Home / Book Review / عصمت چغتائی:فکروفن

عصمت چغتائی:فکروفن

نام کتاب: عصمت چغتائی:فکروفن

مصنف: ڈاکٹر توحید خان

صفحات: 249

قیمت:148

زیر اہتمام: براؤن بک پبلی کیشنز،پرائیوٹ لمیٹیڈ،نئی دہلی

مبصر: مہوش نور

ریسرچ اسکالر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی

زیر تبصرہ کتاب’’ عصمت چغتائی :فکرو فن ‘‘ ڈاکٹر توحید خان کی پی،ایچ،ڈی کانچوڑ ہے۔توحید خان فی الوقت ایک مخلص اور محنت کش استاد کی حیثیت سے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ،نئی دہلی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔موصوف کا تجرباتی میدان میڈیا رہا ہے۔انہوں  نے اردو اور ہندی میڈیا میں اپنی زندگی کے بیشتر اوقات صرف کیا ہے جس سے ان کی فکری اپج میں بلا کا نکھار آیا ہے۔یوں تو موصوف کی دل چسپی کا میدان  فکشن رہا ہے لیکن انہوں نے فکشن اور میڈیا دونوں میدان میں اپنی  صلاحیت کو اس قدر وسعت دی کہ ان کی  ریڈیائی تحریر میں بھی فکشن کا رنگ نظرآتا ہے جو ایک ہنر مند شخص ہی کر سکتا ہےاور یہ کام توحید خان نے بخوبی انجام دیا ہے  ۔زیر تبصرہ کتاب ’’ عصمت چغتائی :فکرو فن ‘‘  اردو کی سب سے مقبول صنف افسانہ اور افسانے کی تاریخ میں بہت ہی مشہورومقبول خاتون عصمت چغتائی کے فکرو فن کے باب میں اہم اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔اس لیے میں مناسب سمجھتی ہوں کہ اس کتاب سے متعلق چند نکات یہاں ذکر کروں جن سے قارئین استفادہ کر سکے۔عصمت چغتائی  اردو افسانہ نگاری کی تاریخ میں اہم مقام رکھتی ہیں ،عصمت اپنے معاصرین میں اپنے فکر وفن کے اعتبار سے کافی اہم اور معتبر خاتون مانی جاتی تھیں ۔عصمت نے اپنے افسانوں میں متوسط طبقے کی عورتوں کی جنسی گھٹن اورنفسیاتی   پیچیدگیوں کی حقیقی پیش کش کی ہے۔عصمت سے پہلے کسی خاتون فکشن نگار نے ان موضوعات پر خامہ فرسائی کی جرأت نہیں کی جن موضوعات پر عصمت نےقلم اٹھایا  ۔اپنے دور میں ہزار مخالفت کے باوجود مسلم معاشرے میں پائی جانے والی برائیوںپر عصمت نے بے خوف و خطر اظہار خیال کیا اور اپنی کہانیوں کا تانا بانا اسی کے اردگرد بنا تاکہ ان برائیوں سے معاشرے کو باخبر کرسکے۔عصمت کے مخالفین نے ایک محاذ کی بنیاد رکھ دی لیکن عصمت کسی بھی خیر وشر کی پرواہ کیے بغیر اپنے مشن میں لگی رہی اور مشن کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ عرصہ بعداردو فکشن کی دنیا میں عصمت نے سب کو اپنے فن کی  جانب متوجہ ہونے پر مجبور کردیا ۔عصمت سے پہلے خواتین فکشن نگار عموماً ان مسائل پر کچھ لکھنا مناسب نہیں سمجھتی تھیں ۔ان خواتین میں سے بیشتر کے فن پارے اصلاحی قسم کے ہوتے تھے ۔ساتھ ہی ان کی تخلیقات میں حقیقت پر عینیت کو ترجیح دی جاتی تھی ۔لیکن عصمت وہ واحد خاتون افسانہ نگار ہیں جنھوں نے عینیت پر حقیقت کو ترجیح دی اور ماحول ومعاشرے کی تلخ سچائی جو کہ شرفاکی عادت قبیحہ بن چکی تھی ،عصمت نے اس کو اور اس کڑوی حقیقت کی پیش کش کو اپنے فن کی بنیاد قراردیا ۔یہی وجہ ہے کہ عصمت کے تمام افسانے اور ناول کسی نہ کسی اہم سماجی مسئلے کی طرف ہماری توجہ مرکوز کرتے ہیں۔زیر تبصرہ کتاب’’ عصمت چغتائی :فکرو فن ‘‘تقریباً 249 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے ۔کتاب کے آغاز میں ایک معلوماتی مقدمہ ہے جس میں عصمت چغتائی  کے فکرو فن پر مختصر تبصرہ موجود ہے۔مقدمہ کے  بعد مصنف نے  اس کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیاہے۔پہلا باب’’ عصمت چغتائی  کی شخصیت‘‘کے عنوان سے ہے اس باب میں عصمت چغتائی کی خاندانی وخانگی زندگی کی روداد ہے ۔جس میں خاندان،پیدائش اور بچپن،تعلیم،شادی اور اولاد،ادبی زندگی کاآغاز،تصانیف کی فہرست،ملازمت ،مشاغل، اعزازات وانعامات اور وفات شامل ہیں۔درج بالا عنوان  کے تحت ان تمام نکات کی تفصیلات موجودہیں  جس سے عصمت کی زندگی کے بے شمار گوشوں پر روشنی پڑتی ہے۔دوسرا باب’’ عصمت چغتائی کا فکری ارتقا‘‘ہے۔اس عنوان کے تحت اردو فکشن کے فکری دھارے(پریم چند سے عصمت چغتائی تک)اورعصمت چغتائی کافکری ارتقاہے۔جس پر مصنف نے کھل کر بحث کی ہے اور قارئین کی دل چسپی کا خاص خیال رکھا ہے تاکہ اس باب سے اردو افسانے کی روایت کومستحکم طریقے سے  سمجھا جا سکے۔تیسرا باب:’’عصمت چغتائی کا سماجی شعور‘‘ہے۔اس عنوان کے تحت عورتوں کے مسائل،جنسی اور نفسیاتی مسائل،جہیز کا مسئلہ،ذات پات کا مسئلہ،تحریک آزادی،جنگ عظیم،تقسیم ہند،فسادات اور دیگر مسائل پرکھل کر گفتگو کی گئی ہے  جن سب سے عصمت کا سروکار ہے ۔مصنف نے قارئین کو عصمت  کے تخلیقی دھارے سے واقف کرانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔اگر میں یہ  کہوں تو شاید مبالغہ نہیں ہوگا کہ عصمت کی تمام تخلیقات انہیں جزئیات کے اردگرد گردش کرتی ہیں۔ چوتھا باب:’’ عصمت چغتائی کا فنی ارتقا‘‘ہے۔اس عنوان کے تحت مصنف نے پلاٹ،کردار،تکنیک اور اسلوب  سے بحث کی ہے جو عصمت چغتائی  کی فنی بصیرت کا عمدہ مظہر ہے۔اور اخیر میں کتابیات کی ایک طویل فہرست ہے جو عصمت چغتائی کےفکرو فن پر لکھنے والوں کے  لیے بے حدمعاون ہے۔یہ کتاب اردو ادب کے قارئین کے لیے عمدہ ادبی تحفہ ہے۔ مصنف نے  تنقیدی و تحقیقی نظریات کے استدلال کے  بنیادی مآخذ سے استفادہ کیا ہےجو تحقیق کی سب سے اہم خصوصیات میں سے ایک ہے۔زبان وبیان بھی کافی سادہ وسلیس ہے ۔ کتاب کی اشاعت پر صاحب کتاب کو مبارک باد۔

مہوش نور

ریسرچ اسکالر،جواہر لعل نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی۔

mahwashjnu10@gmail.com

About admin

Check Also

دینی مدارس پر ایک معروضی نظر

                              …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *