سمیع اللہ ملک
جوں جوں امریکی صدارتی انتخابات قریب آرہے ہیں امریکی رویے میں ڈرامائی تبدیلی آرہی ہے۔قصرسفیدکے فرعون اوراس کی جماعت کوامریکی عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل ازحدمشکل نظرآرہی ہے اوروہ اگلے انتخابات میں کامیابی کیلئے افغانستان میں اپنی شکست خوردہ افواج کی باعزت واپسی کا راستہ ڈھونڈرہے ہیں۔اوبامہ انتظامیہ نے عراق سے اپنی تمام افواج کوواپس بلالیاہے مگر افغانستان مسلسل دردِ سربناہواہے۔امریکااوراس کے اتحادیوں کونہ صرف افغانستان سے انخلاء میں مشکلات نظر آرہی ہیں بلکہ مستقبل میں افغانستان کی اسٹرٹیجک پوزیشن بھی خاصی قابل تشویش بن چکی ہے۔عراق تیل کی دولت سے جہاں مالامال ہے وہاں اس کی جغرافیائی حدودایسی نہیں جس کیلئے مستقبل میں امریکا پریشان ہو۔اسی وجہ سے امریکااوراس کے اتحادی پہلے ہی اپنی شکست تسلیم کرکے وہاں سے اپنابوریابسترگول کرچکے ہیں تاہم افغانستان سے نکلنے کیلئے انہیں کئی مشکلات درپیش ہیں۔
امریکی صدرجوبائیڈن نے طالبان کودشمن کی فہرست سے خارج کرتے ہوئے وہ اصلیت ظاہرکردی جوامریکی حکام چاہتے ہیں تاہم شکست کے خوف اورشرمندگی کی وجہ سے اس پر عمل درآمدسے گریزاں ہیں۔۴۵ممالک کی خفیہ ایجنسیاں اورامریکی ایف بی آئی پچھلے دس سالوں سے دنیابھرمیں ملاعمرکوزندہ یامردہ گرفتارکرنے میں دن رات کوشاں تھیں لیکن اب انہوں نے ملاعمرکانام نہ صرف انتہائی مطلوب افرادبلکہ ہرقسم کی مطلوب افرادکی فہرست سے خارج کرنے کااعلان کرتے ہوئے آئندہ کی امریکی پالیسی میں مزید تبدیلی کااشارہ دیاہے اس سے واضح ہوگیاہے کہ امریکااوراس کے اتحادی افغانستان سے محفوظ انخلاء کیلئے بالآخرطالبان کے سامنے جھک گئے ہیں۔اس وقت امریکاکوافغانستان کے اندرمزاحمت سے بھی زیادہ اپنی سپلائی لائن کی فکرہے کیونکہ سپلائی لائن کی عدم بحالی کی صورت میں امریکی آپریشن کی صلاحیت دن بدن نہ صرف کمزوربلکہ ختم ہوتی جارہی ہے بلکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں بھی اس کی پوزیشن کافی کمزورہوتی جارہی ہے اس لئے امریکاہرقیمت پرسپلائی بحال رکھنے کا خواہاں ہے۔
امریکااوراس کے اتحادیوں نے جنگی حکمتِ عملی کے تحت افغانستان میں جنگی سازوسامان ،خوراک اورپٹرول کے ایک مہینے کوجوذخیرہ کیاہواتھاوہ تقریباً ختم ہونے کوہے ۔ فضائیہ کی مددسے بحرین کے اپنے بحری اڈے سے براستہ آذربیجان افغانستان میں ادویات اورخوراک کی ترسیل توشروع کردی گئی ہے جس پرنہ صرف کئی گنازیادہ اخراجات اٹھ رہے ہیں جوامریکی معیشت کی کمرتوڑنے کیلئے کافی ہیں بلکہ خراب موسمی حالات بھی اس راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہورہے ہیں۔پاکستان سے چمن اورطورخم کاراستہ موسمی اثرات سے پاک بارہ مہینے کھلارہتاتھالیکن پاکستان کی سرحدی سلالہ چوکی پرامریکاکے فضائی حملے کی وجہ سے نیٹوکی سپلائی مکمل طورپربندکردی گئی ہے بلکہ پاکستان کے سیکورٹی اداروں کی جانب سے سخت چیکنگ کے بعدامریکاکاتیل اسمگل کرنے کامنصوبہ بھی ناکام بنادیاگیاہے اسی لئے امریکاسپلائی لائن کی بحالی کے ساتھ طالبان کے ساتھ جلدازجلد مذاکرات کرنا چاہتا ہے ۔
ملاعمرکانام انتہائی مطلوب افرادکی فہرست سے خارج کرکے جہاں طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کاعندیہ دیاگیاوہاں امریکاکی جانب سے سلالہ چیک پوسٹ پرحملہ اور پاکستانی قوم اورفوج کی جانب سے بھرپورردعمل کی بناء پرامریکی ماہرین کوانتہائی مشکل میں ڈال دیاہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں بھی وسطی ایشیاسے رابطے کیلئے فضائی راستہ امریکا کیلئے بالکل محفوظ نہیں ہے کیونکہ متبادل راستہ اختیارکرنے سے روس اپنے سخت مطالبات منوانے میں اپنادباوٴ ڈالے گا ۔ادھرمطلوب افرادکی فہرست سے نام خارج ہونے کے بعدملامحمدعمرنے نہ صرف اپنی پالیسی میں تبدیلی کااشارہ دیاہے بلکہ ایک نئی پالیسی بھی وضع کردی ہے جس کوپاکستان اورافغانستان میں کافی پذیرائی حاصل ہورہی ہے ۔ ملا محمد عمر نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجودہ طالبان گروپوں کوکہاہے کہ اگروہ ملاعمرکواپناقائدمانتے ہیں توپاکستانی سیکورٹی فورسزز،پاکستان کی پولیس،امریکی جاسوسی کے الزام میں مشتبہ افرادکوپھانسی دینے،اغواء برائے تاوان اورایک دوسرے پرحملے فوری طورپربندکردیں وگرنہ حکم عدولی کی بناء پران کاافغان طالبان سے کوئی تعلق نہیں ہوگااورنتائج کے وہ خود ذمہ دارہونگے۔
ملامحمدعمر نے یہ ہدایات سراج الدین حقانی کی سربراہی میں آنے والے پاکستانی طالبان کے وفدجس میں حکیم اللہ محسود،حافظ گل بہادر،ولی الرحمان محسود،مولوی نذیر،مولوی صادق نور ،مولوی فقیرمحمداورحقانی نیٹ ورک کے ان تمام کمانڈروں کی دی ہیں جوقبائلی علاقوں میں پاکستانی فورسزسے برسرپیکارہیں۔ انہوں نے مزیدکہاکہ افغانستان میں امریکااوراس کے اتحادیوں کے ساتھ جنگ آخری مراحل میں داخل ہوگئی ہے اور اس وقت افغانستان کے مجاہدین کوساری دنیاکے مجاہدین کی ضرورت ہے اورنظم کی استقامت کاتقاضہ ہے کہ ایک امیرکے جھنڈے تلے جمع ہوں ۔ان گروپس کے آپس کے اختلاف ختم کرنے کیلئے گزشتہ پانچ ہفتوں سے مذاکرات جاری تھے اورملامحمدعمرکی ہدایات کے نتیجے میں پاکستانی طالبان ایک مشاورتی شوریٰ پرمتفق ہوگئے ہیں جس کے سربراہ سراج الدین حقانی ہونگے جوملاعمرکواس حوالے سے رپورٹ کریں گے۔
ٹانک اورجنوبی وزیرستان کے قریبی پہاڑوں میں دوہفتے قبل تمام طالبان گروپ اس بات پرمتفق ہوگئے ہیں کہ وہ پاکستان کے اندرخودکش حملے،اغواء برائے تاوان اورجاسوسی کے شبہ میں بے گناہ لوگوں کوپھانسی دینے جیسی کاروائیاں فوری طورروک دیں گے۔حکیم اللہ محسودنے طالبان کے وفدکے سامنے سخت موٴقف اپناتے ہوئے کچھ گلے شکوے کئے تاہم طالبان وفدکی جانب سے ان کی شکایات کوملامحمدعمرتک پہنچانے کی یقین دہانی پر وہ بھی اس بات پرمتفق ہوگیاکہ آئندہ پاکستان کی سیکورٹی فورسزکے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی۔ذرائع کے مطابق ملامحمدعمرکی طرف سے پاکستانی قبائلی علاقوں میں برسرپیکار طالبان کو دوٹوک پیغام دیاگیاکہ اگروہ ملامحمدعمرکوامیرالمومنین مانتے ہیں توانہیں فوری طور پر غیر شرعی کاموں اغواء برائے تاوان،خودکش حملے،سیاسی کارکنوں کاقتل اورپاکستانی سیکورٹی فورسزکے خلاف کاروائیوں کوفوری طورپربندکرناہوگاوگرنہ وہ ملامحمدعمرکواپناقائدماننے سے انکارکردیں اورپھروہ اپنے فیصلوں میں آزادہیں۔
پاکستانی طالبان سے یہ بھی مطالبہ کیاگیاکہ وہ فوری طورپران گروپوں کے ساتھ شامل ان لوگوں کوعلیحدہ کردیں جوطالبان کے نام پرمختلف جرائم میں ملوث ہیں اورجواپنے جرائم کی بناء پرطالبان کی صفوں میں شامل ہورہے ہیں۔ پاکستانی طالبان کی جانب سے حکیم اللہ محسود،مولوی نورسعید،ولی الرحمان محسودنے مولاناعظمت اللہ،مولوی نذیرنے حافظ حمزہ، حافظ گل بہادرنے مولوی سرداراورجلال الدین حقانی کی طرف سے مولاناسعیداللہ اس شوریٰ کے ارکان ہونگے۔یہ شوریٰ قبائلی علاقوں میں طالبان کی سرگرمیوں کوسراج الدین حقانی کی سربراہی میں مانیٹرکرے گی ۔ملامحمدعمرکی طرف سے یہ ہدایات بھی جاری کی گئیں ہیں کہ طالبان کاقیام غیرملکی اورباطل قوتوں کے خلاف مزاحمت تھی نہ کہ اپنے لوگوں کے خلاف جنگ۔اس وقت طالبان کوافرادی قوت کی ضرورت ہے اورمجاہدین کی ساری توجہ افغانستان پرمرکوزرہنی چاہئے کیونکہ امریکااوراس کے اتحادیوں کے ساتھ جنگ آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے اوراس فیصلہ کن گھڑی میں جنگ کواپنے انجام تک پہنچانے کیلئے پاکستانی طالبان کوقبائلی علاقوں میں تمام کاروائیاں فوری طورپربندکرناہونگی۔
اس مشترکہ شوریٰ کے قیام میں جلال الدین حقانی نے اس وقت یک اہم اورتاریخ ساز کرداراداکیاجب عیدالاضحٰی پرپاکستانی طالبان ان کی علالت کاسن کران کی عیادت کیلئے ان کے ہاں پہنچے جہاں جلال الدین حقانی نے مختلف گروپوں کے کمانڈروں کوایک مشترکہ شوریٰ بنانے کی تجویزدی تھی اوربالآخرملامحمدعمرکی طرف سے سخت پیغام ملنے کے بعدطالبان شوریٰ بنانے پر متفق ہوگئے اورطالبان نے میڈیامیں اس بات کی تصدیق بھی کردی ہے اوراس شوریٰ کی نگرانی میں باقاعدہ مانیٹرنگ کاسلسلہ بھی شروع کردیاگیاہے۔دوسری طرف حامدکرزئی نے امریکااوراقوام متحدہ سے مطالبہ کیاہے کہ اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ سے ان ۱۴۰/طالبان رہنماوٴں کے نام بھی فوری طورپرخارج کئے جائیں جواس وقت افغانستان میں حالتِ جنگ میں ہیں تاکہ وہ آئندہ مذاکرات میں حصہ لینے کیلئے قطر،سعودی عرب یاترکی کادورہ کرسکیں۔
شنیدیہ ہے کہ آئندہ مارچ تک اقوام متحدہ نے امریکاکے ایماء پران مطلوبہ ۱۴۰/طالبان کے نام بلیک لسٹ سے خارج کرنے کایقین دلایاہے ۔امریکاکی شدیدخواہش ہے کہ افغانستان سے محفوظ انخلاء کیلئے آئندہ صدارتی انتخابات سے پہلے طالبان سے مذاکرات کاعمل ہرصورت شروع ہوجائے تاکہ وہ اپنے عوام کوباوراورمطمئن کرسکے کہ وہ افغانستان سے نکل رہاہے۔امریکاجلدازجلدطالبان کومذاکرات کی میزپراس لئے بھی لاناچاہتاہے کہ ایران کی جانب سے فوجی مشقیں امریکاکیلئے براہِ راست خطرہ ہیں اورامریکانہیں چاہتاکہ ایران افغانستان میں اپنااثرونفوذبڑھاسکے۔اس لئے امید ہے کہ آئندہ چندماہ میں قطرمیں طالبان کاباقاعدہ دفترکھول دیاجائے گاتاہم پاکستان اورایران ترکی میں طالبان دفترکھولنے کے حق میں ہیں جبکہ طالبان کے کئی اہم رہنماء اورکئی دیگراسلامی ممالک بھی ترکی کے اندردفترکھولنے کے حق میں ہیں تاکہ مذاکرات میں یورپ کوبھی شامل کیاجاسکے۔
افغانستان کے مسئلے کے حل کیلئے آئندہ پانچ سے چھ ماہ کوسیاسی مبصرین انتہائی اہم قراردے رہے ہیں کیونکہ نومبرمیں امریکاکے صدارتی انتخابات ہونگے اوراس سے قبل افغانستان میں فیصلہ کن مراحل آ سکتے ہیں۔اس لئے اگرپاکستان کی طرف سے مارچ تک مزیددوماہ سپلائی لائن بندرہتی ہے توموسم بہارکے آغازمیں ہی امریکااوراتحادی افواج کوافغانستان میں نہ صرف عبرتناک بلکہ شرمناک شکست کاسامناکرناپڑے گا۔کیااب بھی دلی سرکارواشنگٹن میں امریکی معاہدے پردستخط کرکے افغانستان میں امریکااورنیٹوافواج کی جگہ لینے میں دلچسپی رکھتی ہے؟
لہرارہی ہے برف کی چادرہٹاکے گھاس سورج کی شہہ پہ تنکے بھی بے باک ہوگئے
بروزجمعتہ المبارک۱۹صفرالحرام۱۴۳۳ھ۱۳جنوری۲۰۱۲ء
۔ ۔ ۔
ملا محمد عمر نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجودہ طالبان گروپوں کوکہاہے کہ اگروہ ملاعمرکواپناقائدمانتے ہیں توپاکستانی سیکورٹی فورسزز،پاکستان کی پولیس،امریکی جاسوسی کے الزام میں مشتبہ افرادکوپھانسی دینے،اغواء برائے تاوان اورایک دوسرے پرحملے فوری طورپربندکردیں وگرنہ حکم عدولی کی بناء پران کاافغان طالبان سے کوئی تعلق نہی ہوگا”
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہاے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
احمر