ضرب تقسیم کی سیاست
الطاف حسین ہی نہیں اس سے پہلے جی ایم سید بھی لسانیت اور قومیت کی عصبتوں کا پرچار کرتے رہے۔ جس سیاستدان کو قومی سطح پر پذیرائی حاصل نہیں ہوئی اس نے لسانیت قومیت اور گروہی عصبیتوں کا سہارا لے کر اپنا شملہ اونچا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں سندھی بلوچی پنجابی یا پٹھان کی کوئی بھی تشریق نہیں ۔غفار خان قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں لسانیت کے علمبردار کے طور پر تاریخ میں اہم ترین کردار ہیں۔ انہوں نے پختون لسانیت کی بنیاد رکھ کر متحدہ قوم کو عصبیت کا نصاب عصر حاضر میں متعارف کرانے میں موجد کا کردار ادا کیا۔ ان کی جماعت آج تک ان کے نظریات کو دہرانے اور ان پر عمل درآمد کرانے میں خفیہ اور سامنے عمل پیرا ہے ۔سندھ سے جی ایم سید نے سب سے پہلے لسانی عصبیت کا سہارا لیا اور ان کا ساتھ کھوڑو خاندان نے دیا۔ لسانی عصبیت کو پھر طاقتور آواز مہاجر کے نام سے ملی ۔ ممتاز بھٹو بھی لسانیت اور گروہی عصبیت کے پرچار میں مصروف کا ر رہے۔بلوچستان میں صوبائی عصبیت کے نام پر کئی دفعہ مسلح جدوجہد کا آغاز کر کے وفاق سے ٹکرانے کی کوشش کی گئی۔ اس میں قبائلی گروہی مفادات نے اہم ترین بنیادی کردار ادا کیا۔ پنجاب میں تاج لنگاہ اور ان کے ہمنوا سرائیکستان کا راگ الاپتے رہے اور رہتے ہیں۔ اس کی تقلید میں اب مختلف قومیتوں اور علاقائی لسانی گروہ بھی عصبیتوں کا علم بلند کر رہے ہیں۔ محترم ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے مقصود ڈویژن کی سطح کو صوبہ قرار دینے کو بتایا ہے۔ بہت پہلے تحریرکیا تھا کہ سیاسی خانوادے ایک وقت آئے گا جب قومی سطح پر پذیرائی نہیں پا سکیں گے تو ان کی خواہش ومفاد کی ڈور کا سرا ڈویژنل سطح تک محدود ہو جائے گا۔وہ چاہیں گے کہ ان کے حلقہ اثر تک ہی صوبائی تقسیم کر دی جائے تاکہ وہ اپنی جاگیر کے بے تاج بادشاہ بن سکیں ۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے ان کے دل کی بات کو لفظوں کا روپ دے کر ان کی نمائیندگی کا حق ادا کیا ہے ۔
یہ تمام عناصر سیاسی مقاصد کم اور ذاتی مفادات کے تحت زیادہ عصبیتوں کے ہمنوا ہیں۔ جب بھی انہیں اقتدار کی لوٹ سیل میں حصہ ملا یہ اپنے کاز کو بھلا کر لوٹ مار میں مصروف ہو گئے۔ منہ سے نوالہ چھنتا نظر آیا تو پھر انہیں بھولا ہو ا سبق یاد آ جاتا ہے۔ متحدہ قوم اور ملک اس انہیں صرف اس لیے پرخاش ہے کہ انہیں متحدہ قوم وملک میں اپنی شناخت کرانے کیلئے کوئی مناسب ایشو نہیں ملتا ۔ انہیں سیاسی طور پر اپنی شناخت کرانے کیلئے اس سے اہم کوئی بات نظر نہیں آتی کہ یہ لسانی گروہی محرومیوں کاسہارا لیں۔ کسی بھی حلقے ضلع یا ڈویژن یا صوبہ میں عوام مفادات کی عدم فراہمی سیاسی اور انتظامی امور سے متعلقہ ہے۔ سیاستدان پالیسی بناتے یا بنواتے ہیں اور انتظامیہ اس پر عمل درآمد کرتی ہے۔ اگر کسی علاقہ میں ترقیاتی کام نہیں ہورہے یا اس کو اس کامناسب حق نہیں مل رہا تو اس علاقے کے سیاسی عمائدین اور نمائیندے اس
کے ذمہ دار ہیں۔ ان کا محاسبہ کرنے کی بجائے اس کا الزام ریاست پر دھرنے کی کیا وجہ ہے۔ اس کو علاقائی مسلہ سے قومی ایشو بنانے کے پیچھے کیا عوامل ہیں۔
سیاست میں گروہی لسانی عصبیتوں کا واحد سہارا قومی سطح سے شناخت سے محروم سیاستدانوں کے سوا اور کوئی نہیں ۔ اس محرومی کا بدلہ یہ ان عصبیتوں کے ساتھ لیتے ہیں۔ قومی سطح پر اپنے کردار کی ادائیگی سے قاصر ان سیاستدانوں سے یہ سوال ہے کہ وہ قوم کی محرومیوں کے کیلئے تقسیم کے سوا کوئی اور فارمولا بتانے سے کیوں قاصرہیں۔ انہیں مقاصد کیلئے حصول کیلئے قوم کی تقسیم ہی کیوں ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ وہ اپنے مقاصد قوم کو ایک متحدہ پلیٹ فارم پر متحد کر کے کیوں حاصل نہیں کر پاتے۔ کیا ان میں متحدہ قوم کو لیڈ کرنے کی صلاحیت نہیں۔ ان کی ذہنی بالیدگی ان کاساتھ نہیں دیتی ۔ان کے منصوبہ جات کا فریم ورک ایک متحدہ قوم کو اپنے اندر سمونے سے کیوں قاصر ہے۔ کیاحضرت علامہ اقبال کی سوچ غلط تھی یا حضرت قائد اعظم کا عمل درست نہیں ۔اس قو م کو متحد کرنے کا خواب اور پیغام دینے میں علامہ صاحب نے غلطی کی تھی اور قائد اعظم نے انہیں حقیقت میں ایک مٹھی بنا کر پاکستانی قومیت کا جو لباس فاخرہ پہنایا تھا ان کا اقدام درست نہ تھا۔ لسانی اور گروہی عصبیتوں کے موجود ہ پیروکار علامہ صاحب اور قائد محترم سے زیادہ ذہنی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ جو قوم کی فلاح تقسیم میں مضمر دیکھتے ہیں۔
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں جنہوں نے خدمت کرنی ہوتی ہے وہ رنگ روپ مذہب یا زبان نہیں دیکھتے ان کا مقصود خدمت ہوتا ہے۔ ان کا منشور خدمت اور خدمت کے گرد ہی گھومتا ہے۔ ان کے دلائل خدمت پر ہوتے ہیں۔ ان کے منصوبہ جات کا تعلق کسی مخصوص گروہ یا علاقہ سے منسوب نہیں ہوتا ۔ اگر گروہ یا لسانیت اور علاقائیت کے پیروکار اذہان کو وسعت دیں تو وہ یہی کچھ ایک قومی سطح پر ایک قوم کیلئے بھی سوچ سکتے ہیں۔ یہ امر نہ صرف قوم کیلئے مفید ہے بلکہ ان کے بھی کردار کے حوالے سے زیادہ کار آمد ہو گا کیونکہ انہیں ایک قوم کی نمائیندگی کا اعزاز حاصل ہوگا۔ وہ محدود مقاصد کی بجائے ایک زیادہ عددی اکثریت کی خدمت کر کے زیادہ محترم قرار پا سکتے ہیں۔ متعصب کو حاسد ہی قرار دای جاسکتا ہے وہ اپنے بھائی سے ہی جلتا ہے اور اپنے بھائی ہی کو جلاتا ہے۔ نہ وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکتا ہے اور نہ وہ دوسرے کو منزل سے ہمکنار ہونے دیتا ہے۔ یہ سوچ ہر دو کیلئے نقصان دہ اور معاشرتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ تقسیم کی بجائے ضرب کی سیاست کو ترویج دے کر ملک وقوم کی بہتر خدمت کی جاسکتی ہے۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر کمزور کو ساتھ لے کر سب کی نائو پار لگائی جاسکتی ہے۔