سمیع اللہ ملک
کہیں سے بھی تھکی ہوئی نظر نہیں آتیں وہ۔ ہر دم ہر کام کے لیے کمربستہ ،ہر لمحہ مسکراتی ہوئی، اکثر دکان پر نظر آتی ہیں۔ ایک کاپی ان کے ساتھ سفر میں رہتی ہے جس پر دکاندار سودا سلف دے کر لکھ دیتا ہے اور پھر ہر ماہ پیسے وصول کرلیتا ہے۔ کپڑے مناسب ہی ہوتے ہیں۔ کبھی دہی لینے جارہی ہیں ،صبح سویرے چھوٹے بچوں کو اسکول چھوڑنے جارہی ہیں، دوپہر میں ان کا بستہ اٹھائے آرہی ہیں۔ شام کو بچے جب گلی میں کھیلتے ہیں تو وہ ان کی نگرانی کرتی ہیں۔ لڑائی ہوجائے تو بچوں میں صلح کراتی ہیں اور نجانے کیا کیا۔ کبھی ایک بہو کے ساتھ جارہی ہیں کبھی دوسری کی دوا لارہی ہیں۔ ہر دم تازہ دم۔ میں انہیں اکثر ہی دیکھتا ہوں اور چھٹی والے دن تو خاص طور پر۔ اتوار کو صبح سویرے ہر طرف سناٹا ہوتا ہے بندہ نہ بندے کی ذات لیکن وہ اللہ کی بندی اس دن کیاریوں سے گھاس پھونس الگ کرتی ہیں، خشک پتے سمیٹتی ہیں، پھر پائپ لگاکر چھڑکاوٴ کرتی ہیں۔
اِس اتوار کو بھی یہی ہوا۔ میں چھت پر کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا اور وہ اپنے کام میں منہمک تھیں۔ مجھے تو نہیں لگتا کہ وہ کبھی آرام کرتی ہوں گی۔ کبھی کبھی وہ اکیلی بیٹھی آسمان کو تکتی ہیں۔ بس ایک دفعہ میں نے انہیں اپنی آنکھیں صاف کرتے دیکھا ہے اپنی سفید چادر سے۔ شوہر کا انتقال تو بہت پہلے ہوگیا تھا پانچ بیٹوں کی ماں ہیں وہ، اور وہ سب کے سب باہر مقیم ہیں۔ شاید دو بہوئیں ان کے ساتھ رہتی ہیں۔ ان کا کوئی بیٹا پاکستان آرہا ہو تب ان کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ پورے محلے کو بتاتی پھرتی ہیں: وہ کینیڈا والا آرہا ہے۔ اور پھر وہ دن بھی آجاتا ہے جب ان کا لخت ِجگر پہنچتا ہے کچھ دن تک رہتا ہے تو وہ بہت خوش ہوتی ہیں۔ ہاں ایک دن اداس تھیں کہ وہ تو آتے ہی اپنے بچوں کو گھمانے پھرانے لگتا ہے ،میرا بچہ تو پھر بھی مجھے نہیں ملتا،پھر وہ واپس چلا جاتا ہے اور ماں کی اداسی اور بھی گہری ہوجاتی ہے۔جن بیٹوں کے بیوی بچے باہرہیں،وہ توکئی کئی سال کے بعداگرآتے ہیں توان کے پاس ایک چھوٹی سی ڈائری ضرورہوتی ہے جس میں پہلے سے لکھاہوتاہے کہ پاکستان کے فلاں وقت اسے ہرحال میں اپنی بیوی بچوں کوفون ضرورکرناہے، بیوی بچوں کی فرمائشوں کی ایک لمبی فہرست الگ ہوتی ہے جن کی خریداری میں سارادن بھٹکنے کے بعدجب واپس گھرلوٹتاہے توبرسوں کی منتظرماں کے سامنے اپنی تھکاوٹ کااظہارکرکے لیٹنے کی کوئی جگہ ڈھونڈکربے خبرسوجاتاہے اورماں باربارسوئے بیٹے کودیکھ کرخوش ہوتی رہتی ہے․․․․․․․ ․․ یہ ہے ان کی زندگی۔
سناہے کہ وہ ایک کالج کی پرنسپل رہ چکی ہیں۔ساری عمردرس وتدریس میں گزاردی۔اب بھی کئی غریب بچیوں کی کفالت انتہائی پردہ داری اورخاموشی کے ساتھ سرانجام دیتی ہیں۔ مجھے اس بات کاکبھی پتہ نہ چلتااگربوڑھاڈاکیامجھے اس کی اطلاع نہ دیتا۔ایک دفعہ میں ان کے گھرکے سامنے سے گزررہاتھاتومجھے روک کرمیرے کل شام کے ٹی وی پروگرام پر تبصرہ فرمانے لگیں۔مجھے جہاں ان کی علمی گفتگونے حیران کردیاوہاں ان کی لاجواب یادداشت نے میرے دل ودماغ کے کئی چراغ روشن کردیئے۔میں جتنی دیرپاکستان میں رہتاہوں ان سے جی بھرکرباتیں کرتاہوں،ان کی ڈھیرساری باتیں سنتاہوں جووہ ساراسال میرے لئے جمع کرکے رکھی ہوتی ہیں۔میں جب ٹیلیفون پران کوسلام کرتاہوں تو ان کی خوش کلامی سے میرادل معطرہوکے رہ جاتاہے لیکن مختصر سی بات کرکے یہ کہہ کرختم کردیتی ہیں کہ تمہیں خواہ مخواہ اس کازیادہ بل آئے گا۔ آوٴگے توخوب باتیں کریں گے۔
پچھلے سال انہی دنوں میں پاکستان میں تھا۔ آہستہ آہستہ سورج چڑھنے لگا، بجلی نہیں تھی تو گرمی بڑھنے لگی اور پھر سارا محلہ وقت سے پہلے ہی جاگ اٹھا۔منجھلے بیٹے نے اٹھتے ہی آواز لگائی: مما I Love You۔ تب سب سے چھوٹے کی آواز آئی ،بھائی میں آپ سے جیت گیا۔ میں نے مما کو سب سے پہلے Wishکیا۔ تم تو اپنے نمبر بڑھاتے رہتے ہو اور پھر دونوں میں تھوڑی دیر تکرار۔ مجھے سمجھ میں نہیں آیا تو میں نے پوچھا آج ایسا کون سا خاص دن ہے؟پاپا! آج مدر ڈے ہے، چھوٹے نے آواز لگائی۔ تب مجھے معلوم ہوا۔ پھر اس پر بحث ہونے لگی کہ کون سا بچہ اچھا ہے۔ کیا نتیجہ نکلا مجھے نہیں معلوم․․․․․․․․․میں کچھ دیر تک تو سوچتا رہا اور پھر خودبخود میرے پاوٴں ان کے گھر کی سمت چل پڑے۔ وہ مجھے باہر ہی مل گئیں۔ کیسی ہیں آپ ماں جی․․․․․․․بہت شرمیلی ہیں وہ ،مسکرائیں اور کہنے لگیں تم کیسے ہو؟ آج صبح سویرے ہی․․․․․․․․․ جی ماں جی آپ کو سلام کرنے آگیا۔
اور ہاں ایک اور بات․․․․․․․․․ میں آپ کو Wishکرنے آیا ہوں۔ کس بات کی Wish ،انہوں نے پوچھا۔ ماں جی!آج مدر ڈے ہے ناں۔ جیتے رہو میرے بچے ،سدا خوش رہو، خوشیاں دیکھو۔ ان کی آواز کا زیرو بم میں کیسے تحریر کروں اور ان کے آنسو کیسے صفحہ پر بکھیروں۔ تھوڑی دیرآسمان کی طرف ٹکٹکی باند ھ کر دیکھتی رہیں،بالکل گم سم۔آپ ٹھیک توہیں ماں جی!میری آوازسن کرچونک سی گئیں اورواپس اسی دنیامیں لوٹ آئیں۔اب توتمہارے سر کے بالوں اورداڑھی میں کافی سپیدی آگئی ہے ،کیاتمہارے پوتے پوتیاں تم سے کہانی سننے کی فرمائش کرتے ہیں؟جی ہاں،کبھی کبھار،وگرنہ آج کل تواسکول کاہوم ورک اوربعدمیں کمپیوٹرپربچوں کی مصروفیت کے بعددوستوں سے موبائل فون کی گپ شپ اورٹیکسٹ پیغامات نے توگھرمیں عجیب اجنبیت پیداکررکھی ہے کہ بچوں کے پاس اب بڑوں کے پاس بیٹھنے کی فرصت کہاں؟
تم نے مجھے ”مدرڈے“ پرWishکرکے ماں جی تومان لیااوراس میں کوئی شک بھی نہیں کہ میں تم سے عمرمیں کافی بڑی ہوں۔چلوآج ہم دونوں ایک بھولی بسری روائت کوقائم کرتے ہیں۔کہانی سنوگے؟انہوں نے اچانک مجھ سے یہ فرمائش کردی۔”ضرور،کیوں نہیں،مدت ہوئی مجھے کوئی کہانی سنے ہوئے“۔انہوں نے ایک کہانی سنائی۔ آپ بھی سنیں:
ایک شخص اپنی ماں کو پھول بھجوانے کا آرڈر دینے کے لیے ایک گل فروش کے پاس پہنچا۔ اس کی ماں دو سو میل کے فاصلے پر رہتی تھی۔ جب وہ اپنی کار سے نیچے اترا تو اس نے دیکھا کہ دکان کے باہر فٹ پاتھ پر ایک نوعمر لڑکی بیٹھی سسکیاں بھر رہی تھی۔ وہ شخص اس لڑکی کے پاس آیا اور اس کے رونے کا سبب پوچھا۔لڑکی بولی: میں اپنی ماں کے لیے سرخ گلاب خریدنا چاہتی ہوں لیکن میرے پاس صرف پچاس پنس ہیں جبکہ گلاب کی قیمت دو پاوٴنڈ ہے۔یہ سن کر وہ شخص مسکرایا اور اسے دلاسا دیتے ہوئے بولا ،میرے ساتھ اندر چلو میں تمہیں گلاب دلادیتا ہوں۔ اس نے بچی کو گلاب خرید کر دے دیا اور اپنی ماں کے لیے پھولوں کا آرڈر بک کروایا۔ دکان سے باہر آنے کے بعد اس نے لڑکی کو گھر تک پہنچانے کی پیشکش کی۔ یس پلیز !لڑکی نے جواب دیا آپ مجھے میری والدہ کے پاس لے چلیں۔ لڑکی کی رہنمائی میں وہ ایک قبرستان تک پہنچے۔ لڑکی نے وہ سرخ گلاب ایک تازہ بنی ہوئی قبر پر رکھ دیا اور دعا مانگنے لگی۔ وہ شخص پلٹ کر گل فروش کے پاس پہنچا اس نے اپنا آرڈر منسوخ کرادیا اور ایک گل دستہ لے کرفوری اپنی ماں سے ملنے کے لیے روانہ ہوگیا۔
آخری فقرہ کہتے ہوئے ان کی آوازکپکپانے لگی تومیں نے اپنی جھکی گردن اٹھاکران کے چہرے پرنظرڈالی توانہوں نے منہ پھیرلیاکہ میں ان کی آنکھوں کی چغلی نہ پکڑلوں۔ سنا ہے تم اخبارات میں لکھتے ہو۔”لگتاہے جوبچے اپنی ماووٴں سے ہزاروں میل دوررہتے ہیں،اب کیاوہ اپنی ماں کی قبرپرسرخ گلاب رکھ کرہی محبت کااظہارکریں گے؟ کتنا مشکل ہے اس طرح جینا․․․․․․․․․․! “اس سوال کاہے کوئی جواب آپ کے پاس! اگرنہیں توپھرجلدی کیجئے کہ ہمارے لئے توہردن”مدرڈے“ہے۔
بنجر کھیت میں جیون کی اک دکھیاری بوڑھی ماں
بویا نہیں، جو کاٹ رہی ہے