کتاب: غضنفر کا فکشن
نام مصنف : سلمان عبدالصمد
ناشر: دائمی پرواز ایجوکیشنل سوسائٹی ، لکھنو
صفحات:138
قیمت:160(مجلد )
مبصر : فیاض احمد ، علی گڑھ یوپی
پیش نظر کتاب’’ غضنفر کا فکشن‘‘ جواں سال قلم کار سلمان عبدالصمد کی تازہ ترین تنقیدی کاوش ہے۔ جن میں انہوں نے تنقیدی شعور کو بیدار رکھتے ہوئے بحیثیت ایک روشن دماغ قاری غضنفر کی تخلیقی نثر کا مطالعہ کیا ہے۔ غضنفر نے اپنی نثری تخلیقات میں کئی طرح کے تجربات کیے ہیں۔ اپنے فکروفن کو نکھارنے کی کوشش ان کے ہر ناول میں نظر آتی ہے ۔قاری کو اپنی گرفت میں رکھنا ان کے فکشن کی خوبیوں میں سے ایک ہے ۔ یہی وجہ رہی ہے کہ انہوں نے ایک ایسے قاری کو ڈھونڈ نکالا جسے تخلیقی ادب سے تعلق تو ہے مگر ناول سے کسی حد تک بیزاری تھی ۔
جواں سال قلم کار اور مصنف سلمان عبدالصمد کی کتاب ’’غضنفرکا فکشن ‘‘کے مطالعے کے بعد یہ رائے بنتی ہے کہ سلمان عبدالصمد کے متعلق لکھے گیے ادیب اور صدر شعبہ اردو پروفیسر ابن کنول اور انور پاشا کے جملے سے مکمل طور پر اتفاق نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ کیوں کہ سلمان نے تنقید کا مکمل حق اد ا نہیں کیا ہے ، البتہ ایم اے کے طالب علم سے جنتی امید کی جاسکتی ہے ، اس سے کہیں بڑھ تنقیدی شعور کو بیدار رکھا ہے ۔رہی یہ بات کہ تنقیدی کاوش میں تنقید کا گہرا رنگ نہ ہو تو کیسے اس کی تحسین کی جاسکتی ، خواہ یہ تنقیدی کاوش ایک طالب کی ہو یا ایک منجھے ہوئے نقاد کی۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی باک نہیں کہ تنقیدی انحطاط کے موجودہ منظر نامے میں ایک طالب علم کی ایسی کاوش کو بہ نظر استحسان دیکھا جانا اشد ضروری ہے ۔ اس زاویہ سے ’غضنفر کا فکشن‘ پر لکھے گیے ابن کنول اور انور پاشا کے ہر ایک جملہ سے اتفا ق کرنے کا جواز پیدا ہو ہی جا ہے ۔ڈاکٹر واحد نظیر کا یہ کہنا’’علمی انحطاط کے اس دور میں جب کسی موضوع پر دوچار مضامین پڑھ کر الگ مضمون بنا لینے کار ویہ ناقدانہ شعار بن چکا ہو ، اپنی گفتگو کا محور خالص متن کو قراردینا جہاں مروجہ سہل پسندی کی شکست کا اعلان ہے ، وہیں لکھنے والے کی بنیادی صلاحیتوں کو بھی اجاگر کرتا ہے ‘‘ بالکل بجا ہے ۔ انحطا ط اور بد دیانتی کے اس دور میں اوریجنل متن پر تنقید کی اساس قایم کرنا اور تنقید کی دہلیز آکر فکشن کے تجزیہ پر توجہ مبذول کرنا اچھی علامت ہے اور لائق داد وتحسین بھی ۔
غضنفر کے ناولوں پر کچھ کم نہیں لکھا گیا ، ہرلکھنے والوں کا اپنا اپنا اندازہے ، سوچنے اور فکشن کوپرکھنے کا طریقہ ہے ، غضنفر کے ایک ہی ناول پر لکھے گیے مختلف مضامین کارنگ الگ نظر آتا ہے ،اس لحاظ سے ’’غضنفرکا فکشن ‘‘کارنگ بھی جداگانہ ہے ۔ اس کتاب کا اسلوب تحریر بھی پرکشش ہے ۔غضنفر کے ناولوں کے کردار کا تجزیہ بھی اچھے انداز کیا گیا ۔ کردار کے تعلق سے ’’دیویہ بانی کا زہر‘‘اور ’’کینچلی کے تانے بانے‘‘ میں پرکشش طریقہ اختیار کیا گیا ۔ لفظوں کے انتخاب اور عناوین کے لیے بالکل موزوں الفاظ کے استعمال نے بھی اس کتاب کی دلکشی بڑھادی ہے ۔ غضنفر کے ناولوں اور کتابوں کے نام کچھ اس طرح ہیں ۔ ’پانی ، مم ، حیرت فروش ، مانجھی ،سرخ رو‘ وغیرہ ۔ ظاہر ہے ان کتابوں کے مطالعے کے بعد بھی ایسے عناوین قائم کیے جاسکتے ہیں ، ’’مانجھی کی پتوار ، پانی کی خشکی ، سرخ رو کا سفید رنگ ، شوراب کی ٹپکتی بوندیں‘‘۔ان عناوین میں جتنی دلکشی ہے ،اتنی ہی ناولوں کے تھیم سے قربت بھی ۔ ناول کے نام ساتھ فقط کوئی دوتین لفظوں کو جوڑ کر پوری کہانی کی جھلک دکھانا اپنے آپ میں ایک ہنرمندی ہے ۔ خاکوں کا مجموعہ’سرخ رو‘ جسے سلمان نے غضنفر کے فکشن میں شمار کیا ہے ، کے عناوین میں دلکشی ہے ، یہی دلکشی ’غضنفر کافکشن‘کی فہرست میں نظر آتی ہے ۔
زبان کی شگفتگی کا احساس پوری کتاب میں ہوتا ہے ۔ تنقیدی بصیرت کو کس قدر بروئے کار لانے میں کتنی کامیابی ملی ہیں ، مگر اتنا ضرور ہے اس کتاب کو کہ تنقید سے کسی بھی طرح الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا ہے ۔ نوجوانوں میں تنقیدی میلان کا پایا جانا اچھی علامت ہے ۔ سلمان نے بھی ’’ باتیں دل کی ‘میںایسا کچھ واضح نہیں کیا ہے کہ یہ کتاب تنقیدی نقطہ نظر لکھی گئی ہے یا تبصرہ یا پھر غضنفر کے ناولوں کا موضوعاتی مطالعہ ہے ۔ بلکہ یہ لکھا کہ غضنفر کے ناولوں کی قرأت کے بعد جو رائے بنی اسے سپرد قلم کردیا اور رائے قائم کرنے میں کسی کی رائے کی آمیزش تک نہیں ہے ، حتی کہ غضنفر پر لکھے گیے مضامین اور کتابوں سے خود کو الگ رکھا ۔
مختصر یہ کہا جاسکتا ہے کہ تنقیدی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ایک طالب سے جو امید کی جاسکتی ہے ، اس سے بڑھ اس کتاب میں تنقید ہے ، البتہ تنقید کا اعلی اور افضل ترین نمونہ تلاش کرنا تو فضول ہے اور نہ ہی تنقید کے اسے الگ کرکے دیکھا جاسکتا ہے ۔