سمیع اللہ ملک
عجیب شخص تھا وہ‘میرے بے ہودہ لا یعنی سوالات کو اتنے غور سے سنتاکہ مجھے خود حیرت ہوتی۔پھر ہر سوال آسودہ جواب ہوتا۔اس کا رہن سہن ‘بول چال‘رنگ ڈھنگ‘سب ہی تو میرے سامنے تھا۔صرف زاہدِ خشک اور عابدِ شب گزار ہی نہیں تھا وہ‘زندگی کا ہر رنگ لئے ہوا تھا۔میں اسے مختلف شعراء کا کلام سناتا اور وہ مجھے ترنم کے ساتھ بہت خوبصورت شاعری سے محظوظ کرتا۔ اپنے گردوپیش کے لوگوں کے تنازعات‘ان کی شادی بیاہ کے بکھیڑے‘زمین جائداد کا جھگڑا‘جڑی بوٹیوں سے علاج اور پیار سے رب کی طرف بلانااس کے کام تھے۔کسی بیمار سے کبھی کوئی پیسہ یا کوئی تحفہ تک نہیں لیتا تھا۔دو تین ملازم رکھے ہوئے تھے جو حکمت کی جڑی بوٹیوں کو ان کی سخت نگرانی میں آنے والے مریضوں میں تقسیم کرتے تھے۔ایک دن میرے سامنے ایک بزرگ مریض کودوائی کے ساتھ نرم غذا کھانے کا جونہی مشورہ دیا تو وہ مریض دوائی لینے کی بجائے بڑے غصے سے اٹھ کھڑا ہوا کہ میرے پاس زہر کھانے کیلئے پیسے نہیں اور مجھے تم نرم غذا کھانے کا مشورہ دے رہے ہو؟فوراً معافی پر اتر آیا اور اپنی قمیض کی بغلی جیب میں ہاتھ ڈال کر جو کچھ بھی تھا اس کے حوالے کر دیا اور دروازے تک خود اس مریض کو چھوڑنے گیا۔میں کچھ کہنا چاہتا تھا کہ مجھے اپنی مخصوص مسکراہٹ سے خاموش رہنے کا اشارہ کر دیا۔
اسی کچے گھر کے صحن میں ہر شام بچوں کو نہ صرف قرآن کریم پڑھانے کا بندوبست تھا بلکہ دنیاوی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ہر ماہ کسی نہ کسی تعلیمی مقابلہ کی بنیاد پر بچوں میں انعامات کی تقسیم بھی جاری رہتی تھی اور انعام میں ان بچوں کو پہلے سے منتخب کرلیا جاتا تھا کہ جن کے تن کے لباس بوسیدہ یا پھٹے ہوتے تھے۔ان کی خودداری کا کس خوبصورتی سے خیال رکھا جاتا تھا۔ان کے ساتھ گھر کے باہر میدان میں خود کھیلتے تھے۔ ہفتے میں دو دن ان تمام بچوں کو مفت پینے کیلئے دودھ بھی اپنی بھینسوں کا پلاتے تھے ۔اس میدان کے کونے پر باقاعدہ ایک جگہ مسجد کیلئے مخصوص تھی جہاں انہی بچوں میں سے کوئی اذان دیتا تھا اور پھر انہی بچوں میں کسی کو امامت کیلئے آگے کھڑا کر دیا جاتا تھا۔ان تمام کاموں کیلئے کسی صلہ کی کبھی امید نہیں رکھی اور تمام اخراجات اپنی گرہ سے خرچ کرکے یک گونہ تسکین محسوس کرتا تھاوہ۔
ہر سو پیارومحبت کی خوشبو بکھیرے ہوئے وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھا‘طبیب تھا‘معلم تھا َ‘منصف تھا‘چارہ گر تھا‘ایک گھنا چھتنار درخت․․․․․․․پھلوں سے لدا ہوا‘جھکا ہوا۔ایک درخت لگانے کیلئے آپ کیا کرتے ہیں؟پھل دار درخت․․․․․․․یہی ناں!کہ بیج لیتے ہیں۔اصل تو بیج ہی ہوتا ہے ناں۔زمین کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر ایک چھوٹا سا گڑھا کھود کر بیج کو اس میں دفن کر دیتے ہیں جی ‘اس گڑھے کی مٹی کے سپرد کر دیتے ہیں۔پھر کبھی کبھی اس کو پانی بھی دیتے ہیں اور صبر کرتے ہیں۔آپ بیج کے سر پر سوار نہیں ہوتے‘اس کے اندر سے کھینچ کرکونپل نہیں نکالتے۔پھر اللہ جی کونپل نکالتا ہے اور وہ ننھا سا بیج زمین کا سینہ چیرتاہواباہر جھانکنے لگتا ہے۔پھر سرد و گرم کا مقابلہ کرتا ہے‘ہواوٴں کا‘طوفانوں کا‘بادوباراں کا‘ اپنے گردو پیش کے کیڑے مکوڑوں کا․․․․․․اور ایک دن تن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔پھر اس میں پھل لگ جاتے ہیں اور تنا ہوا درخت جھکنے لگتا ہے․․․․․․ درخت جھکتا اس لئے ہے کہ لوگ اس کا پھل کھا سکیں‘اس سے فیض پا سکیں۔
آپ نے کسی درخت کو دیکھا ہے جو اپنا پھل خود کھا رہا ہو‘یہ کہتے ہوئے کہ جاوٴ میں اتنی راتیں کھڑے ہوکر گزار دیں‘سردراتوں کی کپکپی میرے اندر سے گزرتی رہی‘اتنے دن جھلسا دینے والی دھوپ میں جلتا رہا ہوں‘اب ان پھلوں پر میرا حق ہے۔نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا۔لوگ کھاتے ہیں پھل اس کا‘اس کی چھاوٴں میں بیٹھتے ہیں۔اس نے کبھی بھی اپنی چھاوٴں سے ان لوگوں کو بھی محروم نہیں کیا جو گاہے بگاہے اس کو کاٹنے کیلئے اپنے کلہاڑوں کو تیز کرتے رہے‘ اگر اس کا کوئی بازو کٹ بھی گیا تو وہ کسی کے ہاتھ کی چھڑی بن کر اس کے چلنے میں اس کا مددگار بن گیا‘اس کی میت کو اپنے اندر سمو کر اسی دھرتی میں تابوت کی شکل میں دفن ہوگیا۔کبھی اس کو شرمندہ کرنے کیلئے اس کے مظالم اور کہنہ مکرنیاں کو یاد نہیں دلایا۔بس وہ ایک پھل دار درخت تھا۔آپ اگر شورزدہ زمین میں بیج ڈال دیں تو درخت نہیں لگتا۔بیج مر جاتا ہے‘کبھی نہیں پنپتا۔وہ ٹوٹے پھوٹے کمروں کی عمارت تھی اور اس کا چراغ وہ خود تھا۔روشن چراغ‘مینارہٓ نور ‘چشمہِ فیض جس سے سب سیراب ہوتے۔
ہمارے ہاں ادارے بنانے پر بہت زور دیا جاتا ہے‘ ہر کام کیلئے ادارہ بناوٴ۔آپ کی بات سو فیصد صحیح ہے‘بنائیں ضرور بنائیں۔ہم مٹی گارے‘لوہے سیمنٹ کی عمارت کو ادارہ کہتے ہیں ‘ ایسا ہی ہے ناں!بس ایک خوبصور ت عمارت‘بہترین رنگ و روغن‘ پھولوں کے گملے‘الماریاں‘کمپیوٹر‘میز کرسیاں اور سجاوٹ․․․․․․․․بس یہی کرتے ہیں ہم‘ اور ا سے کہتے ہیں ہمادارہ۔اس عمارت کی پیشانی پر اس کا نام بھی لکھ دیتے ہیں اور خوش ہوتے رہتے ہیں کہ واہ جی زبردست ‘ہم نے ادارہ بنا لیا جس کے سنگِ بنیاد کی تختی ہمیشہ ہمارے نام کو زندہ رکھے گی۔ایسی ہی ایک مزارِ قائد اعظم کی عمارت کے سنگِ بنیاد کی تختی جنرل یحییٰ خان کے ہاتھوں آج تک نصب ہے۔
حالانکہ ہمیں ایسے افراد کی ضرورت ہے جن پر آنکھیں بند کرکے یقین کیا جا سکے۔وہ زبانی کلامی ہمدرد نہ ہوں‘عملاًہمدردی کا پیکر ہوں۔جب تک ایسے افراد نہ ہوں‘ادارے بنانے سے کچھ نہیں ہو گا۔اینٹ گارے سے عمارت‘ یا سیمنٹ سریے کا خوبصورت رنگ و روغن کا شاہکار تو بن سکتا ہے ‘ادارہ نہیں۔کسی بھی ادارے کو افراد بناتے ہیں اور انہیں تباہ بھی وہی کرتے ہیں۔میں نے بہت بڑے بڑے درخت دیکھے ہیں‘اوپر سے بالکل صحیح و سالم اور اندر سے دیمک زدہ۔ایسے درخت کسی بھی وقت زمیں بوس ہو جاتے ہیں۔ہمیں اس پر کھلے دل و ذہن سے سوچنا چاہئے‘صرف سوچنا ہی نہیں بلکہ عمل پیرا بھی ہو نا چاہئے۔اداروں کی قطار نہیں ‘بے لوث افراد بنانے پر توجہ دیجئے ۔
مجھ سے رہا نہ گیا اور اس معاملہ کی تہہ کو تلاش کرنے کی ٹھانی۔”آپ ان کاموں پر تمام اخراجات اپنی جیب سے اداکرتے ہیں یا کوئی آپ کی اس میں مدد کرتا ہے؟“ میرے اس سوال پر وہی ہلکی سے مسکراہٹ مگر آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر اشارہ کیا اور کہامیں بھلا کسی کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟ماں باپ ورثے میں زمین چھوڑ گئے ‘شہری جائداد بھی کافی ہے لیکن وہاں رہنے کو جی نہیں چاہتا‘کرایہ پر اٹھا رکھی ہیں۔انہی غریب بچوں کے والدین زمین کاشت کرتے ہیں‘کبھی ان سے شکائت نہیں ہوئی۔آج تک اس زمین میں کسی فصل کو کوئی نقصان نہیں پہنچابلکہ زرعی یونیورسٹی کافی رقبہ تجرباتی تحقیق کیلئے استعمال کر رہی ہے۔جانتے ہو ان باغات کے پھل فروٹ پاکستانی حکومت کے اعلیٰ عہدیدار وں اور بیرونِ ممالک کے سربراہوں کو روانہ کئے جاتے ہیں ۔ایک عام شہری تو ان باغات کے قریب بھی نہیں جا سکتے لیکن یہ تمام بچے انہی باغات کے ہر موسم کے پھل کھاتے ہیں۔میں نے شروع دن سے ان باغات میں کچھ درخت ان بچوں کیلئے مخصوص کر دیئے تھے ۔
تمہاری سمجھ میں یہ بات نہیں آئے گی ۔تمہارے پڑوس میں ایک بہت بڑا ادارہ ہے لیکن تم نے کبھی اس ادارہ سے فائدہ ہی نہیں اٹھایا۔”میں آپ کی بات سمجھا نہیں؟“ میں کل تمہارے پاس آرہا ہوں اس ادارہ سے دونوں مل کر فیض یاب ہو نگے۔حسبِ وعدہ اگلے دن وہی مسکراتا ہوا چہرہ موجود تھا۔اپنے ساتھ آنے کو کہا۔تھوڑی دیر بعد سڑک کے کنارے ایک ریڑھی کے پاس بیٹھ گئے ۔میں برسہا برس سے اس ریڑھی سے واقف تھا کیونکہ اس کے اوپر ایک نامکمل انسانی لاشہ لیٹا رہتا تھا اور اس ریڑھی کی خاص نشانی یہ تھی کہ ہر وقت اس ریڑھی پر سبز ہلالی پرچم لہراتا رہتا تھا اور ان کے پہلو میں ایک چھوٹا ریڈیو جو ہر وقت بجتا رہتا تھا۔مجھے اس بات کا بخوبی علم ہے کہ کچھ افرادمحض ثواب کی خاطر اس لاشہ کی دیکھ بھال کرتے تھے۔اس لاشہ کے دونوں ہاتھ اور ایک ٹانگ کٹی ہوئی تھی۔سلامت ٹانگ بھی اس قدر کمزور ہوگئی تھی کہ کھڑے ہونے میں کوئی مدد نہیں ملتی تھی۔کوئی ان کو کھانا کھلا دیتااور کوئی ان کی ضروریاتِ زندگی کا خیال رکھتا تھا۔وہی ریڑھی ان کے شب و روز کا ٹھکانہ تھا۔گرم سرد موسم بھی اسی ریڑھی پر گزرتے تھے ۔گرمیوں میں ایک چادر اوپر تنی دیکھی جاتی تھی اور سرد موسم میں ایک موٹا سا کپڑا ان کو ڈھانپے رکھتا تھا۔
وہ ان کے پاس زمین پر بیٹھ گیا اور تعظیماً ان کے سر پر بوسہ دیکر حال احوال پوچھنے لگا۔میرا تعارف کروایا۔مجھے اس وقت بڑی حیرت ہوئی جب انہوں نے مجھے میرے نام سے پکارا۔ مجھے یہ تو پتہ ہے کہ میں ان کے پاس سے کئی مرتبہ گزرا ضرور ہوں اور ان کو ہمیشہ سلام بھی کرتا تھا کیونکہ ان کی ریڑھی میرے راستے میں تھی۔ان کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ ہرسال چودہ اگست سے کچھ دن پہلے ہی ان کی ریڑھی کے چاروں کونوں پر نئے پاکستانی پرچم نصب ہو جاتے تھے اس لئے ان کی ریڑھی سب سے نمایاں نظر آتی تھی۔اس سے مزید مجھے کچھ معلوم نہیں تھا۔بڑی نستعلیق اردو زبان میں ان کی گفتگو‘علامہ اقبال کے اشعار اور قائد اعظم محمد علی جناح کی انگریزی زبان کی تقاریر انہی کے رعب داب کے لہجے میں جب سننے کو ملی تو چند لمحوں کیلئے پاوٴں تلے زمین کھسکتی نظر آئی۔پتہ چلا کہ موصوف علی گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔انگریزی ادب میں ماسٹر کی ڈگری رکھتے ہیں۔تقسیم ِپاکستان میں اپنے خاندان کے تمام افراد کو اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے ہوئے دیکھا اور اپنے جسم کے یہ تمام اعضاء بھی اسی ملک کیلئے نچھاور کرکے پاکستان پہنچے ہیں۔
اس بات پر بڑا ناز اور فخر کر رہے تھے کہ ان شہید ہاتھوں کو کئی مرتبہ قائد اعظم سے ہاتھ ملانے کی سعادت نصیب ہوئی اور شائد ان ہاتھوں کو میرے رب نے اس لئے واپس لے لیا کہ اس کے بعد یہ کسی غدار کے ہاتھوں کو نہ چھوئیں۔نجانے اور کیا کیا کہتے رہے اور میری حالت تو یہ تھی کہ ندامت کے مارے ان سے آنکھیں چرارہا تھا کہ ایسی عظیم شخصیت اس بے سرو سامانی کی حالت میں ہمارے درمیاں ایک لمبے عرصے سے زندگی کے دن گزار رہی ہے۔پاکستان کے موجودہ حالات پر بڑے دل گرفتہ نظر آرہے تھے۔جنرل یحییٰ ملک کے سیاہ و سفید کا مالک تھا اور پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتیں اس ملک کی تقدیر سے کھلواڑ کر رہی تھیں۔آخر وہ منحوس دن بھی آن پہنچا جب سقوطِ مشرقی پاکستان کی خبر باقی ماندہ ملک کے لوگوں نے سنی۔میں خود اس دن پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا ۔میں نے سوچا کہ پاکستان کے اس عظیم مجاہد کے پاس جا کر اپنا غم ہلکا کرتا ہوں۔
میں نے دور سے دیکھا کہ ان کی ریڑھی کے پاس لوگوں کا ایک تانتا بندھا ہوا ہے۔دل زور زور سے دھڑکنا شروع ہو گیا۔میں نے سوچا کہ میری طرح یہ سب لوگ بھی اپنا غم ہلکا کرنے کیلئے اس عظیم شخص کے پاس آئے ہیں۔لیکن میرے اندر کا خوف میری اس سوچ کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ جب قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ عظیم شخص اس بری خبر کو سن کر اپنے دل پر قابو نہ رکھ سکا اور اپنے رب کے ہاں انہی کٹے ہوئے نامکمل لاشے کے ساتھ حاضر ہو گیا ہے۔ اب ان کی تدفین کا مسئلہ تھا۔میں نے آگے بڑھ کر یہ ذمہ داری جب قبول کرنا چاہی تو معلوم ہوا کہ اس کا بندوبست بھی اسی شخص نے پہلے سے کر دیا ہے جس نے کچھ دن پہلے میری ان سے ملاقات کروائی تھی۔اسی پاکستانی پرچم کا کفن ان کو پہنایا گیا کہ یہ ان کی شدید خواہش تھی۔نجانے سارا شہر ان کے جنازے میں کیوں امڈ آیا۔لوگون کا ایک طوفان تھا جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔بیشمار ایسے ناآشنا چہرے اس جنازے میں اس طرح پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے کہ معلوم نہیں ہورہا تھا کہ یہ سقوطِ مشرقی پاکستان کا غم تھا یا پھر اس مردِ عظیم کا!
ان کو تو سقوطِ مشرقی پاکستان کاصدمہ برداشت نہ ہوا لیکن اگرقائد زند ہوتے تو کیا ان حالات کو دیکھ کر خود اپنے مرنے کی دعا نہ کرتے؟
گل شاخوں پہ آتے ہیں کس عالمِ افسوں سے کس غیب کی وادی سے انسان نکلتے ہیں
یہ عالمِ ہستی ہے یا خواب کی بستی ہے جس سمت چلے جائیں حیران نکلتے ہیں