نو
کشمیر کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی جو قرار داد ہے اس میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو آج کے کشمیریوں کی مانگ سے میل کھاتا ہو۔ اول تو یہ بات توجہ کے قابل ہے کہ کشمیر میں اب کوئی جد و جہد آزادی موجود نہیں ہے۔ کشمیری نوجوانوں کو تھوڑے بہت جو تحفظات ہیں وہ حکومت کی پالیسیوں سے ہے اور ہندوستانی حکومت ان کے تحفظات کو دور کرنے کی خاطر خواہ کوشش کر رہی ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر فرض کر لیں کہ کشمیر میں کوئی تحریک موجود ہے تو وہ کم ازکم پاکستان کے ساتھ الحاق تو ہر گز پسند نہیں کریگا۔ یہ بات نہ صرف وہاں کی حکومت بلکہ عوام کو بھی معلوم ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ مختلف ممالک کو اپنے محفوظ نہ ہونے کی دہائی دے کر ہمدردی حاصل کرنے کہ اس بہتر طریقہ پاکستان میں ایجاد نہیں ہو سکا ہے۔
نواز شریف نے بھی اسی حکمت عملی کو اپنانے میں عافیت سمجھی کہ فوج کی بات سے رو گردانی کہیں تاریخ کے دہرائے جانے کا سبب نہ بنے۔ جو بھی ہو لیکن پاکستان کی نیت کا حال اب کشمیر کے بچوں کی زبان سے بھی پتہ چلتا ہے جو اب کسی بھی معاملے میں پاکستان کی مداخلت کے نہ صرف خلاف ہیں بلکہ پاکستان کو ایک ایسا ملک تصور کرنے پر مجبور ہیں جو کشمیر کے نام پر اپنے لیے مراعات کا سودا کرتا ہے۔