ایاز محمود
ترکمان گیٹ، ۱۰۔ایس ایل ہاؤس ،آصف علی روڈ ، نئی دہلی۔ ۲
لبراہن کمیشن رپورٹ ۔مسلمان مسترد کردیں۔
لبراہن کمیشن کی رپورٹ کو لیک کرکے منظر عام پر لایا گیا۔ بعد میں اس کو وزیر داخلہ مسٹر پی چدمبرم نے پیش کیا۔ لیک کرنے کا مطلب ہے کہ کانگریس اس رپورٹ کو سامنے لانے سے قبل کمزور کرنا چاہتی تھی۔جس میں وہ کامیاب رہی۔وہ بی جے پی پر الزام تو لگانا چاہتی ہے۔ مگر ان کو سزا دینا نہیں چاہتی۔ مذکورہ رپورٹ سیاسی مکاری پر مبنی ہے۔ بہتر ہوگا۔ کہ مسلمان اس کو متحد ہوکر مستر د کردیں۔ کیونکہ الزام لگا کر مسلمانوں کو خوش کرنا ہے۔ اس لئے کہ اگر کانگریس نے رپورٹ میں تذکرہ کردہ کسی ملزم کو سزا دلوادی۔تو بھاجپا اس کو ہیرون بناکر پیش کرے گی۔ جس سے ہندوستان کے سیاسی حالات متزلزل ہوجائیں گے۔ کانگریس صرف ان کو الزام دے کرصرف مسلمانوں کو خوش کرنا چاہتی ہے۔ اس لئے یہ رپورٹ مسلمانوں سے بہت بڑا مذاق ہے۔ اس مذاق کو کسی بھی صورت میں محبان اردو کی طرف سے برداشت نہیں کیا جائے گا۔ یہ رپورٹ کانگریس کے مفاد کا حصہ ہے۔ لیکن مسلمانوں کا اس سے قطعی کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مسٹر نرسمہاراؤ اس حادثہ کے سب سے بڑے مجرم ہیں۔ کیونکہ یہ حادثہ ان کے دور اقتدار میں پیش آیاتھا۔ یاتو ان گمراہ کیا گیا تھا۔ یا وہ از خود گمراہ ہوئے تھے۔ یا پھر مرکزی سرکار۔ صوبائی حکمرانوں کی چال بازیوں کی مکاریوں کو سمجھنے سے قاصر رہی کہ اس نے کلیان سنگھ کے وعدے اور دعوے پر اعتماد کیا۔ شطرنج کی اس چال میں کانگریس اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام اور بھاجپا کامیاب رہی ۔مرکزی سرکار کلیان سنگھ کو یہ ہدایت تو دیتی رہی کہ وہ بابری کے تحفظ کیلئے مرکزی فورس کو استعمال کیلئے اپنی تحویل میں رکھے مگر خود وہ اطمینان سے بری الزمہ ہوکر بیٹھ گئی۔ مرکزی فورسز کو صوبائی حکومت کی تابع داری میں دینے کی وجہ سے بابری مسجد کا انہدام یقینی ہوپایا۔ اگر مرکزی فورسز کو کلیان سنگھ کی ماتحتی میں نہ دیا ہوتا تو بابری مسجد شہید ہی نہ ہوتی۔ مسٹرنرسمہاراؤ یہ سمجھ رہے تھے۔ کہ وہ (کلیان سنگھ) کارسیوکوں پر گولیاں چلوانے کا حکم دیں گے۔ جس سے رام مندر کی تحریک ان ہی کے ہاتھوں کچل دی جائے گی۔ مگر ان کی سوچ کے برعکس اس کا الٹ ہوگیا۔جس سے مسٹر نرسمہاراؤ ایک ناکام حکمراں ثابت ہوئے۔ جس کی وجہ سے ان کو ہندوستان کے عوام نے مستر د کردیا۔
لبراہن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ۶۸ ملزمین کی فہرست پیش کرکے ہندوستان کے ہندومسلم عوام سے نفرت کا اظہار کیا ہے۔ ان کی یہ رپورٹ یک طرفہ ہے۔ کمیشن حقائق سے کوسودور ہے۔ ان کارسیوکوں کا کیا قصور جو غیر دانشتہ بابری مسجد کی شہادت میں شریک ہوئے۔ان میں چند شرارتی کرائے کے لوگ تھے۔وہ چند سکوں کی خاطر مذہبی عبادت گاہ پر ٹوٹ پڑے ملزمین میں کارسیوکوں کو شامل کرناافسوس ناک ہی نہیں بلکہ شرمناک ہے۔ ملزمین تو وہ لیڈران ہیں ۔ جنہوں نے ان چند کرائے کے لوگوں کو بابری مسجد توڑنے کی ہدایت دی تھی۔ جس میں کارسیوک بھی مجبوری میں شریک ہوگئے۔کارسیوکوں کو تو وہاں صرف بھیڑ کی شکل میں جمع ہوکر اپنی تعداد دیکھانے کیلئے بلایا گیا تھا۔ان کو فقط اجود ھیا میں اپنی حاضری لگانی تھی۔باقی کام تو کرائے کے لوگوں نے ہی کرنا تھا۔یہ ایک بھاجپا کی سیاسی تحریک تھی۔جس نے حالات کو بری طرح بگاڑ کر رکھ دیا۔اور حالات پیچیدہ ہوگئے۔بھاجپا نے رام مندر سے جو سیاسی عقیدت کا اظہار کیا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے۔ کہ گندی سیاست میں ” رام “ کے مقدس نا م سے کھلواڑ کیا گیا۔کروڑ ہا تعداد میں کہا گیا۔” سوگنت رام کی کھاتے ہیں۔ مندر وہیں بنائیں گے۔ رام لاََ ہم آئیں گے۔ اپنی جان کی آہوتی (قربانی ) دیں گے۔ “ انگِنت اور لاتعداد قسموں کو دیکھتے ہوئے اور ان کے عقیدے کا احترام کرتے ہوئے اور اس پر ترس کھاتے ہوئے ۔ مسلمانوں کو اعلان کرنا پڑا ۔ ایک فارمولہ دینا پڑا ۔ اس کا سیاسی حل منتخب کرنا پڑا۔ کہ مسلمان اپنے ہاتھوں سے اجودھیا میں اس مقام پر جہاں کبھی بابری مسجد تھی۔وہاں ایک عالیشان رام مندر بنایا جائے ۔ اس کے بلمقابل پندرہ کلومیٹر کے فاصلہ پر بابری مسجد تعمیر ہو۔اور نئے تعمیر کردہ رام مند ر کے اطراف میں چاروں طرف متوقع شہیدوں کے مجسمے نصب کئے جائیں۔جس سے یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حل و ختم ہوجائے۔اور ایک پرسکون ماحول اجاگر ہو۔ جہا ں امن ہی امن باقی رہے۔یہ بات واضع ہے۔ کہ عقائد کا معاملہ بہت سنگین ہوتے ہیں۔ ایسے معاملات کو کو ئی بھی عدالت حل نہیں کرسکتی ہے۔ حکومت کی طرف سے نامزد کمیشن الزامات تو طے کرسکتا ہے۔ مگر ان عمل درآمد نہیں کراسکتا ہے۔ تازہ کمیشن کی بابت ہی دیکھئے ۔ کہ حکومت نے اس کا اعلان تو کیا مگر اس کی رپورٹ کو لیک کرکے دیا و کیا۔ رپورٹ از خود اس قدر کمزور کردیا ۔ جس سے اس کی اہمیت ہی زائل ہوگئی۔ جس سے ہندوستا نی عوام کو یہ احساس ہوا۔ کہ کانگریس مسلمانوں کو خوش کرنے کیلئے قصور واروں کو ملزمین کی فہرست تو رکھ رہی ہے۔ مگر ان کو سزا دلوانے سے گریز کررہی ہے۔ تاکہ اگر وہ اقتدار سے بے دخل ہوجائے تو وہ یہ کہ سکے۔ کہ ہم نے ملزمین کو کٹہرے میں کھڑا کردیا تھا۔کمیشن کے ذریعہ سیاسی ناٹکی کھیل جس کو نہ صرف مسلمان بلکہ ہندوستان کے جمہوری عوام مسترد کرتے ہیں۔ جس میں حکومتی خزانہ کو لوٹا گیا۔اس کو ضائع کرکے ہندستانی عوام کو گمراہ کیا گیا۔ اور ان کو بے وقوف بنایا گیا۔اس لئے کانگریس کے لیڈروں کے پاس ملزمین میں سے کسی ایک شخص کو سزادلوانے کی اہلیت ہے ہی نہیں۔چونکہ فرقہ پرست لوگ تین ہزار مساجد کی بات اپنی سیاسی دکان چمکانے کیلئے کرتے ہیں۔ اس لئے اس اجودھیا مسئلہ کا پائیدار حل بہت ضروری ہے۔ کہ اس میں انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کیا جائے ۔ جس سے اس مسئلہ کا جامعہ حل کرکے ہندوستان کو دھشت گردی اور فرقہ پرستی سے محفوظ بنایا جاسکے۔ماضی من جانب اس کا سیاسی طور پر ایک حل پیش کیاگیا تھا۔ جس کو اب دوبارہ تحریر میں لایا جارہا ہے۔ کہ دواہم قسمیں جو کروڑ ہا بار بھاجپا اور اس ذیلی تنظیموں کے ورکروں کی جانب سے کھائی گئیں۔ان کا احترام کیا جائے۔ان کی قسموں میں یہ واضع اعلان تھا۔ کہ (۱) رام لاٰ ہم آئیں گے۔ مندر وہیں بنائیں گے۔(۲) رام لّا ہم تیرے لئے جان کی قربانی دیں گے۔کیونکہ ان قسموں کا خیرمقدم کیا جائے۔اور ان کو احترام کیا جائے۔ یہ قسمیں انہوں نے از خود ہی کھائی تھیں۔ مسلمانوں کا یا ان کی کسی سیاسی و مذہبی جماعت کاان پر کسی طرح کا کوئی دباؤ بھی نہیں تھا۔ اب قسموں کو کھانے میں ہوش و حواش شامل تھا۔ اب مسلمانوں کو ان کی قسموں کا استقبال اور ان پر پھول چڑھانا چاہئے لبراہن کمیشن نے غلط طور پر ملزمین کی ایک طویل فہرست پیش کردی۔ مسجد توڑنے والوں اور اس کو توڑنے کیلئے ہدایت دینے والوں کو ایک جگہ جمع کردیا ۔ جبکہ مسجد کو گروانے کی سازش کرنے والوں کو ہی بے نقاب کرنا چاہئے تھا۔ملزمین میں تین طرح کے اشخاص شامل تھے۔ (۱) کارسیوک جن کا تعلق عوام سے ہے۔ (۲) حملہ آور کرائے کے لوگ (۳) سازشی ہدایت کار ، جس کی بدولت کمیشن کی فہرست ۶۸ تک جا پہنچی۔اس رپورٹ کا افسوس ناک اور شرمناک پہلو یہ ہے۔ ان سب کو یکجا کردیا گیا۔ جس سے ملزمین کی شناخت کو جان بوجھ کر خرد برد کیا گیا۔ اس لئے ضروری ہے کہ کارسیوک جو تعداد کی طور پر وہاں موجودتھے۔ان کو ملزمین کی فہرست سے الگ کیا جائے۔ کرایہ کے لوگ اجرت پر تھے۔ ان کو ملزمین کی فہرست سے الگ کیا جائے۔اب اصل ملزم صرف سازشی ہدایت کرار ہی بچتے ہیں۔وہ ہی اصل ملزم ہیں اور ان ملزمین کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ان کی طرف سے جاری کردہ قسموں میں ان کیلئے سزائیں چھپی ہوئی ہیں۔ اس کو عملی جامعہ پہنایا جائے۔اس کو من جانب کئی موقعوں پر منظر عام پر بھی لایا گیا ہے۔ جس کی وجہ بھاجپا کو اپنے ایجنڈے میں سے رام مندر کے ایشو کو نیکالنانے کیلئے مجبور ہونا پڑا۔ خادم نے ترشول تقیسم کرنے والے پروین توگڑیا کی ترشول سیاست کو بھی ختم کرنے میں ایک معرکہ عبور کیا ۔
بہرحال لبراہن کمیشن کی رپورٹ ۔ جس میں ملزمین کی فہرست ترتیب دی گئی ہے۔ وہ ناصرف افسوس ناک ہے بلکہ شرم ناک ہے۔ اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی جانی چاہئے۔اور اس کو مسترد کیا جانا چاہئے۔ کیونکہ یہ رپورٹ مفاد پرستی پر مبنی ہے۔ملزمین وہ ہیں۔ جنہوں نے کرایہ کے لوگوں سے کام لیا۔ اور بھڑکاؤ بیان دے کر کارسیوکوں سمیت پورے ملک کو گمراہ کیا۔ان ملزمین میں مسٹر لعل کرشن اڈوانی صاحب، مسٹر نرسمہا راؤ صاحب ،،مسٹر وی پی سنگھ صاحب ،مسٹر مرلی منوہر جوشی جی، مسٹراشوک سنگھل صاحب، کلیان سنگھ صاحب، مسز اوما بھارتی صاحبہ، مسز سادھوری رتمبرا صاحبہ، مسٹر گری راج کشور صاحب، مسٹر ونے کٹیار صاحب، مسٹر بال ٹھاکرے صاحب، مسٹر سکندر بخت صاحب، مسٹر عارف بیگ صاحب، مہنت رام داس پرم صاحب، اور مسٹربھائی پروین توگڑیا صاحب شامل ہیں۔ باقی دیگر بے قصور، اب ان کو بھی الزام سے الگ کردیا جائے جو اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔مذکورہ بقیہ ملزمین کا سیاسی علاج ۔۔عدالت نہیں کرسکتی ، حکومت نہیں کرسکتی ،کانگریس و دیگر سیکولر جماعتیں نہیں کرسکتی، ہندومسلمان نہیں کرسکتے،بلکہ ان کاعلاج اجودھیا میں عالیشان تاج محل جیسا رام مندر تعمیر کرنے والے لوگ ہی کرسکتے ہیں۔اور ہندوستان کے عوام جن کو اب رام بھگتی کا امتحان اصل سیاسی رام بھگتوں سے لینا ہے۔ جو مسئلہ کے حل میں سیاسی فریق ہیں۔ وہ اپنی سیاسی رام بھگتی۔۔ قربانی کا اعلان کرنے والوں لیڈروں پر آزمائیں۔ جنہو ں نے کروڑہا بار اعلان کیا تھا کہ رام لّا ” ہم تیرے لئے اپنی جان کی آہوتی دیں گے۔
بہرکیف اگر ملزمین رام مندر کی تعمیر کا سیاسی جذبہ نہیں بلکہ صادق جذبہ ہو۔قربانی دینے کا صادق حوصلہ ہو، فارمولہ کے تحت اجودھیا میں مسلمان از خود اپنے ہاتھوں سے عالیشان رام مندر بنانے کا کام انجام دے سکتے ہیں۔ فارمولہ کے تحت چھ دسمبر کے دن جرم کرنے والے ملزم اور خطا کار بنے والے احباب کی خطائیں اور ان کے جرم کو پائے انجام تک پہنچانے کیلئے ایک نئے آغاز کے ساتھ مسئلہ کا پائیدار اور مضبوط حل نکل سکتا ہے۔ لیکن لبراہن کمیشن کی ناکارہ رپورٹ جب مسلمان ہی قبول نہیں کررہے تو کارسیوک کیسے قبول کریں گے۔ ہمیں تو کارسیوکوں کے جذبات اور قسموں کی ایک فارمولہ کے تحت قدر کرنی ہے۔ تصادم سے مسئلے حل نہیں ہوتے۔سیاسی مسائل تو مفاہمت سے ہی حل ہوتے ہیں۔ یہ بہتر ہوگا۔ لبراہن کی سیاسی مفاد پرستی پر مبنی رپورٹ کو سر عام نذر آتش کی جائے۔جو ملزمین کی غلط فہرست پیش کررہی ہے۔
فی الوقت بھی یہ بات بڑے شرم کی ہے۔ چند موقعہ پرستوں نے شری رام تقدس کو پارلیمنٹ میں بھی پاما ل کیا ۔ اس کے جواب میں امرسنگھ جیسے لوگ حضرت علی کے تقدس کو پامال کرنے کی مذموم کوشیش کررہے ہیں۔ جس پر ہندستانی عوام کو احتجاج کرنا چاہئے۔شری رام اور حضرت علی کے سیاسی استعمال پر پابندی لگانے کیلئے قانون مرتب کردینا چاہئے۔جس سے مذہبی رہنماؤ ں کا کوئی مذیدکھلواڑ نہ کرسکے۔
آپ کی باتوں سے مجھے پورا اتفاق ہے۔
آپ نے آخر میں مطالبہ کیا ہے کہ شری رام اور حضرت علی کے سیاسی استعمال پر بین لگ نا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ اب یہ ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ اج کی سیاست مذہب کے نام پر ہی چل رہی ہے۔ علامہ اقبال نے بھی کہا تھا کہ
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اب لوگ بغیر دین والی سیاست کو اپنے عقیدے سے خارج مان کر اس پر بھروسا بھی نہیں کریں گے۔