Home / Litrature / (شاد عارفی(مونوگراف

(شاد عارفی(مونوگراف

(نام کتاب: شاد عارفی(مونوگراف

مصنف:مظفر حنفی

سن اشاعت:2016

قیمت:85

ناشر:قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی

مبصر:محمدرکن الدین

ریسرچ اسکالر،جواہر لعل نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی

اردو ادب میں ایک نمایاں اورممتاز نام مظفر حنفی کا ہے۔مظفر حنفی بیک وقت  اردو کے  مشہور ومعروف شاعر،نقاداورمحقق اور ماہر ادب اطفال ہیں۔اردو ادب کے مختلف اصناف پر ان کی تصنیفات وتالیفات تقریباً  سو کے قریب ہیں۔ان کی علمی شہرت کا ایک زمانہ قائل ہے۔زیرتبصرہ کتاب شاد عارفی(مونوگراف)مظفر حنفی کا ایک خوب صورت ادبی تحفہ ہے۔احمد علی خاں المعروف بہ شاد عارفی(1900تا1964)ریاست رام پور کے ان چند نابغۂ روزگار شاعروں میں سے ایک تھے جن کی انفرادیت اردو شعروادب میں آب زر سے لکھنے کے لائق ہیں۔شاد عارفی بنیادی طور پر طنز نگار شاعر ہیں لیکن  اردو  ادب میں انہیں عشقیہ غزل   گو شاعر کی حیثیت سے بھی  جانا  جاتا ہے۔شاد عارفی کی شعری تخلیقا ت میں نظم و غزل کو اولیت حاصل ہے ۔یہی وجہ ہے کہ  ان کی شعری ذخائرمیں کس صنف کو فوقیت دی جائے ،ایک مشکل فیصلہ ہے۔شاد عارفی کا  تخلیقی جہان صرف شعری ادب  تک محدود نہیں ہے انہوں نے اردو ادب کی عظیم وراثت (سرمایہ)نثرمیں بھی کارہائے نمایاں انجام دیا ہے۔چناں چہ نثری ادب میں تنقیدی مضامین اور مکتوبات کو اولیت حاصل ہے۔زیر تبصرہ کتاب’’شاد عارفی‘‘چند ابواب پر مشتمل ہے۔ان کی فہرست کچھ اس طرح ہے۔ابتدائیہ۔اس ابتدائیہ میں مظفر حنفی نے شاد عارفی کی زندگی پر  بہت مختصر مگر جامع روشنی ڈالی ہے۔ ابتدائیہ کا  مطالعہ قارئین  کو شاد عارفی  کی سوانح حیات،ادبی سفر نامے،خاندانی وخانگی احوال سے واقفیت کراتا ہے۔اس  میں شاد عارفی کی شاعری کو کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے،مثلاًان کی غزلوں کے بارے میں صاحب کتاب کی رائے یہ ہے کہ شاد عارفی کی عشقیہ غزلوں میں پہلی بار ہندوستانی گھریلو محبت اور متوسط طبقے کی جیتی جاگتی تصویریں نظر آتی ہیں جو یقیناً ان کے معاصر ین کی غزلوں سے مختلف ہیں۔شاد اپنی غزلوں میں روداد عشق بیان کرتے وقت بغیر کسی الجھاو اور تہہ داری کے مطلب بیان کردیتے ہیں جو ان کے خالص تجربات کی مرہون منت ہیں یا اگر ہم یہ کہیں  کہ شاد کسی معاملے  میں نجی تجربات کو اپنی تخلیق کی  آماجگاہ بنا تےہیں تو  زیادہ بہتر ہوگا۔ابتدائیہ میں  شاد کی غزلوں کی دیگر خصوصیات کو کافی خوب صورتی کے ساتھ بیان کیا ہے  کہ شاد کی غزلیں ظرافت ،ہزلیہ،پھکڑپن اور سطحیت سے پاک وصاف ہے۔یہی وجہ ہے کہ شاد کی طنزیہ غزلیں اردو کےشعری ادب میں ممتاز ہیں ساتھ ہی منظریہ شاعری خواہ وہ نظم ہوں یا غزل دونوں میں شاد کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے ۔اس کے بعدمظفر حنفی نے شاد کی نظموں کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے  معاصرین میں شاد کی انفرادیت سے بحث کی ہے جو غور طلب پہلو ہے۔  ابتدائیہ کے ایک اہم حصہے میں شاد عارفی کی نثری خدمات   پر بھی گفتگو کی گئی ہے   جن سے مظفر حنفی کے تنقیدی شعور کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ فن کار کس طرح رائی کو سونا بنا کر پیش کرتے ہیں۔اردو ادب کی بد قسمتی کہیے کہ نقاد اگر کسی کی اچھا ئی بیان کرنے پر آجائے تو زمین وآسمان ایک کر دیتے ہیں،اس کی مختصر شکل اس ابتدائیہ میں دیکھ سکتے ہیں۔بشمول ایک ابتدائیہ یہ کتاب چار عناوین پر مشتمل  ہے۔(۱)سوانح و شخصیت۔شخصیت کا مطالعہ ہر دور میں انسان کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔شخصیت کا علم  فن کار کے فن کے ادراک میں بہت معاون ہوتا ہے۔اس کتاب کا حصہ اسی فہم و ادراک کی ایک اہم کڑی ہے جس میں مظفر حنفی نے شادعارفی کی ابتدا تا انتہا زندگی کو اس خوب صورتی کے ساتھ بیان کیا ہے کہ قاری کو اندازہ ہی نہیں ہوپاتا کہ ہم ایک سوانحی روداد پڑھ رہے ہیں یاایک سوانحی خاکہ ۔مظفر حنفی نے شاد عارفی کی زندگی کا ایک ایک حصہ ٹھیک اسی جگہ رکھا ہے جہاں اسے ہونا چاہیے۔مثلاً ریاست رام پور کے اس تعلیمی ادارے سے لیکر ازدواجی زندگی  اور پھر ملازمت کی ساری کہانیاں اس تسلسل کے ساتھ بیان کیا ہے کہ  ایسا محسوس ہورہا ہے کہ قاری کے سامنے وہ منظر ہے اور قاری اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا ہے۔سوانحی روداد کئی صفحات پر پھیلے ہوئی ہے  جن میں شادکی زندگی کے وہ تمام حصے موجود ہیں جن سے ان  کی زندگی کی تمام جزئیات پر روشنی پڑتی ہے۔ اس عنوان کا ایک اہم حصہ جسے’’ شخصیت ‘‘کا نام دیا گیا ہےاس  میں  شاد عارفی کا اعتراف ’’میں انتہا پسند واقع ہوا ہوں‘‘سے استفادہ کرتے ہوئے مصنف نے  ان کی شخصیت کے مختلف اور چنندہ پہلوؤں کو ارباب حل وعقد کے نظریات کی روشنی میں نہایت فنکارانہ بصیرت کےساتھ پیش کیا ہے جن سے شاد عارفی کی ادبی اور فنی حیثیت  سے قارئین واقف ہوتے ہیں۔شاد عارفی کی شخصیت کا یک اہم حصہ ان کی شکل وشباہت اور عادت واطوار ہے جو بہت ہی دل چسپ ہے۔جناب والا پوشاک زیب تن  کرنے میں لا ابالی پن کے شکار تو  تھے ہی دوست اور احباب کو الفاظ مغلظہ  سے بھی بہت نوازتے تھے۔اس عنوان کے اخیر حصے میں  مظفر حنفی نے شاگردان شادعارفی کا ذکر کیا ہے۔(۲)ادبی وتخلیقی سفر۔اس عنوان کے تحت مظفر حنفی نے تاریخی تسلسل کے ساتھ تصنیفات کے مشمولات کا جائزہ  پیش کیا ہے۔واضح ہو کہ شاد عارفی نے پہلا شعر آٹھ سال کی عمرمیں کہا تھا۔ ان کا پہلاشعر یہ ہے۔

؎ ہوچکا ہے خیر سے ہشیار تو

اپنے دشمن پر اٹھا تلوار تو

شاد کی آخری غزل کا مطلع یہ ہے

؎ فن پر قدرت رکھنے والا جب محو شعریت ہوگا

جو رجحان تاثر دے گا،مطلع اس کی بابت ہوگا۔

اس عنوان کے تحت مظفر حنفی نے شادعارفی کی شعری اور نثری تخلیقات پر کما حقہ روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے اور وہ اس میں کامیاب بھی ہیں کیوں کہ شاد عارفی کی تخلیقات کا کوئی گوشہ  قاری کے لیے تشنہ نہیں ہے۔شاد عارفی کی غزلیات  کے اشعار پر اپنی رائے کے ساتھ چند نامور شخصیات کی تحریریں بھی موجود ہیں  جن سے شاد کی غزلوں کی انفرادیت واضح ہوتی ہے۔ادبی اور تخلیقی سفر کے زیر عنوان مصنف نے  شاد عارفی کی عشقیہ اور طنزیہ  غزلیں ،نظمیں ،منظریہ اور عشقیہ نظمیں ،طنزیہ نظمیں،متفرق شعری تخلیقا ت ،رباعیات ،قطعات ،نعت،منقبت،سلام اور ہندی شاعری  وغیرہ پر سیرحاصل گفتگو کی ہے ساتھ ہی ان تما م تخلیقات کےشعری نمونے اور ان کا علمی تجزیہ بھی پیش کیا ہے جو  شاد عارفی کے فن کے لیے اردوشعروادب میں علم  احتجاج ہے۔شاد کی نثری نگارشات بھی اس عنوان کا یک اہم حصہ ہے جس میں شاد کی تخلیق،تنقید،مکتوبات وغیرہ کاتفصیلی ذکر ہے۔اور اخیر میں شاد عارفی کی نگارشات  کی ایک طویل فہرست بھی ہے جو اردو کے طلبا کے لیے قیمتی تحفہ ہے۔(۳)تنقیدی محاکمہ۔اس عنوان کے تحت مظفر حنفی نےشاد عارفی کی مذکورہ تمام شعری ونثر ی تخلیقات وتنقیدات پر تفصیلی تنقیدی محاکمہ پیش کیا ہے۔اس تنقیدی محاکمے سے شاد کی غزلوں اور نظموں میں استعمال لفظیات ،تکنیک اور زبان وبیان کابخوبی  علم ہوتا ہے ۔جو یقیناً ایک عظیم فن کار ہی کر سکتا ہے۔یہ تنقیدی محاکمہ شاد عارفی کے فکرو فن کی تفہیم کے لیے بہت اہم دریچہ کھولتا ہے۔(۴)انتخاب کلام ۔کتاب کے اخیر میں شاد عارفی کے کلام کا انتخاب شامل کیا گیاہے ۔اس انتخاب میں نظمیں،غزلیں ،رباعیات اور قطعات شامل میں۔اس کتاب میں  اکثر وہ نظمیں شامل ہیں جن میں ہندوستانیت کا رنگ غالب ہے۔لہذا اردو ادب کے ایک  عظیم شاعر کی تخلیقات وتنقیدات کو اس خوب صورت زبان وبیان کے ساتھ شائع کرنے پر پروفیسر مظفر حنفی مبارک باد کے مستحق ہیں۔

مبصر:محمدرکن الدین

ریسرچ اسکالر،جواہر لعل نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی

ruknu786@gmail.com

9891765225

About admin

Check Also

یوروپی ممالک کی جامعات میں اردو کی تدریس

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین یوروپی ممالک کی جامعات میں اردو کی تدریس یوروپی ممالک میں اردو …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *