Home / Articles / طالبان کے خلاف کارروائی ناگزیر کیوں

طالبان کے خلاف کارروائی ناگزیر کیوں

طالبان کے خلاف کارروائی ناگزیر کیوں

حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا کھیل ایک طرف تو کافی دلچسپ ہوتا جا رہا ہے جس میں ہر روز نئے نئے رنگ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ کھی اچھے اور برے طالبان کی بات، کبھی افغان اور پاکستانی طالبان کی بات اور کبھی ان کو ان ہی کی زبان میں جواب دینے کی بات۔ ادھر سے طالبان بھی ہر روز حکومت کی بے حسی کی کوئی نئی نظیر پیش کرنے کی سعی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف اس کھیل میں عوام خوف و ہراس کی اس منزل پر کھڑی نظر آتی ہے جہاں اس کی بے بسی قابل دید ہے۔ لیکن ایک لمبے عرصے بعد حکومت کی طرف سے واضح طور پر ایک  ایک پیغام دیا گیا ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہوگی۔ اگر طالبا اپنے ہتھیار ڈال کر  ایک پر امن شہری کے طور پر مذاکرات کے لیے آتے ہیں تو اس بارے میں ضرور سوچا جا سکتا ہے لیکن یہ رویہ قابل قبول نہیں  ہونا چاہیے  کہ ایک طرف مذاکرات کے دم بھرے جائیں دوسری طرف پاکستان میں لاشیں بچھائی جائیں۔  حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک بار پھر طالبان کی طرف سے وہی رد عمل آیا ہے جسے روایتی کہا جا سکتا ہے  یعنی اس پر غور کیا جائے گا دوسری طرف ایک اور روایتی ڈرامہ سامنے آیا  ہے جس سے مختلف لوگ مختلف مطلب اخذ کرتے ہیں۔ یہ ڈرامہ پنجابی طالبان کے ذریعہ حکومتی کوششوں کے خیر مقدم کا ہے۔

تحریک طالبان پاکستان اور پنجابی طالبان کے درمیان یہ کھیل نیا نہیں ہے۔ ملالہ یوسف زئی کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی کھیل کھیلا گیا تھا اور پھر ڈھاک کے وہی تین پات ۔ دراصل طالبان کی یہ پرانی عادت ہے کہ وہ اپنی حکمت عملی کچھ اس طرح سے بناتے ہیں کہ لوگ کسی صحیح نتیجے پر نہ پہونچ سکیں لیکن لوگوں اور حکومت میں کچھ تو فرق ہوتا ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے کوئی نہ کوئی فیصلہ تو کرنا ہی چاہیے۔ ایک طرف رانا ثنأاللہ  کارروائی کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف نواز شریف امن کو ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں اور اسی موقع کی تلاش میں طالبان ہمیشہ رہے ہیں۔ میں نے اپنی پچھلی تحریروں میں بھی اس بات کا ذکر کیا تھا کہ طالبان کو جب جب مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کی گئی ہے وہ اس موقع کا استعمال خود  کو مزید طاقتور بنانے کے لیے کرنے سے باز نہیں آئے ہیں۔ اور نتیجہ ہمیشہ عام لوگوں کو بھگتنا پڑا ہے۔ ابھی حال ہی میں فوج پر  حملے نے تمام لوگوں کو اس بات کا احساس شدت سے دلایا ہے کہ اگر اس ملک میں مسلح افواج محفوظ نہیں ہیں تو عام لوگوں کی حفاظت کیا اور کس سے بات کی جائے۔  یہ وہ نفسیات ہے جو حکومت سے لوگوں کے اعتماد کو  ختم کرتی ہے اور رفتہ رفتہ طالبان کی پناہ کو محفوظ تصور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔  ایسے میں اگر حکومت کوئی کارروائی ابھی نہیں کرتی ہے تو اس کا خمیازہ بھی حکومت کو ہی بھگتنا ہوگا کیونکہ طالبان کا بڑھتا دبدبہ پاکستان میں حکومتی نظام کے دائرے کو مزید محدود کر دے گا اور ایک دن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عنان حکومت بھی ان ہی کے ہاتھ میں ہو۔

About admin

Check Also

تفہیم میر کی  چند  جہتیں

نوٹ : ترجیحات میں شائع شدہ اداریہ اور مضمون قارئین کے لیے یہاں پیش کررہا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *