Home / Socio-political / شاہی فرمان!

شاہی فرمان!

شا ہی فرمان!

سمیع  اللہ ملک

malik@lisauk.com

 

شاہی فرمان جاری ہو چکا تھا۔ لب بند، قلم بند، زباں بند….مہیب سناٹا، خاموشی، اضطراب اور بے کلی۔ پوری رات یوں ہی گزر گئی۔ پھر سناٹے، خاموشی اور اضطراب کو توڑتی ہوئی ایک آواز بلند ہوئی۔ رب کی برتری، عظمت اورجلال کی آواز……..

خانہ خدا کے بلند میناروں سے گونجتی ہوئی،جسے کوئی نہیں روک سکتا….ہاں کوئی بھی نہیں۔رب ذوالجلال کی کبریائی بیان کرتی ہوئی آواز، زمینی خداﺅں کے منہ پر خاک مل دینے والی آواز، خود ساختہ دیوتاﺅں کو لرزا دینے والی آواز، انسانیت کے لیے نوید ِ مسرت…. حوصلہ اور امید کا نقارہ ،نقارہ خداوندی…. سربلند و باوقار جلال اور جمال….سربلند باد دوستانِ دیں کی نوید۔ہم بھی عجیب ہیں۔ وہ پکارتا ہے:آﺅ تم فلاح چاہتے ہو ناں۔تو آﺅ۔ اور ہم کیا کرتے ہیں! زمینی خداﺅں کے آگے بھکاری بن کر کھڑے رہتے ہیں اور دھتکار دیے جاتے ہیں، دھتکارے ہوئے لوگ….اور جب ہر طرف سے، ہر در سے محروم ونامراد لوٹتے ہیں، تب وہ ہمیں یاد آتا ہے۔ہاں وہ پھر بھی ہمیں گلے لگاتاہے۔ پیغامِ مسرت سناتا ہے،اصل کی طرف بلاتا ہے۔بس وہی ہے اور ہے کون؟ ہم گداگر اور بھکاری بن گئے ہیں۔ہم فقیر کہاں ہیں!فقر کی تو شان ہی نرالی ہے۔ وہ مختار جاذب، میرا جواں مرگ دوست یاد آیا۔اس نے کہا تھا:ہم کہاں ایک ہی بابِ طلب تک رہتے ہیں!بے شمار ولاتعداد دروں کے محتاج ہوگئے ہیںاور وہ پھر بھی ہماری بے وفائی، ہماری غلطیوں، ہماری سیہ کاریوں، ہماری بداعمالیوں، منافقتوں اور ہمارے کھوٹ کو نظر انداز کردیتا ہے۔ آﺅ فلاح کی طرف….بس یہی درِ خالص ہے، باقی سب جھوٹ ہے، مکر ہے، فریب ہے۔مکرو فریب کی سہانی دنیا….بے چینی کا سرچشمہ۔

رات بھر آنکھوں میں کاٹنے کے بعد علی الصبح جب بہت بے کلی بڑھی تب بابا جی اقبال یاد آنے لگے:

صدر نالہ شب گیرے، صد صبح بلا خیزے

صد آہ شرر ریزے، یک شعر دل آویزے

در عشق و ہوس ناکی، دانی کی تفاوت چیست؟

آں تیشہ فرہادے، ایں حیلہ پرویزے

واصف صاحب مسکراتے ہوئے گویا ہوئے ”ہم سب فرعون کی زندگی اور موسیٰ کی عاقبت چاہتے ہیں۔ ایسا تو نہیں ہوسکتا“۔

اور پھر تو تانتا بندھ گیا۔ یہ جو زمینی خدا بن بیٹھے ہیں،اور وہ جو گزر گئے،اب تماش بینوں کے لیے سامانِ عبرت بنے ہوئے ہیں۔اس سے بھی سبق حاصل نہیںکرتے۔اندھے، بہرے، خود فریبی کا شکارفرعونِ زمانہ….یہ سمجھتے ہیںہم ہیں پالن ہار۔بس ہم۔

عجیب سی بات ہے۔یہ لبرل، سیکولر اور روشن خیالی کے دعویدار ….اور وہ بھی اصل نہیں بالکل جعلی۔ اصل تو ہر بات اچھی لگتی ہے ناں۔ٹھیک ہے اختلاف اپنی جگہ، اصل توہوناں۔ سراسر جعل سازی کے ماہر۔ منافقت کے مجسم شاہکار خود فریب۔فرمانِ شاہی ہے کہ صدرِ مملکت، افواج پاکستان، عدلیہ اور ریاست کے قانون ساز اداروں کے اراکین کے بارے میں ایسا کوئی مواد یا گراف وغیرہ شائع نہیں کیا جائے گا جس سے ان کی تضحیک ہوتی ہو یا ان کا مذاق اڑایا گیا ہو“سرکاری وکیل ججوں کی تضحیک کررہا ہے کہ ججز تو پہلے سے ایک ذہن بناکر آتے ہیں جس پر جج کو تنبیہ کرنا پڑتی ہے کہ زبان کو لگام دو۔یہ کوئی نئی بات نہیں اس سے پہلے ایک فاسق کمانڈو کے مقرکردہ اٹارنی جنرل جسٹس(ر)ملک قیوم بھی ایسی ہی ہرزہ سرائی کرچکے ہیں ”پی سی او“کے تحت حلف نہ اٹھانے والے جج ہیرو نہ بنیں جسٹس افتخار کو عزت ہضم نہیں ہوئی۔“اب کہاں ہیں (سابقہ)جناب اٹارنی جنرل؟سنا ہے کہ ملک ہی چھوڑ چکے ہیں؟اب شائد بابر اعوان اسی ڈگر پر چل نکلے ہیں۔ذرا باہر دیکھئے۔ جسے میرا رب عزت دے اُسے کون بے عزت کرسکتا ہے ! ذرا دیکھیے تو خلقِ خداکیاکہتی ہے۔وہ خلقِ خداجسے زمینی خداﺅں نے حکم سنایا ہے،بنیادی انسانی حقوق معطل کردئیے گئے ہیں۔خبردار کوئی نہیں بولے گا۔جناب من! ہوش میں آئیے، یہ حقوق میرے رب نے دئیے ہیں۔رب کائنات نے۔آپ کون ہوتے ہیں انہیں سلب کر نے والے!میرے مالکِ حقیقی کے عطا کردہ حقوق کیسے سلب کیے جاسکتے ہیں! ہاں خود فریبی کا کیا علاج۔فرمانِ شاہی میں یہ بھی کہا گیا ہے:”اخلاقیات کے عام اصولوں کے منافی ایسا کوئی بھی مواد شائع نہیں ہوگا جس سے فحاشی اور بے ہودگی کو فروغ ملے۔“اس شق پر کتنا عمل درآمد ہورہا ہے دیکھ رہے ہیں ناں آپ۔یہ سمجھتے ہیں نظامِ کائنات یہ خود فریب چلا رہے ہیں۔عقل و فکر کے اندھے، انسانیت کے نام پر دھبا۔اس سے پہلے بھی جسٹس رمدے کو جمعہ کی نماز سے روک دیا گیا تھا اور جسٹس بھگوان داس کو دیوالی پر….کیا بات تھی ان روشن خیالوں کی‘انہی کی ڈگر پر آپ بھی سرپٹ دوڑے جا رہے ہیں!اب نیب نے عدالتِ عالیہ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری اوران کے تمام ساتھیوں کو اپنے آقا کے حکم پر تحریری طور پر مطلع کیا ہے کہ تمام ججز کی تعیناتی ہی غیر قانونی ہے ۔ ایک شخص کو بچانے کےلئے ملک کا سارا نظام تباہ کرنے پر تل گئے ہیں۔

ہوش میں آﺅ۔تمہارے فرمان تمہیں نہیں بچا سکتے۔ کبھی نہیں! سر بلند رہے گا سدا میرے رب کا فرمان۔ ہاں اصل فرمان ‘تمہیں شوق چڑآیا ہے تو پوری کرلو اپنی حسرت…. جانا تو ہم سب کو ایک ہی جگہ ہے۔پھر تم اپنی کرنی کر گزرو۔جو ہوگا دیکھا جائے گا۔جو چاہے کرو‘بس یاد رکھناتم خالق و مالک نہیں ہو۔بن ہی نہیں سکتے۔کبھی نہیں۔شہرِ علم کے باب جناب علیؓ نے فرمایا:

”لوگوں پر ایک زمانہ آنے والا ہے جب صدقہ کو خسارہ، رحم کرنے کو احسان اور عبادت کو ایک دوسرے پر برتری اور سبقت کا ذریعہ قرار دیا جائے گا۔ایسے وقت میں حکومت عورتوں کے مشورے، بچوں کے اقتدار اور خواجہ سراﺅں کی تدبیر کے سہارے رہ جائے گی“۔بس نام رہے گا اللہ کا۔

آتش نمرود ہے‘ ہر سمت ہے اک کربلا    زندگی ا و زندگی کتنی تو مشکل ہو گئی

ہر طرف ہے خاک و خوں‘ہر سمت ہے د یو انگی     زےست لمحہ لمحہ اک زہر ہلا ہل ہو گئی

پھول جےسے چہرے نفرت کی چتا مےں جل گئے    بربریت اےسی جےسے د نےا پاگل ہو گئی

ےہ درندے ہےں جنہےں چھوڑا گےا انساں پر    آدمی ےا بھےڑئےے پہچان مشکل ہو گئی

سربراہان زمانہ بے حس و بے خو د ر ہے     زیست پھر صیاد کے ہاتھوں سے بسمل ہو گئی

قوم جو کسریٰ و قےصر پر کبھی فا تح ہو ئی   آج وہ اغےار سے نصرت کی سا ئل ہو گئی

کب تری ر حمت کو جوش آئے گارب مصطفی؟   آج پھر آل محمد غم سے گھائل ہو گئی

نوٹ:کالم ”فیصلہ کرنا ہوگا“میں عالمِ بالا کی سیر کرنے والے ایک فلسفی ”دانتے“کا میں نے تذکرہ کیا تو میرے ایک محترم قاری برادرمحمدعمرچاند نے اس فلسفی کی ایسی تصویر دکھائی جو پہلے میری نظروں سے بالکل اوجھل تھی اوروہ اس لائق نہیں کہ اس پر کچھ لکھا جائے۔اللہ کا شکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسے قارئین عطا فرمائے جو بروقت اصلاح کردیتے ہیں۔اللہ جزائے خیر عطا فرمائے آمین

بروز ہفتہ ۸۲رجب ۱۳۴۱ھ۱۰جولائی ۲۰۰۹

لندن

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *