قاہرہ میں اساتذہ اور طلبہ وطالبات کے ساتھ سیر و تفریح
مصر کو اسلامی تاریخ اور تہذیبی و ثقافتی اعتبار سے دنیا میں بھر ایک اہم مقام حاصل ہے ۔ اسلامی تاریخ کے اہم شہروں میں قاہرہ کو سر فہرست رکھا جاتا ہے اس کی وجہ اس کی قدیم ترین تہذیب تو ہےہی لیکن اس سے بھی اہم شہر سازی کے نقطۂ نظر سے اس شہر کو بساناہے ۔ علمی اعتبار سے بھی قاہرہ کو عالم اسلام میں مینارۂ نور کہا جاتا ہے کیونکہ قاہرہ میں الجامعۃالاازہر جسے ازہر یونیورسٹی کے نام سے بھی پکار اجاتاہے، اس کی ہزار سال سے بھی زائد کی تاریخ ہے ۔ قابل غور یہ ہے کہ عالم اسلام میں تو اسے اس لحاظ سے اولیت کا شرف تو حاصل ہے ہی لیکن دنیا کے دیگر ممالک کے مد مقابل بھی دیکھیں تو ایسےتعلیمی ادراے کی تاریخ کم ہی ممالک کے پاس ہے ۔ مصر کو اس کے علاوہ بھی کئی اعتبار سے دنیا میں شہرت حاصل ہے ، مصر کا شہر قاہرہ دنیا بھر کے سیاحوں کا پسندیدہ شہر ہے۔ شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا ملک ہو جہاں کی کتابوں میں قاہرہ کا ذکر نہ ہو۔ اہرامات مصر ، دریائے نیل کی حسین وادیاں ، مصر کا عالمی شہرت یافتہ اور تہذیبی آثار سے مالا مال وہاں کا مصری میوزیم ( المتحف المصری) لوگوں کی اپنی جانب متوجہ کرتاہے ۔اس اعتبار سے مصر ی لوگ اپنی تہذیب و ثقافت اور اسلامی روایات پر جتنا بھی ناز کریں کم ہے ۔
قاہرہ کودنیا کے اہم ترین شہروں میں سے ایک ہونے کا فخر و امتیاز اگر حاصل ہے تو اس کی ایک وجہ یہاں کے لوگوں کا اخلاق اور حسن سلوک بھی ہے۔یہاں کی ضیافت اور مہمانوں کی دلجوئی کے بارے میں بارہا اپنے بزرگوں سے میں نے سنا تھا لیکن اللہ نے مجھے بھی یہ موقع عنایت کیا کہ میں نے اس ملک ، اس شہر کودیکھا اور یہاں کی میزبانی مہمان نوازی سے سرفراز ہوا ۔ اس میزبانی اور دلجوئی اور مہمان نوازی کو لفظوں میں بیان کرنا ذرا مشکل ہے ۔ اس لیے یہاں اپنے قارئین کو تصویروں کی زبانی قاہرہ کی سیر کرانا چاہتا ہوں۔
( اپنے دوستوں کی عنایات اور لطف وکرم کا ذکر تو تفصیل سے میں اپنے سفرنامے میں کروں گا)
مارچ کی صبح جامعہ ازہر کے شعبہ ٔ اردو کلیۃ البنات سے فارغ ہونے کے بعد چنداردو کی استاد اور طلبہ وطالبات کے ساتھ مصری میوزیم کے لیے نکلا میرے ہمراہ ؛
ا-د/ ولاء جمال العسیلی ، جامعہ عین شمس میں اردو کی استاد
مصطفی علاالدین ریسرچ اسکالر جے این یو
فاطمہ بدر الدین جامعہ ازہر
فاطمہ ماہر جامعہ ازہر
فاطمہ عمر جامعہ ازہر
المتحف المصری: یعنی مصر کو مشہور زمانہ میوزیم جہاں قدیم ترین تہذیب بالخصوص فرعونی تہذیب کے آثار موجود ہیں ۔ یہی وہی میوزیم ہے جہاں فرعون کی لاش( رمسیس ثانی جو موسیٰ علیہ السلام کے دور میں تھا) موجود ہے ۔ بڑی خواہش تھی کہ اس کو قریب سے دیکھا جائے ۔ فاطمہ بدر الدین جیسی ذہین طالبہ میری گائیڈ تھیں اور ولا ء جمال کی رہنمائی میں کم وقت میں اسے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ۔
اب تصویروں کی زبانی آپ بھی اس کی سیر کریں۔
تحریر اسکوئر : عرب اسپرنگ سے دنیا بھر میں مشہور ہونے والی یہ جگہ جسے ’’تحریر اسکوائر‘‘ کے نام سے جانا جاتاہے دراصل یہ شہر کا وہ حصہ ہے جو دریائے نیل کے کنارے ہے اور ہر چہار جانب سے بڑے بڑے ہوٹل ، آفیسیز ، مارکیٹ اور درمیان میں خوبصورت پارک نما وسیع و عریض مقام ہے جہاں مصری اور غیر ملکی لوگوں کی موجودگی سے ہر وقت رونق رہتی ہے ۔ مجھے بھی اس جگہ کو دیکھنے کو شوق تھا سو مجھے معلوم ہوا کہ کہ مصری میوزیم بھی تحریر اسکوائر پر ہی واقع ہے لہذا اس کی طائرانہ سیر کی ، نزدیک ہی ایک ہوٹل جو مصری کے مشہور ڈش’ کشری ‘ کے لیے مشہور ہے ، وہاں ولا ء جمال کی دعوت پر ہم سب نے اس کا لطف اٹھایا ۔ ، اب آپ بھی اس کی تصویریں دیکھیں ۔رر
بازار خلیلی: مسجد حسین سے متصل یہ مصر کا قدیم بازار ہے ۔ بہت پُر رونق اور پر ہجوم بازار ، ہر طرح کے مصری صنعت وحرفت کے نمونے یہاں دستیاب ہیں ۔ خاص طور پر فرعونی تہذیب کی اشیا اور سب سے عمدہ مصری طرز تحریر میں قرآنی آیات والے طغرے۔خواتین کی زیب وآرائش کے زیورات ۔اس سے متصل قدیم مصر کی تاریخی عمارات کا دلفریب منظر