Home / Book Review / غالب،بہادر شاہ ظفر اور 1857

غالب،بہادر شاہ ظفر اور 1857

غالب،بہادر شاہ ظفر اور 1857

شمیم طارق

غالب اکیڈمی، نئی دہلی،        ۲۰۰۸

صفحات: ۹۶

مبصر : پروفیسر خواجہ محمد اکرام اادین

اس سے قبل شمیم طارق  صاحب کی ایک کتاب  ‘‘غالب اور ہماری تحریک آزادی’’ کے نام سےشایع ہو چکی  تھی جس کاذکر پچھلے تنقیدی جائزوں میں کیا جا چکا ہے۔ یہ” غالب: بہادر شاہ ظفر اور سنہ 1857”   ان کی  دوسری کتاب ہے۔ غالب ایسے شاعر ہیں جنہوں نے ۱۸۵۷ سے پہلے کی بھی دہلی دیکھی اور ۱۸۵۷ کے بعد کی بھی۔ وہ بہادر شاہ ظفر کے دربار سے بھی وابستہ رہے۔ اس لیے غالب اکیڈمی کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ  اس بار کا خطبہ غالب اور بہادر شاہ ظفر  دونوں  پر کیا جائے۔ ”غالب: بہادر شاہ ظفر اور 1857”  در اصل یہ سنہ 1857 کے 150ویں سال میں غالب کے 210ویں یوم ولادت کے موقع پر غالب اکیڈمی دہلی میں دیا گیا شمیم طارق کا خطبہ ہے۔ خطبہ کو کیسٹ کی مدد سے کتاب میں منتقل کیا گیا ہے۔ خطبے اور کتاب میں فرق صرف یہ ہے کہ خطبے میں طویل اقتباسات کی طرف صرف اشارے تھے، کتاب میں اقتباسات شامل کردئے گئے ہیں۔ اس سے کتاب اور زیادہ مستند ہوگئی ہے۔ موضوع جتنا اہم ہے شمیم طارق نے اس پر روشنی بھی اتنی ہی محنت سے ڈالی ہے۔ سب سے پہلے تو انہوں نے ایک اہم سوال قائم کیا ہے:

”موضوع بہت وسیع ہے اور اس موضوع کا حق تبھی ادا ہوسکتا ہے جب موضوع کے سبھی اجزاء کا احاطہ کیا جائے اور وہ بھی مختلف زاویوں سے۔ لیکن اس سے بھی زیاہ اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ گفتگو ہو کن بنیادوں پر؟ غالب اور بہادر شاہ ظفر تاریخی شخصیتیں ہیں، سنہ 1857 تاریخ کا ایک ورق ہے، مکمل تاریخ ہے اور تاریخ حکایات و قصص کا نام نہیں ہے۔” ‘ص: 10’

اس کتاب میں انہوں نے تاریخی ماخذ کو 5/قسموں میں تقسیم کرکے ان پر روشنی ڈالی ہے۔

  • پہلی قسم ان تاریخوں اور تذکروں کی ہے جو انگریز دوستوں کے لکھے ہوئے ہیں۔
  • دوسری قسم کارل مارکس کی کتاب The Indian war of independence 1857-8 جیسی کتابوں پر مشتمل ہے۔
  • تیسری قسم اس زمانے کے اخبارات و رسائل پر مشتمل ہے۔
  • چوتھی قسم ملفوضات ادب کی ہے۔ اور بہت اہم ہے۔ اردو میں اس موضوع پر نہیں لکھا گیا تھا۔ شمیم طارق نے اردو والوں کو تاریخ کے ایک بہت اہم ماخذ سے واقف کرایا ہے۔
  • پانچویں قسم انگریزوں کی رپورٹوں، ڈائریوں، یادداشتوں، ٹریبونل کے فیصلوں اور انتظامی امور کے متعلق جاری کئے گئے حکم ناموں پر مشتمل ہے۔

ماخذ کی ان پانچ قسموں پر گفتگو کرنے کے بعد شمیم طارق نے ماخذ کی روشنی میں جو اہم نکات بیان کئے ہیں یا جو نتائج اخذ کئے ہیں وہ یہ ہیں:

الف۔”غالب اگر چہ اس معنی میں خوش نصیب شاعر تھے کہ انہیں   بہت اچھے سوانح نگار ملے مثلا مولانا الطاف حسین حالی۔

زبردست مداح ملے مثلا عبدالرحمن بجنوری جنہوں نے مقدس وید اور دیوان غالب کو ہم پلہ قرار دے دیا۔

بدترین نکتہ چین ملے مثلا یاس یگانہ چنگیزی جن کی غالب شکنی کی روش نے غالب کو اور زیادہ محبوب بنا دیا۔

بہت اچھے اور بڑی تعداد میں شارح ملے کہ غالب کے کلام کی مکمل، نامکمل شرح کرنے والوں کی تعداد 40 سے زیادہ ہے مگر اس معنی میں وہ بدقسمت بھی تھے کہ انہیں اچھے نقاد نہیں ملے۔” ‘ص: 35’

ب۔ ”بہادر شاہ ظفر کو وہ شاہانہ وقار ایک پل کے لئے بھی نصیب نہیں ہوا جو باہر سے شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر تک ہر مغل بادشاہ کو حاصل تھا مگر وہ بادشاہ اس لئے کہے جاتے تھے کہ دادودہش، اہل علم اور اہل ہند کی قدردانی اور رعایا پروری جیسے شاہانہ اوصاف ان کے مزاج و کردار کا حصہ تھے۔” ‘ص:10’

ج۔ ”سنہ 1857 ہندوستان کی تاریخ میں ایک ایسی خونیں لکیر کانام ہے جو وقت کے ساتھ مدہم ہونے بجائے نمایاں ہوتی جارہی ہے اس کو ایک عہد کا خاتمہ کہیں تو درست اور ایک عہد کا آغاز کہیں تو درست۔ ایک عہد کا آغاز اس لئے کہ اس کے صرف 90 سال بعد انگریز آزادی کی متعین تاریخ سے پہلے ہی ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔” ‘ص:10’

نئے ماخذ کی نشاندہی، ان پر بحث اور واقعات کی تاریخ وار ترتیب پیش کرنے کے بعد شمیم طارق نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ کتاب کا حاصل ہے۔

”سنہ 1857 کے سوسال پہلے ہی سے ہندوستان لاشعوری طور پر انگریزوں کے خلاف جنگ کی تیاری کررہا تھا۔

”سنہ 1857 میں افراتفری تھی اس کے باوجود ہندوستان کے طول و عرض میں ہی نہیں دلی کے محاذ پر بھی انگریزوں کو شکست ہورہی تھی اس شکست کو انگریزوں کے ہندوستانی جاسوسوں اور ایجنٹوں نے فتح میں تبدیل کیا اور وہ اس طرح کے انہوں نے کبھی پُل اڑا کر، کبھی بارود خانوں اور توپوں کو تباہ کرکے، کبھی حملے کی پیشگی خبر سے انگریزوں کو خبردار کرکے اور کبھی مسلح مزاحمت کرنے والوں میں اختلاف پیدا کرکے انگریزوں کی مدد کی۔” ‘ص:64’

یہ کتاب نہایت جامع اور پراز معلومات ہے، حوالوں حاشیوں سے سجی ہوئی ہے، انداز بیان اتنا پر اثر ہے کہ ایک بار ہاتھ میں آجائے تو ختم کئے بغیر نہیں رہا جاتا۔ قاری جگہ جگہ چونکتا ہے۔ یہی اس کتاب کا کمال ہے کہ قاری جہاں چونکتا ہے وہاں بھی مصنف سے اختلاف نہیں کر پاتا کیونکہ چونکا دینے والا ہر انکشاف یا اخذ کیا گیا ہر نتیجہ نہ صرف مدلل بلکہ متوازن بھی ہے۔

مختصر لفظوں میں شمیم طارق کی دونوں کتابیں غالبیات میں نئے دریچے واکرتی ہیں۔ ان کی حیثیت ایک مصدر و مرجع کی ہے۔ شمیم طارق پر پتھراؤ کرنے سے ان کتابوں کی اہمیت کم نہ ہوگی۔ وقت کے ساتھ ان کی اہمیت بھی بڑھے گی اور مقبولیت بھی۔ یہ پیشن گوئی گزشتہ 6 برسوں کے تجربات کا خاصہ ہے جن میں : ”غالب اور ہماری تحریک آزادی” کو اہم کتاب تسلیم کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا ہے.

ایک بات اور جو بہت اہم ہے وہ یہ کہ اس کتاب کا خاتمہ انہوں نے  اپنے اس مفکرانہ جملے سے کیا جس کو پیش کرنا ضروری  ہے کیوں کہ آج دنیا جس معاشی بد حالی اور استحصال کی جس حد کو چھو چکی ہے  وہاں سے ایسے جملے کی توقع لوگ ختم کر چکے ہیں۔ وہ جملہ ہے:

‘‘وہ معاشی محرکات (جو غلام ہندوستان  کو مجبور کر دیتا ہے آزادی کی جنگ کے لیے) آج بھی موجود ہیں اور پھر پہلے تو ایک ہی ایسٹ انڈیا کمپنی آئی تھی مگر اب ملٹی نیشنل کی شکل میں بہت سی ایسٹ انڈیا کمپنیاں سر گرم  عمل ہیں۔ اس لیے  سیاسی آزادی  حاصل ہونے کے باوجود معاشی ازادی کی جد جہد جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔’’

اگر اس بات  پہ غور کری تو یہ صاف اندازہ ہوتا ہے کہ جو کچھ 1857 کی جنگ  آزادی کی وجہیں تھیں  کم و بیش ویسی ہی صورت حال اب بھی موجود ہے۔ جس سیاسی آزادی کی بات شمیم طارق صاحب نے  کی ہے وہ حاصل نہیں تھی  اور اب حاسل ہے۔ ورنہ ظلم و تشدد کی شکل اور بھی بگڑی ہوئی ہے۔ پہلے قوانین  کی آڑ میں ظلم ہوتا تھا اب قوانین ظلم کے لیے ہی بن رہے ہیں۔شمیم طارق  صاحب کا یہ خطبہ  محض نہیں بلکہ ایک پر مغز تحقیقی مقالہ ہے، جس سے حوالے کے طور پر پیش کرنے والے   مستفیض ہو تے رہیں گے۔

اس کتاب ” غالب: بہادر شاہ ظفر اور سنہ 1857” میں شمیم طارق صاحب سے اختلاف کی بہت گنجائش ہے لیکن انہوں نے ماخذ کے طور پر جن حوالوں کو پیش کیا اس کی بنیاد پر انہیں رد نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس سے غالب بہادر شاہ ظفر اور 1857 کے متعلق مزید تحقیق کے در کھلتے ہیں۔

About admin

Check Also

دینی مدارس پر ایک معروضی نظر

                              …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *