچانے اور دشمنوں کو تنگ کرنے میں کیا کرتی ہے۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے عدالت کے احکامات سے زیادہ ہمیں ایسے آئینی تبدیلی کی ضرورت پڑے گی، جس کے ذریعے ملک کا پورا پولیس ڈھانچہ تبدیل کیا جا سکے۔
ایسا نہیں ہے کہ سی بی آئی کا استعمال حکومت نے پہلی بار کیا ہے۔ ہر حکومت اپنے اپنے دور میں اس کا بیجا استعمال کرتی رہی ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے فائدے کے لئے پولیس کے اختیارات کا غلط استعمال کرتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے پولیس تحقیقات میں سیاسی مداخلت ختم کرنے کی کئی کوشش کی ہے، لیکن ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ 1990 کی دہائی میں کشمیری عسکریت پسندی سے وابستہ ایک چھاپہ ماری کے دوران جین برادران کی ایک ڈائری اتفاق سے سی بی آئی کے ہاتھ لگ گئی۔ اس میں تقریبا تمام سیاسی جماعتوں سے وابستہ سیاستدانوں کو دی گئی دولت کی فہرست موجود تھی۔ اس طرح سامنے آیا جین حوالہ معاملہ حکومت اور اپوزیشن، دونوں کو شرمسار کرنے والا تھا۔ دونوں ہی پولیس تحقیقات کو آگے نہیں بڑھانا چاہتے تھے۔ تب صحافی ونیت نارائن نے سپریم کورٹ میں عرضی لگائی۔عدالت نے غیرفعالیت کے لئے حکومت کی سخت خبر لی اور سی بی آئی کو معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا۔ساتھ میں مستقبل کے لئے یہ ہدایات بھی جاری کیا کہ مرکزی ویجلنس کمیشن سی بی آئی پر نظر رکھے، تاکہ وہ سیاسی دباؤ سے آزاد ہوکر اپنا کام کر سکے۔کاش، یہ کام اتنا آسان ہوتا! جین حوالہ کیس میں تحقیقات اور پراسیکیوشن کو جان بوجھ کر اتنا ہلکا بنا دیا گیا کہ اس میں کوئی بھی مجرم نہیں پایا گیا۔ اسی درمیان 2006 میں پرکاش سنگھ کے معاملے میں سپریم کورٹ نے تمام ریاستوں کو حکم دیا کہ وہ بیوریوار پولیس اصلاحات کو انجام دیں۔ باقی چیزوں کے علاوہ ان اصلاحات کا مقصد مجرمانہ تحقیقات کی مکمل آزادی یقینی بنانا سمجھا گیا۔ یہاں بھی ریاستی حکومتوں نے اصلاحات کی کوشش تو کی لیکن حقیقت میں ذرا بھی تبدیلی نہیں آنے دیا۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ پولیس ڈھانچے کے بارے میں انتظامیہ کو اتنے سارے اصول بتا کر عدلیہ اپنے دائرہ کار سے باہر نکل گئی تھی جو بھی ہو، عدالت کے بنائے قوانین پولیس ڈھانچے پر سیاسی دبدبے یا اس کے غلط استعمال پر روک لگا پانے میں ناکام رہے ہیں۔لگتا ہے، جب تک پولیس ریاستی حکومت کا حصہ رہے گی، تب تک اس کی آزادی یقینی بنانا مشکل ہوگا۔این کے سنگھ، ایمرجنسی کے بعد اندرا گاندھی کو گرفتار کیا اور سینٹ کٹس معاملے کی جانچ کی۔سچ تویہ ہے کہ سی بی آئی میں مداخلت کا آغاز اندرا گاندھی کے وزیر اعظم دور میں ہوا تھا۔ اس سے پہلے کے وزیر اعظم اور حکومتیں عام طور پرایجنسی کے کام کاج میں دخل نہیں دیتی تھیں۔حکومت کے خلاف مقدمہ جیتنے کے بعد این کے سنگھ نے کتاب بھی لکھی۔ اندرا گاندھی کے اقتدار کے دوران ڈی سین نامی شخص پورے چھ سال تک اس ایجنسی کے ڈائریکٹر رہے۔جانچ میں مداخلت کرنے والوں میں آر دھون، چندرا سوامی اور ستیش شرما وغیرہ شامل تھے۔ جب این کے سنگھ نے نہیں مانا تو آنا فاناً میں ان کا تبادلہ کر دیا گیا ۔وہ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سینٹ کٹس معاملہ 6 ماہ میں ہی ختم کر دیا گیا اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو جو لوگ اس میں شامل تھے وہ آگے چل کے پکڑ لئے جاتے۔ ایسا ہی کچھ بوفورس معاملے میں ہوا جب اوتایوو قطروچی کو نہ صرف ملک سے باہر جانے دیا گیا بلکہ لندن میں سیل کیا گیا ان کا بینک اکاؤنٹ بھی کھول دیا گیا۔ 1997 میں جسٹس ورما نے مشورہ دیا تھا کہ سی بی آئی کو منصفانہ رکھنے کے لئے ادارے کے ڈائریکٹر کی مدت کو دو سال تک محدود کیا جائے۔ ایسا نہیں ہونے سے اس عہدے پر آنے والے لوگ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کے وقت کو ذہن میں رکھ کر سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کی کئی مثالیں ہیں کئی سابق ڈائرکٹر گورنر بنائے گئے اور دیگر عہدوں پر رکھے گئے۔ اگر وزیر قانون نے سی بی آئی کے ڈائریکٹر سے اسٹیٹس رپورٹ کا مسودہ دیکھنے کے لئے مانگا بھی تھا تو وہ انکار کر سکتے تھے۔ہندوستان کی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ مرکزی تفتیشی بیورو کو ‘سیاسی رہنماؤں’ سے حکم لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ “ہماری پہلی ترجیح ہے سی بی آئی کو سیاسی مداخلت سے آزاد کرنا۔ دنیا بھر کے صحافی گھپلوں کے آگے ‘گیٹ’ جوڑ کر ان کی سنجیدگی کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ 70 کی دہائی میں امریکہ میں ہوئے واٹرگیٹ واقعہ کی وجہ صدر نکسن کو اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑ اتھا۔ اپوزیشن ‘کولگیٹ’ پر وزیر اعظم منموہن سنگھ کے استعفی پر بضد ہے۔ کانگریس کے مطابق بی جے پی پارلیمنٹ میں بحث سے منہ چرا رہی ہے کیونکہ اگر بحث ہوئی تو کئی راز سے پردہ فاش ہوگا۔ اسی وجہ سے پارلیمنٹ کابجٹ اجلاس کولگیٹ اور سی بی آئی میں مداخلت کے معاملے کی بھینٹ چڑھ گیا ۔گولگیٹ اور سی بی آئی میں مداخلت نے دو وزرا پون کمار بنسل اور اشونی کمار کی بلی لے چکا ہے۔
معاملہ صرف سی بی آئی کی خودمختاری کی نہیں ہے بلکہ اس کی ذہنی دماغی اور نظریاتی خود مختاری کا بھی ہے۔ سی بی آئی اور دیگر سول افسران نظریاتی طور پر آزاد ہوں گے تو خواہ حکومت کا دباؤ کتنا کیوں نہ ہو وہ اسے جھیل سکتے ہیں لیکن معاملہ یہاں نظریاتی دباؤ کا ہوتا ہے۔ یہاں 95فیصد افسران اس سے متاثر ہیں۔ سی بی آئی ہو یا آئی بی، اسپیشل سیل یا قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) راء یا دیگر خفیہ ایجنسیاں دراصل ملک کے بجائے وہ کسی طبقہ یا مذہب کے حق میں کام کرنا زیادہ پسند کرتی ہیں۔ ملک کی بھلائی اور ملک کے مجرموں کو پکڑنے سے زیادہ لچسپی ان کی کسی خاص مذہب کے گناہگاروں کو بچانے کی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوکر شاہوں میں اکثریت ان کی ہے جو نظریاتی اعتبارسےْ خاکی نیکر دھاری ہیں۔ حکومت کسی کی بھی ہو خاکی نیکر دھاری نظریے کے تحت ہی کام کرتے ہیں۔ یہی وجہ سے مسلمانوں کے متعلق حکومت کے سارے منصوبے اور پروجیکٹ دم توڑ دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ کو اگر تفتیشی ایجنسیوں کو آزادی دلانی ہے یا خود مختاری عطا کرنا ہے تو اسے نظریاتی طور پر آزاد کرانا ہوگا اور پروفیشنل اندا زمیں کام کرنے کا سبق پڑھانا ہوگا۔سول اور خفیہ ایجنسیوں کے افسران نظریاتی طور پر پروفیشنل اور آزاد ہوتے تو اتنی بڑی تعداد میں مسلم نوجواندہشت گردی کے الزام جیل میں نہیں ہوتے۔
ڈی ۔ 64 فلیٹ نمبر 10 ، ابوالفضل انکلیو, جامعہ نگر، نئی دہلی۔ 25
9810372335
abidanwaruni@gmail.com