Dr. Khwaja Ekram
معمرقذافی کو ان کے خاندان سمیت قتل کر دیا گیا اس کے بعد میڈیا میں جس انداز سے خبریں آئیں جیسے یہ واحد ملک تھا جہاں آمریت تھی اور جہاں جمہوریت کو جگہ نہیں دی گئی۔ قذافی ایسا بادشاہ تھا جس نے عوام کو بہت ستایا۔لیکن کیا بات صرف اتنی تھی ، اگر بات صرف اتنی ہے تو دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جو امریکہ کے ہمنوا ہیں اور وہاں دور دور تک جمہوریت نہیں۔امریکہ سمیت دنیا کے طاقتور ممالک اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ بےروزگاری اور غریبی نے ان کے ملک کے شہریوں کے حالات اس سے زیادہ خراب کر رکھےہیں ۔ اس لیے وہ بھی ایسے آمر بادشاہوں کی طرح قصور وار ہیں ۔اس سے پہلے عراق ، افغانستان اور کئی ممالک کا حشر دنیا کے سامنے ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ لیبیا امریکہ اور مغربی ملکوں کا ہمنوا نہیں رہا ہے ۔ اس کا قصور یہ بھی تھا کہ وہ دنیا کے نام نہاد جمہوریت پسند ممالک کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتا تھا۔یہ وہی ملک ہے جس نے سب سے پہلے امریکہ کے خلاف سر بلند کیا اور آج وہ اٹھنے والا سر ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا۔
جب سے لیبیا میں عوامی انقلاب کا بگل بجا تب سے قذافی کی جو شبیہ پیش کی گئی وہ ایک عیاش اور بر رحم آمر کی شبیہ تھی ۔ مجھے ذاتی طور پر یہ بھی تسلیم ہے کہ وہ ایک مطلق العنان بادشاہ تھا ۔ظاہر ہے ایک مطلق العنان بادشاہ کے کارنامے ایسے ہو سکتے ہیں ۔ لیکن آج کی جمہوری دنیا میں بھی ایسے جمہوری حکمراں ہیں جو مطق العنان بادشاہ سے کسی طرح کم نہیں لیکن میڈیا اس کی خبریں کیوں نہیں دیتا اور اس کی برائیوں اور ظلم و ستم کی داستانیں کیوں نہیں بیان کرتا ۔عراق پر حملہ کرنے والے ممالک نے تو ظلم و زیادتی کی ساری حدیں توڑ دیں ، شہر کے شہر برباد ہوئے ، قیدیوں کے ساتھ حیوانوں جیسا سلوک کیا گیا مگر جب کہ عراق کا وہ قصور جس کے عوض اس ملک کو تباہ برباد کیا گیا، سچ بھی نہیں ثابت ہوا ۔ لیکن صرف غیر مصدقہ الزام کے پاداش میں عراق میں جو کچھ ہوا کیا وہ امریکہ کی مطلق العنانی نہیں تھی؟ ان حکمرانوں کی زندگی او ر ان کے کالے کارناموں کو میڈیا کیوں چھپا لیتی ہے۔لیکن جب کسی مسلم بادشاہ کا ذکر آتا ہے تو میڈیا کیوں رطب اللسان ہوکر اس کی زندگی کے ان پہلووں کو پیش کیا جاتا ہے جو اس کی ذاتی زندگی ہوتی ہے۔ یہ مانا کہ قذافی رنگین مزاج تھے لیکن وہ ایک ایسے بادشاہ بھی تھی جنھوں نے سب سے پہلے امریکہ کو اس کی غلط اقتصادی پالیسی کے سبب اس کے خلاف آواز بلند کی اور امریکہ کو منہ کی کھانی پڑی ۔ امریکہ جو آج کی دنیا کا طاقتور ملک ہے بھلا اس کو کیسے گوارا ہوسکتا ہے کہ کوئی اس کو آنکھ دیکھائے۔ اس نے وقت کا نتظار کیا اور لیبیا کو اس جرات کی سزا ملی۔ لیکن حیرت ہے کہ جس عرب شناخت کے لیے قذافی نے آواز بلند کی اسی عرب نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔بلکہ وہ بھی ان ممالک کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔اس حد تو صحیح ہے کہ جمہوری نظام قائم ہو تا کہ عوام کو ان کا حق مل سکے لیکن اس کے لیے سارے ممالک کو ایک نظر سے دیکھنا ہوگا۔ کیا عرب میں موجود اور دیگر ممالک میں جہاں جمہوریت نہیں ہے ، کیا وہاں کے عوام کو ان کا حق مل رہا ہے؟ کیا امریکہ ، انگلینڈ ا ور فرانس جیسے ممالک جو لیبیا کو تباہ کرنے میں پیش پیش رہے ، ان کو یہ سب کچھ نظر نہیں آتا ؟ یا وہ جان بوجھ کر ان سے نظریں ہٹا رہے ہیں ۔ ان ممالک کے ساتھ عرب ملکوں کو بھی سوچنا چاہیے کیونکہ یہی لیبیا ہے جس کے تعلقات فرانس سے بہت اچھے تھے اور جب تک فرانس کا مفاد حل ہوتا رہا فرانس کو کوئی اعتراض نہیں ہوا لیکن کون سی ایسی کشیدگی قذافی اور سر کوزی کے درمیان ہوئی کہ آنا فانا فرانس نے کاروائی کر دی۔ اگر کوئی حق پرست ہے تو ان حقیقت کی بھی تصدیق ہونی چاہیے تاکہ دنیا کے سامنے سچائی کے دونوں رخ سامنے آسکیں ۔ لیکن آج کے میڈیا پر جتنا بھی کہہ لیں بالخصوص ٹی وی جنرلزم نے تو بے شرمی کی تمام حدیں عبور کر لی ہیں ۔ خاص کر ہندستانی میڈیا کی بات کریں تو حیرت ہوتی کہ قذافی کی موت کی خبروں کے ساتھ ساتھ پچھلے ایک مہینے سے سوائے قذافی کی رنگین زندگی کے کچھ دیکھا یا ہی نہیں ، قذافی کی موت کی خبر آتے ہی ہندستان کے ایک ٹی وی چینل ‘‘آج تک ’’ نے آدھے گھنٹے کی ایک رپورٹ پیش کی جسے ابھیشار پیش کر رہا تھا ۔ اس کے لب ولہجہ اور انداز قابل مذمت اس لیے تھا کہ وہ قذافی کی موت کی خبر کو مسکراتے ہوئے اس طرح پیش کررہا تھا جیسے ا س کی ذاتی دشمن کی موت ہوئی ہے ۔ میں نے فورا ہی کسی دوسرے چینل کو دیکھا صرف اس لیے کہ کیا تمام چینلوں کا یہی حال ہے ؟ بی بی سی ، سی این این جیسے چینل پر بھی یہی خبریں آرہی تھیں لیکن ان کا انداز سنجیدہ تھا ان کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں تھی۔ لیکن آج تک سمیت تمام چینل پر جس انداز سے قذافی کو پیش کیا گیا اس سے یہی انداز ہ ہورہا تھا کہ وہ قذافی کی نہیں بلکہ تمام مسلم بادشاہوں کو مذمت کر رہے ہیں ۔ میڈیا کا یہ رویہ افسوسناک ہے اور ا س پر احتجاج کیا جانا چاہیے کہ کسی ایک مسلم شخص کے کرتوت کے ذمہ دار مسلمان نہیں ہیں اور کسی ایک کا قصور وار تمام مسلمانوں کا نہ بنا یا جائے اور کسی ایک شخص کی وجہ سے پوری مسلم قومیت کا مذاق نہ بنایا جائے۔
قذافی کی حکومت کا منطقی انجام یہی ہونا تھا اور جو بھی آمرانہ حکومتیں موجود ہیں مستقبل میں ان کا حشر بھی یہی ہونا ہے اور طاقت کے نشے میں جو جمہوری حکومتیں دنیا میں جمہوریت کے نام سے انتشار پیدا کررہے ہیں انھیں بھی مستقبل میں اسی طرح کے انجام سے دو چار ہونا ہوگا۔