ہندستان نے ماضی کی روایت کو بر قرار رکھتے ہوئے ۔ ایک بار پھر ہند و پاک کے درمیان کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی پیشکش کی ہے اور یہ امید ظاہر کی ہے کہ پڑوسی ملک کے ساتھ بہتر تعلقات بحال ہوسکے تاکہ دونوں ممالک اختلافات دور کر کے خطے میں خوشگوار ماحول کو پروان چڑھانے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ انہون نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ جب تک ہندستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات بہتر نہیں ہوتے تب تک مکمل طور پر خوشحال بر صغیر کے مقصد کو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔کچھ مبصرین نے کل ہندستان کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کے جموں دورے کے اس بیان کے بارے میں لکھا ہے کہ ہندستان کو جب بھی کوئی وزیر یا سیاست داں اور بالخصوص وزیر اعظم اس خطے کا دورہ کرتے ہیں تو ضرور ہند وپاک کے رشتے پر بات ہوتی ہے اور ضرو ر کوئی نہ کوئی اعلان کیا جاتا ہے ۔ اٹل بہار ی واجپئی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ منموہن سنگھ نے بھی اسی روایت کے مدنظر مذاکرات کی بات کہی ہے ۔ لیکن اس خیال کو غیر ضروری طور پر طول دینے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ اس کو کسی سیاق میں دیکھنے کی ضرورت ہے ، کیونکہ مذکرات کے سلسلے میں طویل جمود کے بعد بھوٹان کی کانفرنس کے بعد اس کی ابتدا ہوبھی ہوچکی ہے اور دونوں ممالک نے اس پر اتقاق رائے ظاہر کی ہے اور اسی ماہ کے آخر میں اس سلسلے کی پہلی کڑی کا آغاز ہونے والا ہے ۔ دونوں ملکون کے داخلہ سکریٹریوں کے درمیان 28 اور 29 مارچ کو نئی دلی میں بات چیت ہونے والی ہے۔
اس لیے ہندستانی وزیر اعظم منموہن سنگھ کے اس بیان کو اس پس منظر میں دیکھ کر ان کے خلوص کی ناقدری کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کو سراہا جانا چاہیے ۔
منموہن سنگھ جو دراصل جموں کی میں شیرِ کشمیر یونیورسٹی آف ایگریکلچر، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں تقسیم اسناد کی ایک تقریب میں شکرت کی غرض سے گئے تھے ۔ تقسیم انعامت کے بعد انھوں نے اپنے خظاب میں اسی بات کا اعادہ کیا تھا جس بات کو انھوں نے کچھ دنوں قبل ہندستان کی پارلیمنٹ میں کہی تھی۔ اس دورے میں جو بیان انھوں نے دیا وہ در اصل ہندستان کا اپنا پرانا موقف ہے کیونکہ ہندستان نےبار بار اپنی جانب سے مذکرات کی پہل کی ہے اور کوشش کی ہے کہ خطے کے امن میں دونوں ممالک اپنا اپنا کردار ادا کریں ۔منومہن سنگھ مذکرات کے حوالے سے جوخاص خاص باتیں کیں وہ اس طرح ہیں ‘‘کشمیر کا مسئلہ پیچیدہ ہے لیکن ہندستانی آئین لچک دار ہے ہمیں احساس ہے کہ کشمیریوں کو سیاسی، سماجی اور جذباتی شکایات ہیں۔ ہم ان شکایات کا ازالہ کرنے کی سنجیدہ کوشش کررہے ہیں۔ ہم نے رابطہ کاروں کو مختلف حلقوں کے ساتھ بات کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے، اور میں سمجھتا ہوں ہمارے آئین کے اندر تمام مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے۔تمام دشواریوں کے باوجود ہم نے پاکستان سے مذاکرات شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ بات چیت ہم کھلے ذہن سے کریں گے ۔ہم دونوں ملکوں کے درمیان تمام تصفیہ طلب معاملات کو دوستانہ مذاکرات اور بامقصد و تعمیری بات چیت سے حل کرنا چاہتے ہیں اور اس میں جموں و کشمیر کا مسئلہ بھی شامل ہے۔۔۔انھوں نے مزید یہ بھی کیا کہ ہم پاکستان کی حکومت پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ اس خونریزی کا ارتکاب کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے۔ ایک خاص پہو جس پر منموہن سنگھ نے زور ڈال کر اپنی بات کہی وہ یہ کہ پاکستان میں شدت پسند تنطیموں کی سرگرمیاں تشویش کا باعث بنی ہوئی ہیں تاہم پاکستان کے معاشرے میں معقولیت پسند لوگوں میں یہ بات گھر کر گئی ہے کہ پاکستانی معاشرے اور سیاست میں ان تنطیموں کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔’اپنی بات میں زور پید اکرنے کے لیے انھوں نے کہا کہ میں پاکستان سے کہنا چاہوں گا کہ کہ وہ شدت پسند عناصر کے خلاف سخت اور فیصلہ کن قدم اٹھائے کیوں کہ یہ نہ صرف پاکستان بلکہ خطے اور پوری دنیا کے مفاد میں ہے۔’’ ان کے ان تفصیلی بیان سے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ ہندستان مذکرات کے حوالے سے مثبت نتائج چاہتا ہے۔
اس دورے میں انھوں نے اپنی پریس کانفرنس میں ایک اور اہم بات کہی ہے ، جس کا تعلق جموں کشمیر کی صورت حال سے ہے ۔جموں سے دلی روانگی سے قبل پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ جموں کشمیر میں اندھا دھندگرفتاریوں کے حق میں نہیں ہیں اور وہ اس بارے میں وزیراعلیٰ عمر عبداللہ سے وضاحت طلب کریں گے۔ ادھر کشمر کے حالات اتنی تیزی سے بدلے تھے کہ ہر فرد کو اس کی تشویش تھی کہ یہ اچانک کیا ہوگیا ۔ ریاستی حکومت پر بھی لوگ انگلی اٹھانے لگے تھے کہ کہ شاید وہ نظم نسق بحال کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ اسی لیے کئی حلقے اور گوشے سے مرکزی حکومت کی دخل اندازی کی بات کی جانے لگی تھی ۔یہ بھی قیاس کیا جارہا تھاکہ شاید جموں کشمیر کی جلد ہی منتخب حکوم ت کو تحلیل کرنی پڑے ۔لیکن مرکزی حکومت نے صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے تمام معاملات پر گہری نظر رکھتے ہوئے سنجیدگی سے یہ فیصلہ لیا کہ رایستی حکومت اس معاملے کو خوقد سنبھالے ۔ اسی دوروان ریاستی حکومت نے عوامی غم و غصے کو رفع کرنے کی بھی کئی تدبیریں کیں لیکن احتجاج کو دبانے کے لیے سختی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت سے لوگوں کو گرفتار بھی کیا ۔ وزیر اعظم نے اسی حوالے سے اپنے بیان میں ان گرفتاریوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔انھیں اندھادھند گرفتاریوں کے مسئلے پر جموں میں جاری کشمیر اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن پی ڈی پی نے شدید احتجاج کیا تھا۔اس حوالے سے حکومت نے بھی مانا ہے کہ چار ہزار چونسٹھ نوجوانوں کو پچھلے سال کی احتجاجی تحریک کے دوران گرفتار کیا گیا اور ان میں سے تین ہزار نو سو لڑکوں کو رہا کر دیاگیا ہے۔لیکن پی ڈی پی کے رکن اسمبلی نظام الدین بٹ نے ایوان کو اعداد و شمار بتاتے ہوئےکہا کہ : ’چار ہزار سات سو بانوے نوجوانوں کو پتھراؤ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ ابھی بھی مختلف تھانوں اور جیلوں میں قید ہیں۔‘ وزیر اعظم کے اس بیان سے اس بات کی امید کی جارہی ہے کہ جو لوگ اب بھی اس طرح کے الزامات میں جیلوں میں بند ہیں وہ جلد ہی رہا ہوسکتے ہیں ۔ کسی تحریک کو دابنے کے لیے طاقت کا استعمال آخری حربہ ہوتا ہے ، لیکن اس وقت ریاستی حکومت نے اگر ایسا کیا تو یقیناً غلط تھا اب ریاستی حکومت جموں کشمیر میں امن و امان قائم کرنے کے لیے اس سمت میں پہلی کوشش یہ کرے کہ وہ ان لوگوں کو رہا کرے اور ان کو قومی دھارے میں شامل ہونے کے لیے تحریک دے ۔
واضح رہے کہ پولیس پچھلے سال کی احتجاجی تحریک دوبارہ شروع کیے جانے کے امکان کو روکنے کے لیے مختلف اقدامات کرہی ہے جن میں ’مشتبہ سنگ بازوں‘ کو بھی گرفتار کیا جارہا ہے۔
مسٹر سنگھ نے اس سے قبل یونیورسٹی کنوکیشن سے خطاب کے دوران کہا کہ کشمیر کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے لیکن بھارتی آئین بہت لچک دار ہے اور اس میں تمام مسائل کے حل کی گنجائش موجود ہے۔