Home / Socio-political / شبِ آوارہ کو پابندِ سحر کرنا ہے

شبِ آوارہ کو پابندِ سحر کرنا ہے

Samiullah Malik

جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے، جنگ تباہی لاتی ہے، بربادی لاتی ہے، آرزوں اور خوابوں کو قتل کرتی ہے، زمین کی کوکھ اجاڑتی ہے قبرستان آباد کرتی اور جینے کو مار دیتی ہے۔ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ یہ کسی کو بھی نہیں دیکھتی۔ ہر سانس میں زہر بن کر اترتی اور اسے مٹی میں ملا دیتی ہے۔ کھیت کھلیانوں کو جلا کر بھسم کردیتی اور شہروں کو برباد کرتی ہے۔ بارود بے حس ہوتا ہے، بے شعور ہوتا ہے، وہ کسی کی بھی پروا نہیں کرتا ،اس کا کام تباہی پھیلانا ہے۔ وہ موت بانٹتا ہے۔ آگ تو پھر آگ ہی ہے۔ جلا دینا اس کا کام ٹھہرا۔ جنگ نسلوں کو برباد کرتی، بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ کرتی ہے۔ جی جناب!جہاں بم گریں وہاں زمین سبزہ و گل سے محروم ہوجاتی ہے،جنگ قحبہ گری اور افلاس لاتی ہے۔ انسان کو شرف ِانسانیت سے محروم کرتی ہے۔ جنگ خونخواروں کی آرزو ہے۔ جنگ بے حسوں کا خواب ہے۔ جنگ مردم بیزار لوگوں کا جنون ہے۔ جنگ خوابوں کا مقتل ہے۔ جنگ کبھی کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ وہ بھوک و افلاس، معذوری اور دکھ لاتی ہے، خوشیوں سے محروم کرتی اور امیدوں کو دفن کرتی ہے۔ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔

ہم سب کو پرامن رہنا چاہیے۔ امن خوشیوں کی نوید ہے، امن نغمہٴ مسرت ہے، امن مژدہٴ جاں فزا ہے، امن خواب ہے اور امن تعبیر بھی.․․․․․․․․․․آرزوں اور امنگوں کا موسمِ بہار ہے امن۔ امن ہی شرف ِانسانیت ہے، امن راحت ِجاں ہے، امن چین کی بانسری ہے، لے ہے، شہنائی ہے امن.․․․․․․․․․․پرسکون نیند ہے امن۔ امن ہی انسانیت کی ضرورت ہے۔ امن ضروری ہے، ازبس ضروری․․․․․․․․․․سانس کی طرح، جس سے تارِ زندگی بندھا ہوتا ہے۔ امن ہی گیت ہے اور امن ہی سنگیت․․․․․․․․․․بس امن۔ لیکن میرے یہ خوبصورت الفاظ، میرے خوبصورت خواب،شاعروں کے نغمے، ان کے لکھے ہوئے گیت، لکھاریوں کے افسانے، ہم سب کی آرزوئیں اور امنگیں، شعراء کی غزلیں اور نظمیں جنگ کو روک سکتی ہیں؟ اور اگر نہیں تو پھر مجھے یہ سب کچھ کرنا چاہیے؟ مجھے آپ سے یہ پوچھنا ہے۔ جب میں ظالم کو ظالم کہوں گا تو کیا جنگ نہیں ہوگی؟ اور اگر میں جنگ کے خوف سے ظالم کو ظالم کہنا چھوڑ دوں تو پھر سماج کیسا ہوگا؟ کیا زندگی صرف سانس کی آمدورفت کا نام ہے؟ ایسے میں پھر ہم کیا کریں؟

 اور اگر باہر سے امن اور میرے اندر جنگ شروع ہوجائے تب مجھے کیا کرنا چاہئے؟ ابھی پچھلے دنوں برطانیہ میں اسلحہ کی نمائش دیکھی تھی جس کا عنوان تھا اسلحہ برائے امن۔ کیا اسلحہ امن کے لیے ضروری ہے؟ سوالات کا ایک انبار ہے، اور جواب بھی شاید ہوں.․․․․․․․․․․لیکن وہ جوابات ان سوالات کو آسودہ کرسکتے ہیں؟ پوری دنیا پر زرپرست امن دشمنوں کا راج ہے جو صرف اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔ انسان طاقت ور کیوں ہونا چاہتا ہے؟ واصف علی واصف نے لکھا ہے:طاقت ایک مبہم لفظ ہے۔ اس کے معنی صرف استعداد یا قدرت ہی کے نہیں․․․․․․․․․․اس کا مفہوم خوف پیدا کرنا بھی ہے۔ اگر خوف زدہ انسان بے خوف ہوجائے تو طاقت کمزور ہونا شروع ہوجاتی ہے، طاقت دراصل خوف کی حدود میں بادشاہی کرتی ہے، لاخوف کے مدار میں طاقت کا گزر ممکن نہیں۔ طاقت جسے خوف زدہ کرنا چاہتی ہے دراصل خود اس سے خائف ہوتی ہے۔ طاقت انسان کو اپنے قد، اپنی حد سے باہر نکل کر دوسروں کو پست قامتی پر مجبور کرتی ہے۔ لوگ اپنی دولت، اپنا وقت، اپنی عمر اور اپنی عاقبت خراب کرکے بھی دوسروں کو خوف زدہ کرنے سے باز نہیں رہتے۔ اگر خوف پیدا کرنے کے عمل کو ترک کردیا جائے تو یہ دنیا جنت بن سکتی ہے۔

اپنے اسلحے کی فروخت کے لیے پوری دنیا جنگی جنون میں مبتلا کردی گئی ہے۔ نظامِ زر طاقت کے ذریعے انسانیت کو زیر کرنا چاہتا ہے۔کشمیر، افغانستان عراق، فلسطین، بوسنیا، نجانے کہاں کہاں طاقت کے اندھے اپنی لاٹھی گھما رہے ہیں۔ جب طاقت ور جمع ہوجائیں تو مظلوموں کو کیا کرنا چاہیے؟ کیا امن کا گیت گانے اور امن کی فاختائیں اڑانے سے طاقت ور اپنی درندگی سے باز آجاتے ہیں؟ مظلوموں کو خاموشی سے طاقت کے سامنے سرجھکا دینا چاہیے؟ کیا موم بتیاں لے کر امن کا گیت گانے سے امن ہوجاتا ہے؟ بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب اہلِ دانش و بینش ہی دے سکتے ہیں ،میں تو نہیں۔ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ جنگ تباہی لاتی ہے، بربادی لاتی ہے، آرزوں اور خوابوں کو قتل کرتی ہے لیکن میرے یہ خوبصورت الفاظ، میرے خوبصورت خواب،شاعروں کے نغمے، ان کے لکھے ہوئے گیت، لکھاریوں کے افسانے، ہم سب کی آرزوئیں اور امنگیں، شعراء کی غزلیں اور نظمیں جنگ کو روک سکتی ہیں؟

 امریکامیں پاکستانی سفیرشیری رحمان کی ارسال کردہ رپورٹ پرغورکرنے کیلئے ۲مئی بدھ کی شام پاک امریکاتعلقات کی بحالی کیلئے ایوان صدرمیں صلاح ومشورے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرسرجوڑکربیٹھے لیکن کیاکریں نمک کی کان میں جاکرسب نمک ہی توبن جاتے ہیں۔ شیری رحمان جومسلسل پاکستانی قیادت کے سامنے دہائی دے رہی ہیں کہ امریکی حکومت اس وقت خاصے اشتعال میں ہے کہ ایران کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کی بجائے ”وزارتِ خارجہ کاپاکستان ایوان ہائے صنعت وتجارت کویہ خط بھی کہ پاکستان امریکی پابندیوں پرعملدرآمدکاپابندنہیں اورمزیدبرآں نیٹوسپلائی کی بحالی کیلئے پاکستان معافی کے بغیربات چیت نہیں کرناچاہتا“بھڑکتی آگ پرتیل ڈالنے کے مترادف ہے خصوصاً گراس مین کودوٹوک جواب سے امریکی سخت غصے میں ہیں اورامریکی حلقوں میں کہاجارہاہے کہ پاکستان امریکی مسائل کاادراک کئے بغیردانستہ طورپرسپلائی میں رکاوٹ ڈال رہاہے۔یہ صورتحال جاری رہی اوران گرمیوں میں سپلائی بحال نہ ہوسکی توامریکاکوافغانستان سے نکلنے میں انتہائی مشکلات کاسامناکرناپڑے گا ۔موصوفہ یہ کہہ کرقیادت کواورخوفزدہ کررہی ہیں کہ پاکستان کوامریکاکی ناراضگی سے بچنے کیلے فوری کوئی راستہ نکالناہوگاوگرنہ امریکی کانگرس پاکستان پرپابندیاں لگاسکتے ہیں۔

یہ بھی سننے میں آ یاہے ایک رکن مجلس نے یہ مشورہ دیاکہ امریکااگرواضح اوردوٹوک معافی پرآمادہ نہیں ہوتاتوبجٹ سے قبل امدادکی خاطرکوئی مبہم اور”وِن وِن پوزیشن“والی معافی قبول کرلی جائے ۔جونہی گول مول معافی کی تجویزسامنے آئی توعسکری قیادت نے فوری طورپریہ کہہ کرمستردکردیاکہ اس سے نہ صرف قوم میں بے اطمینانی بلکہ اسے شکست تسلیم کرے گی اورفوج کے مورال پربھی شدیدمنفی اثرپڑے گا،معافی اورڈرون حملوں کی بندش کے معاملے پرکورکمانڈرزپہلے ہی اپنی رائے دے چکے ہیں کہ معافی سے کم پرکوئی سمجھوتانہیں ہوگالہنداامدااورپابندیوں سے ماوارہوکرقومی حکمت عملی اختیارکرنی چاہئے۔لہندااگرقصر سفید کافرعون معافی نہیں مانگتاتوپاکستان کواب اس معاملے پرمزیدبات چیت کرنے سے گریزکرناچاہئے اورجمہوری حکومت کایہ فرض ہے کہ آپ پارلیمنٹ کوسپریم ادارہ سمجھتے ہیں اس لئے جب تک امریکی پاکستانی پارلیمنٹ کی سفارشات کے پیرامیٹرمیں رہ کربات نہیں کرتے کسی بھی امریکی شخصیت کوپاکستان میں خوش آمدیدنہ کہاجائے۔عسکری قیادت نے امریکی صدراوبامہ کی طرف سے نیٹوسربراہی کانفرنس میں شمولیت کے خصوصی دعوت نامے کوبھی مستردکرنے کامشورہ دیاجبکہ ایوانِ صدرکی رائے اس سے مختلف ہے۔

عسکری قیادت کی طرف سے تمام مغربی سفیروں کی موجودگی میں۳۰ اپریل کوسلالہ حملے کی ویڈیودکھاکرامریکااورمغربی قوتوں کویہ واضح پیغام دے دیاگیاتھاکہ پاکستان سلالہ حملے کوکبھی نہیں بھول سکتا۔اب دیکھیںآ ئندہ دنوں میں کیاہوتاہے؟

کمزور بھی نہیں رہیں گے اور طاقت ور بھی۔ کچھ بھی تو نہیں رہے گا بس نام رہے گا میرے رب کا۔

 شبِ آوارہ کو پابندِ سحر کرنا ہے جی میں ٹھانی ہے کہ اک خواب کو سر کرنا ہے

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *