Home / Socio-political / فصلِ گل ․․․․․اندیشہ زوال…؟

فصلِ گل ․․․․․اندیشہ زوال…؟

سمیع اللہ ملک


انسان کی تخلیق بے شک خداوند قدوس کا ایک بہت عظیم کارنامہ ہے پھر اس تخلیق کو خالق نے اشرف المخلوقات کہہ کر اس کی عظمت کا معیار بھی مقرر کردیا ،ساتھ ہی زمین آسمان، سورج، پانی ہوا بلکہ ساری کائنات کی تخلیق کر کے انسانی زندگی کے تسلسل کا سامان بھی پیدا کردیا بلکہ یہ حکم بھی صادر فرما دیا کہ کسی ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل سمجھا جائے گا۔ ان واضح احکامات کے باوجود بہت سے فرعونوں، ظالم بادشاہوں ،فوجی اور سیاسی آمروں نے انسانیت کا بے دریغ قتل کرکے اپنے ہاتھ انسانی خون سے رنگے۔ پہلی جنگ عظیم میں انسانوں کا قتل، دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے ہاتھوں چھ کروڑ، جوزف اسٹالن نے ایک کروڑ۴۵لاکھ،ماؤزے تنگ کے چینی انقلاب میں ایک کروڑ۴۰لاکھ ،روبیسٹیرکے ہاتھوں چالیس لاکھ انسانی جانوں کا ضیاع اور جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکہ کا ایٹمی حملہ جس میں نہتے لوگوں کی ہڈیاں بھی راکھ بن گئیں۔

یہ مرنے اورمارنے والے یہ سب افرادغیرمسلم تھے لیکن کیاوجہ ہے کہ ان کریہہ المناظرکوتاریخ کے دبیزپردوں میں چھپا کر صرف مسلمانوں کوموردِ الزام ٹھہرایاجارہاہے ۔ظلم کی انتہایہ ہے کہ بربریت کایہ سلسلہ ابھی تھمانہیں اوراب اس کارخ مسلمانوں کی طرف کردیاگیاہے۔ایک غلط اطلاع پرڈیڑھ ملین سے زائدعراقیوں کوبے رحمی کے ساتھ جہاں قتل کر دیا گیا وہاں ہنستابستاملک کھنڈرات میں تبدیل کردیاگیا،اب جس کوآبادکرنے کیلئے صدیاں درکارہونگی۔ویت نام، کوریا، بوسنیا، کشمیر، فلسطین، عرب اسرائیل اور گلف کی لڑائیوں میں بے پناہ لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ عراق، افغانستان اورکشمیرمیں جو ہو رہا ہے وہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔

قیام پاکستان کے وقت بھی انگریزوں اور ہندوؤں کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے بہت سے بے گناہ انسانو ں کی جانیں موت کی بھینٹ چڑھیں بہرحال اللہ کے نام پر وجود میں آنے والی مملکت پاکستان کے دنیا کے نقشے پر ظہور پذیر ہونے کے بعد یہ سوچا جارہا تھا کہ خدا کی وحدانیت پر یقین رکھنے والے کلمہ گو کم از کم اس سلطنت میں حقوق العباد کا خاص خیال رکھیں گے اور ہوا بھی ایسے۔جنرل ایوب کے دور میں جب چینی کے ریٹ میں معمولی اضافے پر راولپنڈی کے ایک کالج کے دو طلبا کی ہلاکت ہوئی تو پورا پاکستان ہل گیا جس سے ایک مضبوط ڈکٹیٹر کی حکومت ڈانوا ڈول ہو کر ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد مشرقی پاکستان اور پھر بلوچستان میں کچھ انسانی جانوں کے تلف ہونے کو قوم نے نہایت حقارت سے دیکھا۔ لیکن انسانوں کے سفاکانہ قتل کا جو سلسلہ حالیہ دور میں پاکستان میں شروع ہوا ہے اس کی پاکستان کی۶۴ سالہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

قارئین !ہم ارباب اختیارکی انتہائی غیرمقبول جمہوری حکومت کی بساط کوکسی بھی غیرقانونی طریقے سے لپیٹنے کے قطعی حق میں نہیں لیکن یہ پوچھنا تو قوم کا حق ہے کہ پاکستان میں ہر سال ۳۰کھرب روپے ضائع کرنے کی ذمہ داری کس پرعائدکی جائے؟کرپشن کی مدمیں ہرسال اس ملک کابارہ سوارب روپیہ اورٹیکس چوری کرنے کی مدمیں ۱۹۰۰/ارب روپیہ کون ہڑپ کرجاتاہے؟کالے دھن اورمختلف ذرائع سے اربوں روپے کی رقوم جمع کرنے والے افرادکے اثاثوں کی کھوج لگانے میں حکومتی تساہل اوربدنیتی کاذمہ دارکون ہے جبکہ حکومت کے پاس ایسے افرادکے اثاثوں ،بینک میں رکھی گئی رقوم،نیشنل سیونگ اسکیموں میں کی جانے والی سرمایہ کاری۔شیئرزاورسٹاک ایکسچینج میں کی گئی سرمایہ کاری،رئیل اسٹیٹ اورقیمتی گاڑیوں کامکمل ریکارڈموجودہے۔عالمی بینک اورٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق ملک کے ترقیاتی بجٹ کا۴۰فیصدیعنی۲۸۰/ارب روپے ہرسال بے ضابطگیوں اورکرپشن کی نذرہوجاتاہے ۔اس کے علاوہ سرکاری سطح پرملی بھگت کی وجہ سے پروکیورمنٹ کے شعبے میں بھی بے ضابطگیوں اورکرپشن کی وجہ سے کئی سوارب روپے کامسلسل نقصان ہورہاہے جبکہ پبلک سیکٹرانٹرپرائززمیں تین سوارب روپے کی کرپشن ان تمام نقصانات کے علاوہ ہے۔اعلیٰ عدالت کے حکم پرحکومتی وزراء سے کرپشن سے لوٹی ہوئی قومی دولت کاکچھ حصہ وصول توکیاگیاہے لیکن ڈھٹائی کی حدیہ ہے کہ وہ اب بھی اپنی وزارتوں کے قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں۔

جس ملک کے ارباب اقتداراپنے ہی ملک کی خودمختاری کامذاق اڑاتے ہوئے اپنے ہی ایک ادارے کے خلاف غیرملکی آقاؤں سے امدادکی بھیک مانگیں،داخلی اور خارجہ پالیسی کے بدولت اب بھی قتل و غارت کا بازار گرم ہو اورشہری سب غیر محفوظ ہوں تو کیا اس کو کامیاب داخلی اور خارجہ پالیسی کہا جائے گا؟ آج جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے کیاان ناکام پالیسیوں کی ذمہ داری آئس لینڈ، مالدیپ اور نیوزی لینڈ کی حکومتوں پر ڈال دی جائے۔آج پاکستانی قوم ملکی بقاء کو درپیش خطرات پر انتہائی فکر مند ہے، قومی سلامتی کے افق پر چھائی ہوئی کالی گھٹائیں، چمکتی ہوئی بجلیاں اور گرجتے ہوئے بادل بقول احمد ندیم قاسمی ہماری فصل گل کیلئے اندیشہ زوال بن گئی ہیں۔اس خطرے کی گھنٹیوں کو نظر انداز کر کے قومی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں نہ لانا بہت بڑی غلطی ہوگی۔

سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر جب ہم ایک انسان،ایک مسلمان اور ایک پاکستانی کی حیثیت سے ملکی حالات کا طائرانہ جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں خود پسندی، ذاتی عناد ،منافقت، ناانصافی، نااہلی، عاقبت نا اندیشی، ہوس اقتدار اور بیرونی آقاؤں کی بلیک میلنگ کے بے شمار بھنور نظر آتے ہیں۔اہل وطن اس طوفانی ماحول میں پاکستانی سفینے کو ہچکولے کھاتے دیکھ کر ایک عجیب بے بسی کا شکار ہیں۔

شیریں رحمان کی امریکاکیلئے غیرمتوقع تعیناتی کوجہاں پاکستان کے لبرل اورپروگریسوحلقوں میں سراہاجارہاہے وہاں امریکاکی منظوری اورخوشنودی بھی قابل غورہے۔یادرہے کہ ان دنوں موصوفہ نے ایک این جی او یہ کہہ کر بنائی تھی کہ وہ پاکستان میں اہم ایشوز پر ڈائیلاگ کو پروموٹ کریں گی اور خصوصا پاکستان میں لبرل اور پروگریسو حلقوں کے لیے تیزی سے سکڑتی جگہ کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گی تاکہ ملک کو دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال ہونے سے بچایا جا سکے ۔اس کے ساتھ انہیں یہ بھی مشورہ دیا گیا کہ وہ خطے میں ہونے والی تبدیلیوں کے نام پر بھی اپنی این جی او کو استعمال کرتی رہیں۔شیری رحمن نے اپنی اس این جی او کو لانچ کرنے کیلئے وزیراعظم گیلانی کو پچھلے سال اکتوبر میں اس کے افتتاح کے لیے میریٹ ہوٹل میں بلایا اور گیلانی صاحب نے انہیں حکومت پاکستان کے فنڈ سے پانچ کڑور روپے دیے جب کہ ان کی حکومت سیلاب زدگان کانام استعمال کرکے ایک ایک روپے کے لیے اپیل کر رہی تھی ۔

یم این اے کشمالہ طارق نے یہ الزام لگا یاتھا کہ شیری رحمن نے اس وقت کے وزیر فنانس شوکت عزیز کا احسان لے کر اپنے خاوند کو بنک کھولنے کا لائسنس لے کر دیا تھالیکن شیری رحمن اپنے خاوند کے بنک ہونے کے باوجود لوگوں کے ٹیکسوں سے اکھٹے ہونے والی قومی دولت کوشیرمادرسمجھ کرپانچ کروڑ ہضم کرگئیں ۔ شیری رحمن کے استعفیٰ کے بعد وزیراعظم گیلانی مسلسل کوشش کر رہے تھے کہ وہ کسی طرح انہیں واپس لے آئیں اور وہ صدر زراری کو بھی قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ کئی موقعوں پر گیلانی نے شیری رحمن کو دوبارہ وزیر بنوانے کی بہت کوشش کی اور جب ان کا ہاتھ نہ پڑا تو انہیں ریڈ کریسینٹ کا چیئرمین بنا دیا گیا۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شیری رحمن کو سفیر بنوانے کا فیصلہ وزیراعظم گیلانی کا ہے لیکن حیرانی اس بات پر ہے کہ زرداری صاحب نے انہیں معاف کر کے اتنی بڑی پوزیشن پر تعنیات کرنے کی حامی کیسے بھر لی؟کیونکہ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے خلاف بغاوت کرنے والوں کو معاف نہیں کرتے اور اس سلسلے میں ناہید خان، انور بیگ، صفدر عباسی ، اعتزاز احسن، نواب یوسف تالپور کے نام لیے جا سکتے ہیں جنہیں آج تک معافی نہیں ملی۔ ایک جذباتی اور کسی حد تک مغرور جب شیری رحمن نے استعفا دیا تھا تو زرداری نے اسے ایک ایسی بغاوت سے تعبیر کیا تھا جس کا فائدہ میڈیا میں بیٹھے مخالفوں کو ہوا تھا۔شیری رحمن کے بارے میں سب کو علم ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسوں سے بہت مختلف نظریہ رکھتی ہیں اور ان کی تعنیاتی سے یہ بات بھی صاف واضح ہے کہ فوج سے ایک دفعہ پھر مشورہ نہیں کیا گیا اور جنرل کیانی اور جنرل پاشا کو بھی ان کی تقرری کا علم ٹی وی خبروں سے ہوا ہو گاتاہم صدر زرداری نے شائد اس لیے شیری رحمن کو قبول کر لیا کہ وہ کچھ بھی ہوں لیکن کم ازکم فوج اور ایجنسیوں کے ہاتھوں استعمال نہیں ہونگی اور وہ امریکہ میں سیاسی حکومت کے مفادات کا تحفظ حسین حقانی سے بھی بہتر طریقے سے کر یں گی۔

ملک میں موجود لاتعداد بااصول، سچے اور پیشہ ور ہنر مندوں، انجینئروں،بہادر سپاہیوں، محب وطن سیاسی کارکنوں، قاتل ڈاکٹروں، لائق وکیلوں، دیانتدار ججوں، ممتاز ماہرین تعلیم، کامیاب تاجروں اور صنعت کاروں، چوٹی کے مذہبی علماؤں، غیور صحافیوں اور قابل سفارت کاروں کی موجودگی میں پاکستان سفینہ سمندری تغیانی سے نکل کر پر سکون ساحل کی طرف اس لئے نہیں آرہا کیونکہ ہمارے پاس بے لوث اوراہل قیادت کا فقدان رہا ہے۔قائد اعظم کی وفات کے بعد بہت کم ایسے قائدین ہمیں نصیب ہوئے ہیں جن کی عظمت اور احوال پرستی کو پاکستانی قوم دل کی اتھاہ گہرائیوں سے سلام کرے۔ قوموں پر مشکل وقت آتے رہتے ہیں لیکن ان خطرات کا مقابلہ قومیں تب ہی کرسکتی ہیں جب قیادت کا قد کاٹھ ہو۔

اب ضروری ہو گیا ہے کہ قومی دانشوروں پر مشتمل ایک تھنک ٹینک بنایاجائے جو اپنی ذہانت، قابلیت، تجربے اور بین الاقوامی پہچان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملکی حکومتوں کو ایک غیر رسمی رہنمائی مہیا کرے لیکن تمام قومی پالیسیوں کی معمار صرف اور صرف پارلیمنٹ ہو۔ میرا یہ ایمان ہے کہ ان اقدامات کے بغیر قومی انتخابات ،قیمتی وقت اور قومی خزانے کا ضیاع ہوں گیاور موجودہ حالات میں آئندہ انتخابات میں بھی وہی افرادلوٹی ہوئی ملکی دولت کے بل بوتے پردوبارہ اقتدارپرقابض  ہوجائیں گے اورپاکستانی عوام پہلے سے بدترعذاب میں مبتلا ہوجائیں گے اور اندرونی خلفشار بھی جوں کاتوں رہے گاجو قومی مفاد میں نہیں ہوگا۔

*****

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *