ڈاکٹر خواجہ اکرام
سال بھر کے انتظار اور ایک مہینے رمضان کی رونقوٕٕ کے بعد جب عید آتی ہے تو خوشیوں کا پیغام لے کر آتی ہے ۔کہتے ہیں کہ اگلی عید کا انتظار عیدکے دوسرے دن سے ہی شروع ہو جا تا ہے لیکن شاید اب ایسی بات نہیں رہی کیونکہ عالم اسلام میں ہر طرف انتشار اور بد امنی کا دار دورہ ہے اس لیے اب عید اس طرح سے منائی ہی نہیں جاتی ۔ اس کے علاوہ عید کی خوشیاں اس وقت میسر آتی ہیں جب معاشرے اور ملک میں امن و امان ہو ۔لیبیا ، مصر ، شام، عراق ، بحرین ، افغانستان اور پاکستان ہر جگہ انتشار ہی انتشار ہے ۔نماز عید کے لوگ عید گاہوں میں جاتے ہوئے بھی ایک خوف سا محسوس کرتے ہیں کہ کہیں کوئی دھماکہ نہ ہو جائے ۔ یہ تو وہ ممالک ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا لیکن آج تک میری حیرت نہیں گئی کہ رمضان میں جب ساری دنیا کشاں کشاں حرم کعبہ میں میں پہنچتی ہے تو عبادت و ریاضت کا ایک ایسا روح پرور سماں ہوتا ہےکہ دیکھتے ہی بنتا ہے ۔ لیکن حرم شریف میں وہ روزانہ کی پنج وقتہ نماز ہو یا جمعہ کی نماز یا تروایح کی نماز یہاں بھی بلاوجہ امام صاحبان کے ارد گرد حرم شریف کی پولیس پہرہ دیتی رہتی ہے ۔ہر شخص نماز ادا کرتا ہے لیکن میں امام کے پہرے میں کھڑی پولیس اپنی ڈیوٹی پر تعنیات ہوتی ہے ۔ اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ ایسا کیوں کیا جاتا ہے ۔ ایسے مقام پر جہاں ہر شخص صرف عبادت کے لیے حاضر ہوتا ہے اور زیادہ تر زائرین وہ ہوتے ہیں جو شاید زندگی میں پہلی بار جاتے ہیں ، انھیں امام حرم سے کیا دشمنی ہو سکتی ہےکہ وہ ان پر حملہ کریں او ر کون سا ایسا شخص ہوگا جو حرم میں جہاں قتل وخون حرام ہے وہاں ایسی حرکت کر سکتا ہے ؟ ماضی میں شاید ایک دو ایسی واردات ہوئی ہوں لیکن اس کی بنیاد پر نماز کے دوران بھی حرم کعبہ کے امام کے لیے سپاہیوں کو پہرے میں کھڑے رہنے کا جواز سمجھ میں نہیں آتا۔اس کا ایک منفی پیغام یہ بھی جاتا ہے کہ پہرہ اس لیے ضروری ہے کہ یہاں کوئی واردات ہوسکتی ہے ۔ جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے ۔ اس لیے سعودی حکمرانوں کو چاہیے کہ پہلی فرصت میں اس طرح کے نازیبا اور غیر ضروی پہرے کو ہٹائیں ۔ اور حرم کے اماموں کو بھی غور کرنا چاہیے کہ جب سب لوگ عبادت میں کھڑے ہوں تو ایسے میں سپاہیوں کا اللہ کے حضور کھڑا ہونے کے بجائے امام کے پہرے میں کھڑا ہونا کیسے جائز ہے؟ خیر میں تو اس حوالے سے صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ یہ غیر ضروری ہے اور عالم اسلام کو منفی پیغام ملتا ہے ۔
اب رہی اسلامی ممالک کی بات تو وہاں کے حالات انتہائی نا گفتہ بہ ہیں ۔ ایسے ماحول میں عید کی خوشی کا تصور کرنا بے سود ہے۔لیبیا جہاں کئی مہینوں سے لوگ گولیوں اور بموں کی آواز اور دہشت کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں ، جنگ اور تصادم کے سبب روزمرہ زندگی کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں ، وہاں کیسی عید اور کیدی عید کی خوشی ؟ اسی طرح شام کی گلیوں میں جہاں احتجاجیوں کے ہنگامے اور پولیس کی گولیاں گونج رہی ہوں ، جہاں عید کی نماز کے بعد احتجاج اور گولیاں چل رہی ہوں وہاں عید کی کیا خوشیاں منائی جاسکتی ہیں ، جہاں کے عوام اپنی حکومت سے ہی نالاں ہیں ۔اسی طرح عراق اور افغانستان جہاں آئے دن خود کش دھماکوں کا خدشہ رہتا ہے وہاں کے چوراہے اور بازار کیسے عید کی رونقوں سے پر نور نظر آئیں گے۔ان جگہوں پر تو خوف کے سائے ہی منڈلائیں گے اور خوف کے سائے میں کہیں بھی خوشیاں نہیں منائی جاتی۔
رہی بات پڑوسی ملک پاکستان کی تو وہاں بھی اس سے مختلف کوئی دوسری صورتحال نہیں ہے۔یہاں بھی خوف و ہراس کے مہیب سائے ہر جگہ اپنا پیر پھیلائے ہوا ہے۔عید سے پہلے بھی اور رمضان میں ایسے کئی واقعات سامنے آئے اور کراچی جسے پاکستان کا چہرہ کہا جاتا ہے جو روشنیوں کا شہر اور عروس البلاد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے وہاں تو ساری رونقیں ختم ہورہی ہیں کیونکہ مہینوں سے جو قتل وکون کا بازرا گرم ہے وہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔تصادمات کا سلسلہ بڑھتا ہی جا رہے ۔ کئی گھروں سے ان کے گھر کے چراغ چھن گئے ۔ لوگ وہاں خوف سے سہمے ہوئے ہیں ۔رمضان کا متبرک مہینے میں بھی یہ سلسلہ بند نہیں ہوا۔ حکومت بھی ان حالات کے آگے بے بس نظر آرہی ہے ۔ ایسے میں کوئی کراچی والوں سے عید کی خوشی کو معلوم کر سکتا ہے کہ خوف و ہراس کے سائے میں عید کیسی ہوتی ہے۔ لیکن شکر ہے کہ عید کے دن یہاں کوئی بڑا حادثہ نہیں ہوا لیکن پاکستان میں ہی عید کی نماز کے وقت ہی خود کش حملہ ہوا جس نے پورے پاکستان سمیت عالم اسلام کو بھی سکتے میں لاکھڑا کیا کہ یہ کیسا اسلامی ملک جہاں عید کی نماز میں بھی لوگ محفوظ نہیں ۔ مسجد ، خانقاہ اور اب عید گاہ ہر جگہ کو دہشت گردوں نے غیر محفوظ بنا دیا ہے۔یہ حادثہ کوئٹہ کا ہے جہاں خود کش حملے میں تین خواتین سمیت دس افراد جاں بحق اوربیس سے زائد زخمی ہوگئے ۔ پاکستان کے اخبار جنگ کی رپورٹ کے مطابق‘‘کوئٹہ(اے پی پی) پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں عیدگاہ کے باہر خودکش دھماکے کے نتیجے میں خواتین وبچوں سمیت 10افراد جاں بحق اور22زخمی ہوگئے۔پولیس کے مطابق بدھ کو کوئٹہ کے علاقے گلستان روڈ پر واقع ہزارہ عیدگاہ میں عید کی نماز ادا کی جارہی تھی کہ اسی دوران پولیس نے ایک مشکوک گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا تو گاڑی میں سوار شخص نے گاڑی کو دھماکے سے اڑادیا جس کے نتیجے میں 2خواتین اور 2بچوں سمیت10 افراد موقع پر ہی جاں بحق اور 22 زخمی ہوگئے،جن میں 6کی حالت نازک ہے۔ دھماکے سے 14گاڑیاں ،4 مکانات، 4 دکانیں تباہ ہوگئیں۔ دھماکے کے نتیجے میں انسانی اعضا سڑک اور قریب و اقع سردار حسن موسیٰ گرلز کالج میں جاگرے۔ سی سی پی او کوئٹہ احسن محبوب نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ واقع خود کش ہے حملہ آور ہزارہ عیدگاہ سے دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی کو ٹکرانا چاہتا تھا مگر سخت سیکورٹی انتظامات کے باعث خود کش حملہ آور نے گاڑی کو سڑک پر پارک کی گئی گاڑیوں کے قریب اڑادیا۔ بم ڈسپوزل کے عملے کے مطابق دھماکے میں 45کلو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا ہے۔’’ یہ تو عید کے دن کا اندوہناک منظر تھا ۔ لیکن یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے ۔کراچی اوردوسرے علاقوں میں بھی کئی ایسی وارداتوں کی اطلاع ہے ۔نارتھ کراچی میں فائرنگ سے پاک بحریہ کے لیفٹیننٹ کمانڈر سمیت دو افراد جاں بحق ہوگئے۔ نارتھ کراچی کے علاقے سیکٹر الیون بی میں مسلح موٹر سائیکل سواروں نے دو افراد پر اس وقت فائرنگ کردی جب وہ ظہر کی نماز پڑھ کر واپس آرہے تھے ۔ عید کے دوسرے دن کرم ایجنسی میں شدت پسندوں نے مسافر گاڑی پر حملہ کرکے ایک ہی خاندان کے 4افراد سمیت سات مسافروں کو قتل جبکہ ایک کو زخمی کر دیا۔ پولیٹیکل انتظامیہ کے مطابق مسافر گاڑی لوئرکرم ایجنسی کے علاقہ علیزئی سے اپرکرم ایجنسی کے ایک گاؤں جا رہی تھی کہ لوئرکرم مخی زئی میں مسلح شدت پسندوں نے گاڑی پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں سات افراد جاں بحق جبکہ ایک مسافر زخمی ہو گیا۔ ہلاک ہونے والوں میں باپ، بیٹا اور دو سگے بھائی بھی شامل ہیں،دو ستمبر کو پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں نامعلوم مسلح افراد نے ایک اور مسافر گاڑی پر حملہ کر کے چار افراد کو ہلاک اور دو کو زخمی کر دیا ہے۔گزشتہ روز کے حملے میں بھی چار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ پاکستان میں اس طرح کی خبروں کی بعد اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عالم اسلام میں عید کی رونقیں کیسی ہیں ۔
جائے افسوس ہے کہ عالم اسلام میں اب حالات ایسے ہیں کہ اسلامی طور پر جب کوشی منانے کا حکم ہوتا ہے تب بھی ہم اس کو منانے سے مجبور ہیں۔کیا عالم اسلام کے یہ حالات مستقبل قریب میں بدل سکتے ہیں ؟ یہ سوال میں اپنے آپ سے بھی اور قارئین سے بھی پوچھنا چاہتا ہوں۔