سمیع اللہ ملک
صدائے کشمیر سمیع اللہ ملکامریکامیں حال ہی میں جنوبی ایشیامیں انسداددہشتگردی کی جدوجہدکے متعلق دواہم تحقیقی جائزوں میں اس بات پرزوردیاگیاہے کہ اس خطہء ارضی میں تشدداوردہشت گردی ختم کرنے کیلئے تنازع کشمیرکاحل بہت ضروری ہے اورجب تک یہ تنازعہ ختم نہیں ہوتابالخصوص جنوبی ایشیااوربالعموم ساری دنیاکاامن تباہ وبربادہوسکتاہے۔اس لئے اب یہ نہائت ضروری ہے کہ کسی اورممکنہ جنگ کے خطرے سے بچنے کیلئے تنازع کشمیرکے منصفانہ حل کی طرف فوری توجہ دی جائے اوریہ تنازعہ بہرحال کشمیری عوام کوان کے بنیادی پیدائشی حقوق فراہم کرنے ہی سے حل ہوگا۔تنازع کے حل میں تاخیرروارکھنے سے اس خطے کی صورتحال اب مزیدپیچیدہ اورگھمبیرہوجائے گی اوردنیاکسی بڑے تصادم کی طرف بڑھ سکتی ہے۔ تشددکوتشددجنم دیتاہے اوراس کاخطرناک تجربہ عراق اورافغانستان کی صورت میں دنیابھگت رہی ہے حالانکہ یہ دونوں ممالک جہاں مغربی جارحیت کاارتکاب ہواہے،ایٹمی صلاحیتوں سے محروم ہیں جبکہ تنازع کشمیرکے دونوں فریق ایٹمی صلاحیتوں کے حامل ہیں۔امریکاکے ایک کنزرویٹوتھنک ٹینک ہیریٹیج فاوٴنڈیشن(Heritage Foundation) کاکہناہے:”امریکاکوجنوبی ایشیاکے دواہم ترین ممالک بھارت اورپاکستان کو (تنازعہ کشمیرحل کرنے کیلئے)مذاکرات کاعمل موٴثراندازمیں آگے بڑھانے کی تحریک وترغیب کیلئے ہرممکن اقدام کرنے چاہئیں کیونکہ اس خطے کاامن عالمی امن سے وابستہ ہے اس لئے امریکاپرلازم ہے کہ وہ مجوزہ مذاکرات پرفریقین کوآمادہ کرنے میں اپنااثرورسوخ استعمال کرے اوراس کیلئے ایک لمحے کی تاخیرروانہ رکھی جائے اورنہ ہی کسی لیت ولعل سے کام لیا جائے ۔بھارت اورپاکستان پرزوردیاجائے کہ خطے میں قیامِ امن کی بنیادی لازمی ضرورت (تنازع کشمیرکے حل کی تکمیل )کیلئے مذاکرات اورصرف مذاکرات کی راہ اختیار کریں ۔امریکاکواس حوالے سے دونوں فریقین کواپنی جانب سے اس قسم کے خیالات وافکاراورتجاویزبھی پیش کردیناچاہئیں جومذاکرات کی کامیابی پرمنتج ہوں۔پاک بھارت مذاکرات(بالخصوص تنازعہ کشمیرپر)کوآگے بڑھانااورثمرآورثابت کرنااورپاکستان کے بہترمستقبل،خوش آئنداورمفیدمطلب امکانات کیلئے ضروری ہے اس کیلئے امریکاکواپنی ضرورت سمجھتے ہوئے اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان میں کشمیریوں کوان کے پیدائشی حقوق دلانے کی عملی جدوجہدمیں مصروف عناصرزیادہ قوت پکڑرہے ہیں۔انہیں مخالفانہ پروپیگنڈہ کرنے والی قوتیں عسکریت پسنداورکبھی کبھاراس سے بڑھ کر”دہشتگرد“کانام دے رہی ہیں۔یہ انتہائی رحجانات بلاوجہ نہیں اورپاکستان میں ان کی قوت میں روز بروز اضافہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے مگراصل توجہ طلب حقیقت یہ ہے کہ آپ اسے انتہاپسندی،دہشتگردی یاعسکریت پسندی میں سے کوئی بھی نام دے لیں اس کی اصل وجہ تنازع کشمیرہی ہے اوریہ حقیقت پوری دنیاتسلیم کرتی ہے۔ ہیریٹیج فاوٴنڈیشن کی تازہ ترین تحقیقی رپورٹ کے مطابق تنازع کشمیرکے حل کیلئے بھارت اورپاکستان پرزیادہ سے زیادہ امریکی دباوٴ وقت کی ضرورت ہے۔پاکستان افغانستان میں بھی قیامِ امن کیلئے بنیادی کرداراداکرسکتاہے اورکشمیرمیں بھی۔امریکاکے ایک اوربہت ہی مشہورتھنک ٹینک”دی نیوامریکافاوٴنڈیشن“(The New America Foundation)نے بھی ہیریٹیج فاوٴنڈیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کی تائیدکرتے ہوئے کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی پراظہارتاسف کرتے ہوئے تنازع کشمیر کے پرامن حل کی ہرمثبت کوشش بلاتاخیرروبہ عمل لانے پرزوردیاہے ۔ دی نیو امریکافاوٴنڈیشن کی ایک سٹڈی رپورٹ میں کہاہے کہ:” ہم پاکستان اوربھارت تنازع کشمیرکے حل کیلئے مذاکرات کی اصولی تائیدوحمائت کرتے ہیں اورحصول مقصد کی طرف کسی نہ کسی حدتک گامزن بھی ہیں ۔انہیں امریکاکے دباوٴ پربھی چنداں اعتراض نہیں ہے،ہاں جہاں تک بھارت کے اس موٴقف کاتعلق ہے کہ کوئی تیسراملک تنازعہ کشمیرکے ثالث کی حیثیت سے مداخلت نہ کرے اس کابھی احترام کیاجاناچاہئے۔“اس کیلئے امریکی حکمرانوں کیلئے تجزیہ کاروں اوردانشوروں نے یہ تجویزپیش کی ہے کہ وہ مذاکرات پربراہِ راست اثراندازہونے یااس حوالے سے کسی بھی قسم کادباوٴ ڈالنے کاتاثرقائم کرنے سے گریزکرے اوراپنی تماترجدوجہددونوں ملکوں میں اعتمادسازی کی فضاپیداکرنے کیلئے وقف کردے جومذاکرات کی کامیابی کی اصل ضمانت ہی ہے۔امریکایہ نہ بھولے کہ تنازع کشمیرکے حل کے بغیرخطے کاامن ممکن نہیں اوریہ تنازع محض بات چیت ہی کے ذریعے حل کیاجاسکتاہے۔کشمیریوں نے اپنے جائزحق کیلئے اپنابہت خون بہایاہے، آخرظلم و ستم کی کوئی انتہاء تونظرآنی چاہئے!دی نیوامریکافاوٴنڈیشن کے بارے میں مشہورہے کہ یہ ادارہ اعتدال اورمیانہ روی کوبنیادی اہمیت دیتاہے۔فاوٴنڈیشن کی زیرنظرسٹڈی رپورٹ میں قراردیاگیاہے کہ:”کشمیرکے بارے میں جوبھی ایکشن لیاجائے وہ کشمیریوں ہی کیلئے ہوناچاہئے۔کشمیرمیں عوام اورفورسزمیں آئے روزتصادم ختم کرنے کی فوری اورموٴثرسبیل ہونی چاہئے۔نہتے کشمیریوں کو تشدد ، دہشت اوروحشت کی لعنتوں سے اب تونجات مل ہی جاناچاہئے“۔اس رپورٹ میں مزیدیہ کہاگیاکہ:”ہم محولہ بالاحقائق کی روشنی میں اوربحال شدہ پاک بھارت مذاکرات کی حمائت کرتے ہوئے کشمیریوں کے حقوق کی پامالی کاسلسلہ روکنے کی ہرممکن موٴثرسعی کی پرزورحمائت کرتے ہیں۔اس حوالے سے اقوام متحدہ پرزوردیتے ہیں کہ وہ اپنے فیصلوں اور قراردادوں پرعملدرآمدکروائے۔اس کاوقاراسی صورت میں قائم رہ سکتاہے کہ جوقرادادیں منظورکی گئی تھیں ان پرعملدرآمدبھی کروایاجائے۔درپیش حالات میں
اقوام متحدہ کے فیصلوں پرعملدرآمد کیلئے پاکستان اوربھارت کے مابین مذاکرات کامیاب کروانا ضروری ہے اورمذاکرات کی کامیابی کیلئے اعتمادسازی کوناگزیراہمیت حاصل ہے۔علاقے میں اعتماد سازی کی فضاء قائم کرنے ہی سے تنازع حل کرنے کی راہ ہموارہوسکتی ہے“۔ہیریٹیج فاوٴنڈیشن کی تازہ سٹدی رپورٹ میں امریکا سے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتربنانے پرزوردیاگیاہے۔اسی طرح دی نیوامریکافاوٴنڈیشن کی سٹڈی رپورٹ میں بھی خطے میں امن کے بنیادی تقاضے ملحوظ رکھنے پرزوردیتے ہوئے کہاگیاہے کہ امریکااورپاکستان کے مابین موجودہ کشیدگی اورناخوشگوارصورت حال میں بہتری لانے کی اشدضرورت ہے۔ پاکستان اورامریکاکوانسداددہشتگردی کے اشتراک عمل میں شفافیت لانے کی ضرورت ہے جس کیلئے اسٹریٹجی میں اصلاح اپنی جگہ اہم ہے مگرسب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکی منڈی میں پاکستانی مصنوعات کی کھپت بہتربنائی جائے۔جدال اورقتال میں تعاون کیلئے اسلحے اورروپے کی امداد(جسے اہل پاکستان امداد Aidکی بجائے ایک قبیح مرض Aidsایڈز کانام دے رہے ہیں)باہمی تجارت کے نئے امکانات پیداکئے جائیں۔اس کیلئے امریکاکافرض ہے کہ وہ پاکستان کی خودانحصاری اورخوشحالی کواولین ترجیح سمجھ کراہمیت دے۔امریکی تھنک ٹینک نے اقوام متحدہ کواپنی قراردادوں پرعملدرآمدکی جوتوجہ دلائی ہے وہ بے حدمعنی خیزہے۔قارئین کویادہوگاکہ محمدعلی جناح نے کشمیرکے نہتے مسلمانوں کی مددکیلئے پاکستانی فوج کشمیربھیجنے کاھکم دیالیکن جنرل گریسی نے جوکشمیردشمن سازش میں شریک تھا،یہ حکم ماننے سے انکارکردیا۔اس وقت کچھ کشمیری نوجوان اورہمارے قبائلی بھائی آگے بڑھے اورانہوں نے بھارتی افواج کانہ صرف راستہ روک لیابلکہ اس کاایک حصہ آزادبھی کروالیاجسے آج تک دنیا ”آزادکشمیر“کے نام سے جانتی ہے،اس پربھارت جنگ بندی کی دہائی دیتاہواعالمی ادارے کے درپرپہنچا۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنگ بندی کاڈول ڈالاتوجنگ بندی کی شرائط میں بھارت نے واضح طورپروعدہ کیاکہ وہ کشمیری عوام کوحق خودارادیت دے گا۔۱۹۴۸ء میں کشمیرپرپاکستان اوربھارت کے درمیان پہلی جنگ ہوئی ۔سلامتی کونسل نے جن شرائط پرجنگ بندی کروائی تھی وہ بالکل واضح تھیں۔جنگ بندی کے معاہدے میں طے پایاتھاکہ دونوں ممالک فوری طورپراپنی افواج کشمیرسے نکال لیں گے اوربھارتی حکومت کشمیریوں کواپنی آزادانہ مرضی سے الحاق کافیصلہ کرنے کاحق دے گا۔اقوام متحدہ کی امن فوج اوراس کے نمائندوں کی نگرانی میں خفیہ رائے شماری کے تحت استصواب ہوگا۔۱۹۴۸ء میں سلامتی کونسل نے پھریہی قرارداددہرائی۔اس کے بعدقریباً ہرسال ان قراردادوں پرعملدرآمدکی یقین دہانی کااعادہ ہوتارہامگربھارت کشمیرسے اپنی فوجیں نکالنے میں لیت ولعل سے کام لیتارہا۔امریکا،برطانیہ اوردیگرمغربی ممالک جنہوں نے ان قراردادوں کی اپنے دستخطوں سے توثیق کی تھی ،انہوں نے بھی بھارت کے اس رویے پرچشم پوشی کارویہ اپنایااوریہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔اب امریکی تھنک ٹینک مظلوم آوازکے اعادہ بلکہ اسے نئی تونائی بخشتے ہوئے میدان میں اترے ہیں اوریوں محسوس ہوتاہے کہ صدائے کشمیرنے اب علاقائی حدوں کوعبورکرتے ہوئے عالمی فضاوٴں میں گونجناشروع کردیا ہے۔ان دوتھنک ٹینک کی سٹڈی رپورٹس نے پچھلے ۶۴سالوں سے کشمیریوں کی آوازدبانے میں براہِ راست اوربالواسطہ سازشوں کابھانڈہ بیچ بازارمیں پھوڑدیاہے۔یہی کام امریکامیں قائم کشمیرامریکن کونسل کے ڈائریکٹرغلام نبی فائی کررہے تھے اوربرسوں سے ساری دنیاکو اس خطے کے سلگتے ہوئے تنازع کشمیر کی طرف توجہ مبذول کروارہے تھے اوران کی زبان سے نکلنے والے ایک ایک لفظ کومتعلقہ امریکی ادارے بخوبی جانتے تھے اورامریکاکے کئی حکومتی ارکان کی ان کوعملی تائیدبھی حاصل تھی لیکن کچھ عرصہ پہلے امریکانے خودامریکی قانون اورعالمی سطح پرتسلیم شدہ ہراصول کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ان کوگرفتارکرلیااوراب وہ ضمانت کے بعداپنے گھرمیں نظربندہیں۔امریکی طرزفکروعمل کی اس تازہ واردات پرپوری مہذب دنیامیں احتجاج کیاگیاجس کے عمل و رد عمل سے قطع نظردیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیاڈاکٹرفائی یاان جیسی اورمعصوم آوازیں دبانے کی انتہائی ناشائستہ کاوشیں کشمیریوں کی آوازِ حق کومتاثرکرسکتی ہیں؟اس سوال کاجواب یقینا نفی میں ہے اوراس کابین ثبو ت خودامریکامیں اٹھنے والی یہ تازہ ترین صدائے کشمیرہے جن کوامریکاکے عالمی شہرت یافتہ تھنک ٹینکس نے اجاگرکیاہے۔اب دیکھتے ہیں کہ امریکی حکمرانوں پراپنے اہل ودانش کی تجاویزکاکیااورکس حدتک اثرہوتاہے۔ بروزمنگل۲۲شوال المعظم ۱۴۳۲ھ۲۰ستمبر ۲۰۱۱ء لندن
بلا شُبہ جموں کشمير کا مسئلہ جموں کشمير کے عوام کی مرضی کے مطابق حل ہونا چاہيئے