Home / Socio-political / غلاموں کی کون سنتاہے

غلاموں کی کون سنتاہے

بے حیائی، بے غیرتی، بے حسی، خودغرضی، درندگی، وحشت ،سفاکی اور ایسے سارے الفاظ مجسم دیکھنے ہوں تو ان نام نہاد بڑوں کو دیکھئے جن کے ساتھ مرعوب ذہن، چاپلوس، خوشامدی بونے تصویریں کھنچوانا باعث ِافتخار سمجھتے ہیں، پھر انہیں اخباروں میں چھپواتے اور اپنے ڈرائنگ روموں میں اہتمام سے سجاتے ہیں۔ ایسی مکروہ تصویروں کے لیے جگہ بھی ایسی منتخب کی جاتی ہے کہ آپ اندر داخل ہوں تو سامنے وہ نظر آئے اور آپ کہہ اٹھیں: اچھا تو یہ آپ ہیں!بہت تعلقات ہیں آپ کے اور وہ بونا مصنوعی خاکساری اوڑھ لے اور کہے، بس جی ہم تو بہت چھوٹے لوگ ہیں۔ یہی ایک بات وہ سچ بولتے ہیں۔ کسی ایک ملک کی بات نہیں، ہر جگہ کم و بیش ایسی ہی صورت ِ حال ہے، نظامِ زر کے پجاری ہر جگہ چھائے ہوئے ہیں۔

 ہمارے یہاں تو آپ دیکھتے بھی ہیں۔ سڑکوں پر شاہراہوں پر ہر وقت ہٹو بچو کا آوازہ اور ہوٹر کی منحوس آواز․․․․․․․․․ان کا بس چلے تو وہ آپ کو روند کر نکل جائیں۔ آپ نے تو مشاہدہ کیا ہوگا ،ہوسکتا ہے آپ کو تجربہ بھی ہوا ہو کہ اگر آپ غلطی سے بھی ان کی گاڑی سے آگے نکل جائیں تو بونے کی گاڑی کی حفاظت پر مامور بندوق بردار آپ کا جینا حرام کردیں گے اور یہی بونے جب بیرون ملک جائیں تو ان کے بیلٹ اتروائے جاتے ہیں، برہنہ کیا جاتا ہے تضحیک کی جاتی ہے، گھنٹوں پوچھ گچھ ہوتی ہے انہیں اور ان کے سامان کو کتے سونگھتے ہیں اور وہ یہ سب مسکراتے ہوئے جھیلتے ہیں اور مہذب نظر آنے کی اداکاری کرتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ وہ نہیں جانتےِ خوب جانتے ہیں کہ خلقِ خدا انہیں کیسی کیسی گالیاں دیتی ہے، انہیں کیسے القابات سے نوازتی اور ہاتھ اٹھاکر بددعائیں دیتی ہے۔ لیکن وہ کمال ڈھٹائی سے ارشاد فرماتے ہیں:

عوام تو ہمارے ساتھ ہیں۔ ظاہر ہے جہاں بندوقوں کی زبان میں بات کی جاتی ہو وہاں دلائل دم توڑ دیتے ہیں۔ کیا طاقت اس لیے حاصل کی جاتی ہے کہ معصوم انسانوں کو غلام بنایا جاسکے؟ انہیں سدھایا ہوا جانور بناکر اپنے مفادات حاصل کیے جاسکیں؟ جی اِس وقت تو یہی منظر ہے۔ سامراج نے کیسے کیسے ناٹک رچائے ہیں․․․․․․․․قتلِ عام کے ناٹک،ناٹک میں تو اداکاری ہوتی ہے، لیکن یہاں تو انسانیت کا قتل عام جاری ہے۔ اپنے مفادات کے تحفظ، اپنے زر میں اضافے کے لیے معصوموں کو مارا جاتا ہے۔ دنیا کو اپنی جاگیر سمجھنے والا امریکا موت کا سوداگر بنا ہوا ہے۔ وہ جو چاہے کرتا پھرے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ البتہ قصیدے پڑھے جاتے ہیں اور یہ قصیدہ خواں عوام نہیں، عوام پر ان کے مسلط کردہ نمک خوار ہیں جنہیں وہ عوامی نمائندے کہتے ہیں۔

ہر جا سام راج کے پجاریوں کا راج․․․․․․․ خوابوں، آرزوں اور امیدوں کو روندتا ہوا بدمست ہاتھی۔ ترقی یافتہ ممالک خاص کر امریکا جو عربوں اور اربوں کے وسائل پر قابض ہے اور لاکھوں انسانوں کا قاتل․․․․․․․جس کے اپنے قوانین ہیں․․․․․․․بس جو اس نے کہہ دیا وہی بات درست ہے، باقی تو سب اصول و قوانین لایعنی ہیں۔ انسانیت کے قتل عام کے لیے دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا تاجر اور انسانوں کے وسائل پر بزور قوت قبضہ کرلینے والا، خوبصورت لفظوں کے پردے میں صرف اپنے مفادات کا اسیر․․․․․․․ہمارے بنو یا مرجاوٴ کے اصول پر کاربند․․․․․․․برابری، مساوات، حقوق انسانی کا راگ الاپ کر آگ و خون کا بازار سجانے والا امریکا اور دنیا بھر میں اپنے ضابطے مسلط کرنے کے لیے اقوام متحدہ کا ہتھیار رکھنے والا.․․․․․․․وہ اقوام متحدہ جو اس کا زرخرید غلام ہے، اور پھر ویٹو کردینے کا بے سرا جواز․․․․․․․یہ سب کچھ وہ صرف اور صرف اپنے نظام زرکو بچانے کے لیے کرتا ہے، اس میں انسانیت کا درد کہیں نظر نہیں آتا۔

 پورا عالم جانتا ہے امریکی کرتوتوں کو، لیکن بس وہ خود نہیں جانتے کہ انسانیت انہیں کس نام سے پکارتی ہے۔ جانتے وہ سب ہیں لیکن بے شرمی کی بے غیرتی اور بے حسی کی تاریخ بھی تو رقم کی ہے اس نے۔ جہاں اسے اپنے مفادات خطرے میں نظر آتے ہیں، وہ وہاں پر اصول و قانون کو پامال کرتا ہوا جا گھستا ہے اور اسے وہ وہاں کے عوام کی مدد قرار دیتا ہے۔ بدنام زمانہ عقوبت خانوں کا ایک سلسلہ ہے جہاں انسانیت سسک رہی ہے، مہلک ترین ہتھیار آزمائے جارہے ہیں۔ جاپان کی زمین اب تک اپاہچ بچے پیدا کرتی ہے اور ایٹم بم کی تباہ کاریوں کو بتانے کے لیے دنیا بھر میں اسٹیج ڈرامے دکھائے جاتے ہیں۔ یہ انسانیت کے قاتل کون ہیں، یہ بتانے کی ضرورت ہے کیا؟ لیکن وہ جہاں داخل ہوا، وہاں پھنس کے رہ گیا۔ سر جھکا کر جینے سے بہتر ہے باوقار موت کا سامنا کیا جائے۔ ہر جگہ مزاحمت ہے، سب اپنی اپنی سطح پر مزاحمت کرتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں۔

امریکی استعمار کے سامنے سر جھکانے سے انکاری، یہ سر پھرے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں لیکن خون رائیگاں نہیں جاتا، مزاحمت شدید سے شدید تر ہوتی چلی جارہی ہے اور امریکی خجالت چھپائے نہیں چھپتی۔اگرآپ بھول گئے ہیں تومیںآ پ کویادکرائے دیتاہوں۔ عراق کے الوداعی دورے کے دوران جہاں امریکی صدر بش نے ایک معاہدہ بھی کرڈالا تھاکہ عراق میں امریکی افواج ۲۰۱۱ء تک رہیں گی۔ پریس کانفرنس کے دوران البغدادیہ ٹی وی چینل کے لیے کام کرنے والے جواں سال صحافی منتظر الزیدی نے اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے صدر بش کو جوتا کھینچ مارا۔ پہلا جوتا پھینکتے ہوئے منتظرالزیدی نے بش کو خبیث کتا کہا، دوسرے پر وہ چیخ پڑا: یہ عراق کی بیواوٴں، یتیموں اور ہلاک ہونے والے تمام افراد کی طرف سے ہے۔

 اب بھی عرب ٹی وی بش کی وزیر خارجہ کونڈولیزارائس کو ”کندارا“ یعنی جوتے کا تسمہ کہتے ہیں۔ ۲۰ستمبر۲۰۰۶ء کو وینزویلا کے صدر ہوگوشاویز نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں جارج بش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شیطان کا لفظ استعمال کیاتھا۔ انہوں نے مزیدیہ کہا” کل یہاں شیطان آیا تھا اور ایسے بات کررہا تھا جیسے وہ دنیا کا مالک ہو“۔ ۱۰مارچ ۲۰۰۷ء کو ارجنٹائن کے شہر بیونس آئرس میں سامراج کے خلاف ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ہوگوشاویز نے صدر بش کوسیاسی لاش کہاتھا۔ امریکی وزیر خارجہ نے اپنی خجالت چھپاتے ہوئے منتظرالزیدی کے نفرت انگیز احتجاج کو عراق کی آزادی کہا تھا۔ صدر بش نے صرف اتنا کہا: اگر آپ حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو وہ یہ ہے کہ جوتے کا نمبر دس تھا، عراقی صحافی کیا چاہتا تھا میں نہیں جانتا۔ قصرسفیدکافرعون بش بہت اچھی طرح سے جانتاتھا کہ منتظرالزیدی مظلوم انسانیت کی آواز ہے اور سا مراج کی خوں آشامیوں پر انسانیت کا گریہ، مظلومیت اور بے بسی کا شاہکار اور جبر کے سامنے سر جھکانے سے انکاری مزاحمت کاروں کا ترجمان۔ کیامنتظرالزیدی کی ٹوٹی ہوئی پسلیاں اور اس پر سفاکانہ تشدد کے نشانات آزادی کا مظہر ہیں؟

زندگی ماہ و سال کا نام نہیں، لمحوں میں ہوتی ہے زندگی۔ منتظرالزیدی نے تووہ لمحہ رقم کردیا جو امر ہوگیا اب چاہے اسے تختہٴ دار پر بھی کھینچ دیاجاتااتواسے کوئی پرواہ نہیں تھی۔ اس نے تو امریکی سامراج کے منہ پر تھوک دیا اوراس کے بعدکئی افرادنے اس طریقے کواپناکرنفرت کااظہاربھی کیا۔۔ یقینا امریکی سامراج کی شامِ غریباں برپا ہونے والی ہے لیکن ہم آج بھی خوفزدہ ہیں۔بھارتی اداکارشاہ رخ کوامریکی ہوائی اڈے پردوگھنٹے روک لیاگیاجس کیلئے امریکاکوباقاعدہ معافی مانگناپڑی ،ہم نے نیٹوسپلائی کی بحالی کیلئے شرط رکھی کہ سلالہ پرہمارے نوجوانوں کی شہادت پرمعافی مانگی جائے لیکن غلاموں کی کون سنتاہے۔پارلیمنٹ کے توسط سے نیٹوسپلائی کھولنے کاتوایک بہانہ ہے ،معاملات توپہلے ہی طے ہوچکے ہیں۔ کچھ بھی تو نہیں رہے گابس نام رہے گا میرے رب کا۔

 زمانے والے جسے سوچنے سے خائف تھے وہ بات اہلِ جنوں محفلوں میں کرتے رہے

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *