طالبان سے مذاکرات : اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔۔۔
پاکستان میں طالبان سے مذاکرات کا موضوع ان دنوں تمام اخبارات اور ویب سائٹ کا اہم موضوع ہے۔ لیکن اس موضوع پر جس شدو مد سے گفتگو ہو رہی ہے زمینی حالات اس گفتگو کے لیے اتنے ہی نا سازگار نظر آ رہے ہیں۔ عام طور پر اس طرح کے مذاکرات ملک کے ان باغی رہنماؤں کے ساتھ کیے جاتے ہیں جن کے ہاتھ میں کسی نظریاتی گروہ کی قیادت ہوتی ہے اور دوسرے فریق کو یہ یقین ہوتا ہے کہ اگر وہ مذاکرات کے ذریعے ان کے تحفظات کا ازالہ کر دے گی تو وہ نظریاتی گروہ تشدد کا راستہ ترک کر کے قومی شہہ دھارے سے جڑنے کی کوشش کرے گا۔ ہونا پاکستان میں بھی یہی چاہیے کہ حکومت ان رہنماؤ ں سے مذاکرات کرے اور میڈیا کی حد تک حکومت کوششیں کر بھی رہی ہے لیکن زمینی حقائق پر نظر ڈالیں تو مذاکرات کے امکان یا تو بالکل نظر نہیں آتے یا ہیں بھی تو بالکل دھندلے ہیں اور اگر ان دھندلے امکانات کو روشن کرنے کی کوشش کی گئی تو عین ممکن ہے کہ اس کوشش میں پاکستان کی جمہوریت کو داؤ پر لگانا پڑے۔ طالبان اور طالبان کے سیاسی کرم فرما اس امید میں ہیں کہ افغانستان میں امریکی انخلا کے بعد طالبان ہی افغانستان کے مالک کل ہونگے اور باالواسطہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات کے بھی حاکم ہونگے اور پاکستانی طالبان کے کمانڈر ان کی حکومتوں کے گورنر ہونگے جو بہر حال پاکستانی حکومت کے زیر اثر نہیں ہونگے۔ ظاہر ہے ن حالات میں طالبان اور ان کے سر پرستوں سے یہ امید کرنا کہ وہ اپنی ریشہ دوانیاں ختم کر کے قومی شہہ دھارے میں آ ملیں گے کیسی دیوانگی ہے۔ طالبان تو اب جاگتی آنکھوں سے پاکستان میں خلافت اور خود کو امیرالمومنین بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور حکومت ہے کہ انہیں زمین سے جوڑنے پر تلی ہوئی ہے۔ اگر ان حالات میں طالبان نے امن کے لیے ہامی بھر بھی لی تو وہ اسی طرح ہوگی جس طرح گہری نیند میں کوئی کسی چیز کی ہامی محض اس لیے بھر لیتا ہے کہ اسے مزید سونے دیا جائے۔ مذاکرات کے حوالے سے یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے کہ حکومت آخر کس طالبان سے مذاکرات کے راستے ہموار کرنا چاہتی ہے۔ ابھی ملالہ یوسف زئی کے معاملے ہی کو لے لیں یا پھر نواز شریف کے مذاکرات کے اعلان کے بعد تحریک طالبان پنجاب اور تحریک طالبان پاکستان کے رد عمل کو سامنے رکھ کر بات کی جائے تو بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ طالبان سے مذاکرات پاکستانی حکومت کے لیے ناممکن نہیں تو ممکن بھی نظر نہیں آتا کیونکہ طالبان کی نہ تو کوئی جامع قیادت ہے اور نہ ہی وہ ابھی ضرورت مند ہیں۔ یہی بات متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما حیدر عباس بھی کہتے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں طالبان ضرورت مند نہیں ہیں بلکہ حکومت ضرورت مند نظر آتی ہے اور یہ بات طے ہے کہ تول مول میں بھاری قیمت ضرورت مند ہی کو چکانا ہوتی ہے۔ ایک اور بات جو اس حوالے سے بے حد اہم ہے وہ یہ کہ طالبان کو آج بھی حکومت پر یقین نہیں ہے اور ان کا ماننا یہ ہے کہ اس حکومت کو طالبان سے بات کرنے کا اختیار بھی حاصل نہیں ہے ۔ اب یہ بات قابل غور ہے کہ بھلا حکومت کو اور کس سے اختیار حاصل کرنے ہونگے۔ اگر طالبان کا اشارہ فوج کی طرف ہے تو یہ ایک سنگین الزام بھی ہے اور دوسرے ممالک جو الزام پاکستان پر لگاتے رہے ہیں کہ اس کی باگ ڈور فوج اور آئی ایس آئی کے ہاتھ میں ہوا کرتی ہے اس کی توثیق بھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس مذاکراتی فضا کی تیاری کے دوران ہی انہوں نے حملے میں کئی اعلی افسران کو ہلاک کر دیا جس پر فوج نے بھی شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کو سیاسی عمل کی پناہ نہیں دی جائے گی۔ شاید اس کا مطلب یہ بھی ہو کہ طالبان کو سیاسی عمل کے ذریعے پناہ نہیں مل سکتی بلکہ اسے فوجی قیادت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے ہونگے، یا پھر ان کی مرضی کے مطابق چلنا ہوگا۔ ان تمام باتوں کو اگر ایک طرف کر دیا جائے تو بھی حکومت یا طالبان کی طرف سے ان مذاکرات سے متعلق زبانی جمع خرچ سے آگے کی کوئی بات دکھائی نہیں دیتی ہے۔ شاید حکومت کو یہ بات میں آ جائے کہ جب بھی طالبان سے مذاکرات کا عمل شروع ہوا ہے اس مذاکراتی عمل کی آڑ میں طالبان نے خود کو مضبوط کیا ہے اور اس عمل کے فوراً بعد انہوں نے مزید قوت کے ساتھ حملے کیے ہیں۔ ایسے میں حکومت کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ طالبان کی کوئی بھی ایسی بات نہ مانی جائے جس سے ان کو اپنے آپ کو مزید منظم اور مسلح کرنے کا موقع مل جائے