Home / Socio-political / فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت: میلہ پھول والوں کی سیر

فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت: میلہ پھول والوں کی سیر

فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت: میلہ پھول والوں کی سیر

                                                                                       ابرار احمد اجراوی *

تین ہزار سال سے زیادہ قدیم شہردہلی کی پیشانی پر ماضی کی عظمتوں کے نقوش کندہ ہیں۔ دہلی ایک شہر ہی نہیں،  مشرقیت سے عبارت بین الاقوامی تہذیب وتمدن کا جلی عنوان بھی ہے۔ مغلیہ عہد کی یادگار عمارتیںقطب مینار، لال قلعہ، جامع مسجد، ہمایوں کا مقبرہ اور انگریزی عہد سے منسوب راشٹر پتی بھون، انڈیا گیٹ جیسے عالمی شہرت کے حامل مقامات کو اپنی گود میں لیے ہونے کی وجہ سے دہلی عالم میں انتخاب کہلاتی ہے۔ اورعالمی راثت کے حامل شہروں کی فہرست میں اندراج کی چوکھٹ پر دستک دے چکی ہے۔ دستور اور آئین کی روشنی میں میسر حقوق کی بناء پرہمارا ملک ہی جمہوری اور سیکولر اقدار کا علم بردار ہے، لیکن دہلی نے جمہوریت اور سیکولرازم کے اصول کی پاسدار ی اور اس کو فروغ دینے میں ملک کے دوسرے شہروں سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیاہے۔ یہاں ہندو، مسلمان، سکھ ، پارسی، عیسائی، جین اور بودھ سبھی بھائیوں کی طرح بستے ہیں۔ پانڈؤوں اور مغلوں کے زمانے سے لے کر دہلی کی موجودہ تاریخ کے مدو جزر پر نظر ڈالیے،  تو پتہ چلے گا کہ سارے فرقے نے اپنا خون جگر پلاکر اس شہر کو سیراب کیا ہے۔

 جمنا کے دائیں کنارے آباد اس شہر کے مقام پر دوسرے ناموں سے تقریبا پندرہ شہر آباد ہو چکے ہیں۔ یہاں کئی سلطنتیں قائم ہوئیں، رعب وجلال والے مختلف بادشاہوں نے اس پر حکومت کی، فاتحانہ جذبوں اور جنگی خواہشات کی تکمیل میں اس شہر کا تقدس اور وقار بار بار پامال ہوا، محمد شاہ اورنادر شاہی جنرل احمد شاہ نے ہی صرف اس شہر کوتاخت وتاراج نہیں کیا، بلکہ مرہٹوں، جاٹوں، سکھوں اور روہیلوں نے بھی اس کی عزت وآبرو سے کھلواڑ کیا۔ دہلی اجڑتی اور بستی رہی ، مگر دہلی کی تہذیب، اس کی اقدار اور وضع داری ،اور اس کے عالمی تمدن پر کبھی موت طاری نہیں ہوئی۔ جو دہلی آتا وہ دہلی کے فن وثقافت اور اس کی گلیوں اور حویلیوں پر اس قدر فریفتہ ہوتاکہ یہیں کا ہوکر رہ جاتا، ابراہیم ذوق نے اسی لیے تو کہا تھا:

ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر سخن

کون جائے ذوق پر دلی کی گلیاں کی چھوڑ کر

دہلی ہمیشہ سے مختلف قوموں، متنوع نسلوں اور کئی مذہبی اکائیوں کا گہوارہ رہی ہے۔ قرون وسطی کے حکمرانوں اور مغلوں نے تہذیبی مماثلت اور قومی یک جہتی سے عبارت دہلی کی اس شانداتہذیب کو نہ صرف بڑھاوا دیا، بلکہ فراخ دلی کا ثبوت دیتے ہوئے اس کے نقش ونگار میں گراں قدر اضافہ بھی کیا۔ مذہبی رواداری، بقائے باہم، قومی یک جہتی، تہذیبی یکسانیت اور ایک دوسرے کے رنج وغم میں شرکت ا س شہر کی تاریخ رہی ہے۔ شاہان ہند نے نہ صرف مشترکہ تہذیب وثقافت کی جم کر حوصلہ افزائی کی، بلکہ مذہبی حدود کو توڑتے ہوئے، غیر مسلم عورتوں سے شادی کرکے انھیں اپنے محل سرا میں مناسب جگہ دی۔ انھوں نے ہندو اور مسلم کے درمیان تفریق اور امتیاز کو کبھی روا نہیں رکھا۔ مسلم بادشاہ جس طرح عید، محرم اور دوسرے درباری تہواروں میں شریک ہوتے تھے، اسی طرح غیر مسلموں کے تہوار ہولی اور دیوالی میں بھی شرکت کو اپنا قومی اور وطنی فریضہ تصور کرتے تھے۔ تاکہ کسی قوم کے اندر تعصب اور مذہبی بنیاد پر تفریق کی شکار نہ ہو۔ اور ملک امن وسلامتی کے ساتھ ترقی اور خوش حالی کی راہ پر گامزن رہے۔

دہلی کے چنندہ تہواروں میں سے ایک تہوار پھول والوں کی سیر یا سیر گل فروشاں بھی ہے، جومابعد آزادی،  اپنے آغاز ثانی سے لے کر آج تک مسلسل دہلی میں حکومتی سطح پر منایا جاتا ہے ، اس کی افتتاحی اور اختتامی تقریب میں ہمارے قومی حکمراں اور افسران خندہ پیشانی کے ساتھ شریک ہوتے اور اس کا اہتمام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔  یوں تو دہلی میں حکومتی سطح پر بہت سے تہوار آج بھی جوش وخروش کے ساتھ منائے جاتے ہیں، جن میں مذہبی تہوار بھی ہیں اور غیر مذہبی بھی، لیکن پھول والوں کی سیر کو ان تمام تہواروں میں اپنی رنگا رنگی کی وجہ سے جو امتیاز اورمقا م حاصل ہے، وہ دوسرے تہواروں کو حاصل نہیں۔ یہ ایسا سالانہ تہوار ہے، جس میں دہلی کی صدیوں پرانی مشترکہ تہذیب کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ اس میلے سے دہلی کی شناخت قائم ہے۔ غالب نے صحیح کہا تھا:’’مغل سلطنت کے دارالحکومت دلی شہر کی شناخت چار چیزوں سے تھی، جن میں سے ایک پھول والوں کی سیر بھی تھی۔‘‘

پھول والوں کی سیر ایک تاریخی میلہ ہے، ایسا میلہ جس کے آغاز وابتداء کی پوری کہانی شاہی ادورا میں مرتب ہونے والی تاریخوں میں بڑے اہتمام کے ساتھ محفوظ ہے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ متحدہ ہندستان کے مشہور بادشاہ اکبر شاہ ثانی( عہدحکومت:۱۸۳۷- ۱۸۰۶ ء)کے چہیتے بیٹے مرزا جہاں گیر نے لال قلعے میں مقیم ایک انگریز ریزیڈنٹ اسٹین کو کسی ناگوار خاطر بات پر طمانچہ رسید کردیا۔ اس فرنگی کو صاحب عالم کی یہ حرکت پسند نہ آئی۔ اس وقت بادشاہ وقت انگریزوں کے وظیفہ خوار تھے۔ لال قلعہ کے تخت طاؤس پر متمکن تو اکبر شاہ ثانی تھے، مگر حکم کمپنی بہادر کا ہی چلتا تھا۔  انگریز نے اس ہتک آمیز واقعے کی پوری تفصیل کمپنی کو لکھ بھیجی ، تنبیہ کے طور پر یہ سزا تجویز ہوئی کہ تربیت کے لیے شاہزادے مرزا جہاں گیر کو نظر بند کرکے الہ آباد بھیج دیا جائے۔ جہاں گیر کی ماں نواب ممتاز محل کو اپنے لخت جگر کی جدائی کس طرح راس آتی۔ رو رو کر ا ور کلیجہ پیٹ کر ان کا برا حال ہو گیا، مگر کمپنی کے حکم کے سامنے بادشاہ کیا، کسی کو بھی چوں چرا کرنے کی ہمت نہ تھی۔ مہارانی نے خدا کے حضور یہ منت مانی کہ جب ان کے نورنظر مرزا جہاں گیرکو الہ آباد سے رہائی ملے گی، تو وہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھائیں گی۔ خدا کے فضل و کرم سے مرزا جہاں گیر اسٹین کے ہی حکم سے رہا ہوکر بسلامت قلعۂ معلی لوٹ آئے۔ خوشی میں الہ آباد سے لے کر دہلی تک پورے راستے میں شاہی طرز پر ان کا زوردار استقبال کیا گیا اور خوشی کے شادیانے بجائے گئے۔ حسب منت بیگم نے اپنی منت پوری کرنے کے لیے شاہی آن بان اور ڈھول تماشے کے ساتھ آستانۂ پاک پر چادر چڑھائی ۔ اس مخصوص درباری تقریب میں شہر دہلی کے ہندو اور مسلمان دونوں نے شرکت کی، مہرولی میں کئی دنوں تک میلہ لگا رہا۔کیا ہندو اور کیا مسلم، سبھی ایک دوسرے کے بغل میں ہاتھ ڈالے، منھ میں پان کی گلوری ڈالے مٹر گشتی کرتے پھرتے تھے۔ بیگم اوربادشاہ وقت کو  پھولوں پر مشتمل چادر چڑھانے کی یہ تقریب اور ہندو مسلمانوں کا مشترکہ میلہ بڑا پسند آیا اور دربار میں یہ تجویز پاس ہوئی کہ یہ میلہ ہر سال بھادوں کے مہینے میں لگایا جائے۔ مہیشور دیال صاحب نے اس میلے کے تاریخی پس منظر پر اس طرح روشنی ڈالی ہے:’’بادشاہ کو یہ میلہ اتنا پسند آیا کہ انھوں نے یہ تجویز کی کہ ہر سال بھادوں کے شروع میں یہ میلہ ہوا کرے اور مسلمان درگاہ شریف پر پر پنکھا چڑھائیں اور ہندو جوگ مایا جی کے مندر پر ، مگر دونوں ہی جگہوں پر ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوں۔‘‘( عالم میں انتخاب- دلی، ص: ۴۹۲، اردو اکادمی دہلی، ۲۰۰۹ء)یہاں یہ بات دل چسپی سے خالی نہ ہوگی کہ راجا یدھسٹر کے عہد کے تعمیر شدہ جوگ مایاجی کے مندر کی از سر نو تعمیر بھی اکبر شاہ ثانی نے کرائی تھی۔

اس طرح پھول والوں کے اس میلے کا آغاز ہوا، جس کو مؤرخین سیر گل فروشاں کے نام سے بھی تعبیرکرتے ہیں۔ آخری مغل تاج دار بہادر شاہ ظفر( عہد حکومت: ۱۸۵۸- ۱۸۳۷ء) نے ہندو اور مسلمان کے مابین مودت ومحبت اور قومی یک جہتی کے تصور کو فروغ دینے کے لیے اس تہوار میں اتنی دل چسپی کا مظاہرہ کیا کہ اپنی حین حیات انھوں نے اس میلے کوترقی کی معراج پر پہنچادیا۔ شاہان وقت اتنے انصاف پسند اور عدل پرور ہوتے تھے کہ وہ جوگ مایا مندر اور خواجہ کے مزار دونوں جگہ خود حاضر ہوتے تھے اور اگر کسی وجہ سے پھول والوں کے قافلے کے ساتھ پہلے دن جوگ مایا مندر میں حاضری ان کے لیے ممکن نہ رہتی تو وہ اگلے روز خواجہ کی درگاہ پر بھی نہیں جاتے تھے، تا کہ ہندو مسلم کسی فریق کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک بار مسلمان بہادر شاہ ظفر کے سامنے بضد ہوگئے کہ قطب صاحب کی درگاہ حضور کی قیام گاہ سے قریب ہے، ہمارے پنکھے کے جلوس کے ساتھ چند قدم چلے چلیں، توانھوں نے کہا:’’کل ہندؤوں کے پنکھے کے ساتھ گیا ہوتا تو تمھارے پنکھے کے ساتھ ضرور چلتا۔ آتش بازی ہندو مسلمان دونوں کی طرف سے چھوٹے گی اس میں شریک ہوں گا۔‘‘(دلی جو ایک شہر تھا، ص:۱۶۹، اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ۲۰۰۳ء)

مہینے بھر چلنے والے اس میلے کی بھرپور عکاسی مہیشور دیال کے ان جملوں سے ہو جاتی ہے۔ لکھتے ہیں:’’مہرولی میں مہینوں پہلے سے ٹھہرنے کے بندو بست کیے ہوتے، مکان، کوٹھے، کوٹھریاں، باغ باغیچے سب آباد ہوجاتے۔ تل دھرنے کو جگہ نہ رہتی۔ مہرولی کے بازار کی کایا پلٹ جاتی۔ دکانیں خوب سجتیں۔ دکانوں کے اوپر کوٹھے بھی بڑے قرینے سے سجائے جاتے تھے۔ جھاڑ فانوس، ہانڈیاں لٹکائی جاتی تھیں۔ یار لوگ نہایت نفیس کپڑے پہنے جوئی کے کنٹھے اور موتیا کے ہار گلے میں ڈالے، عطر کے پھوئے کان میں اڑسے، پان چبائے، حقے کا دم لگاتے۔ سیر کا لطف اٹھاتے گھومتے پھرتے۔ بھیڑ اتنی ہوتی کہ کھوئے سے کھوا چھلنے لگتا اور گزرنا مشکل ہو جاتا۔‘‘( عالم میں انتخاب- دلی، ص: ۴۹۵)

شاہی دورختم ہوگیالیکن جوگ مایا مندر اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھانے کی یہ تقریب آج بھی زندہ ہے۔

۱۸۵۷ء کی شکست و ریخت اور خون خرابے نے دہلی کی دوسری روایتوںاور ان کے تاریخی حسن وجمال کو متأثر کیاہی، انگریزوں کی سماج دشمن پالیسی اور ہندو مسلم کے درمیان شر انگیزی کی مہم سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی یک جہتی کا نمونہ میلہ پھول والوں کی سیر بھی محفوظ نہ رہ سکا۔ بہادر شاہ ظفر کے رنگون جلا وطن کردیے جانے کے بعد یہ میلہ ضرور جاری رہا، مگر بادشاہ کی سرپرستی اور ان کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے جو رونق، چہل پہل، شان وشوکت،  اخوت و بھائی چارگی اور اتحاد ویک جہتی کی جومسرت بخش فضا قائم رہتی تھی، وہ سب ماضی کی تاریخ کا حصہ بن گئی۔ اس میلے کا وہ زور وشور باقی نہ رہا جس کے لیے یہ میلہ دہلی کے ہندو مسلم، بوڑھے، جوان، بچوں، عورتوں اور شاہ وگدا میں مشہور تھا۔مسلم حکومت کے خاتمے کے بعد اگلے ساٹھ ستر سال کے عرصے نے اس روایت کو اتنا کمزور کردیا کہ ہندستان چھوڑو تحریک کے نتیجے میں اس کے باضابطہ بند کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ لیکن جب برطانوی سامراج کے خلاف ہماری مشترکہ کوششوں سے وطن عزیز ہندستان کو انگریزوں کے ناپاک سایے سے نجات مل گئی ، تو نہ صرف دہلی نے کھلی اور صاف فضا میں دوبارہ امن وسکون کی انگڑائی لی، بلکہ ہندو مسلم دوستی کے پرانے اور تاریخی رشتوں کو بحال کرنے کی فکر بھی سرکاری پیمانے پرتیز ہوگئی۔ ملک ضرور دو لخت ہو گیا تھا، لیکن ہندستانیوں کے دل میں ایک دوسرے کے لیے محبت، خیر سگالی پر مبنی جذبات اور قلبی یگانگت کا جو فطری جذبہ تھا، وہ ابھی مرا نہیں تھا۔ چنانچہ آزاد ہندستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہرلعل نہرو نے اس میلے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ۱۹۶۲ء میں اس کو دوبارہ شروع کرنے کا حکم دے دیا۔ اس کی تاریخ میں بھی تبدیلی کردی گئی، اب برسات کے بجائے اس کے انعقاد کے لیے ماہ اکتوبر کا انتخاب کیا گیا۔ اسے تاریخی اتفاق ہی کہا جائے گا کہ یہی سال آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا سواں یوم وفات بھی تھا۔

  اس قدیم تہوار کے ازسر نو احیاء کے حوالے سے انجمن سیر گل فروشاں سوسائٹی نے کلیدی رول ادا کیا ہے۔  بادشاہ، حشم وخدم اور شہزادے شہزادیوں کا تصور تو قصۂ پارینہ بن گیاہے، اور اگرچہ مغلیہ دور جیسی برادرانہ فضا پر مبنی طلسماتی کیفیت کی بحالی ممکن نہیں رہی ہے،  لیکن دہلی حکومت اور موجودہ انتظامیہ کی کوششوں کو نہ سراہنا بڑی نا انصافی ہوگی، کیوںکہ مغلیہ دور کے بادشاہ جس طرح شاہی دھوم دھام کے ساتھ منھ اندھیرے مہرولی پہنچ کر اس تاریخی تقریب کا اہتمام کیا کرتے تھے، دہلی حکومت نے حوصلے سے کام لیتے ہوئے ان روشن رو ایتی نقوش کی تابندگی اور درخشندگی میں اضافہ کرنے میں کوئی کور کسر نہیں چھوڑی ہے۔ یہ تہوار ہمارے مشترکہ تہذیبی وراثت کی یادگار ہے، آج بھی اس تہوار کے موقع پر جہاں مہرولی میں خواجہ قطب الدین بختیارکاکی کی درگاہ پر پھولوں کی چادر چڑھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے، وہیں قریب میں ہی واقع جوگ مایا مندر میں بھی پھولوں کا پنکھاپیش کیاجاتا ہے۔ مشترکہ ثقافت اور قومی یک جہتی کو فروغ دینے کے حوالے سے پھول والوں کی سیر کا یہ میلہ دوسروں کے لیے بھی مشعل راہ اور امن کا پیغام بر ثابت ہوا، دوسری ریاستیں بھی اس تہوار کے لیے روایتی پنکھا بھیج کر ہندو مسلم اتحاد کی اس علامت کو زندہ رکھنے میں اپنا بھرپور تعاون دے رہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ۲۰۱۱ء میںیہ ہفت روزہ تہوار ۲۸؍ نومبر کو گورنر ہاؤس سے شروع ہو ااور اس کا اختتام ۳؍ نومبر کو مہرولی میں درگاہ پر چادر چڑھانے کی تقریب پر ہوا۔ اکیسویں صدی اطلاعاتی انقلاب کی صدی ہے،  ترقی یافتہ ذرائع ابلاغ: ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے توسط سے مشترکہ تہذیب و ثقافت کے ترجمان اس میلے کے ، بھائی چارے پر مبنی پیغام کو دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچایا جا سکتا ہے۔

*ABRAR AHMAD

ROOM NO, 21, LOHIT HOSTEL

JNU, NEW DELHI 110067

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *