اردو ایک زبان نہیں ، تہذیب کا نام ہے اور اس کی جڑیں ہماری سر زمین سے کچھ ایسے وابستہ ہیں کہ گاندھی جی اس زبان کو ھندوستان کی زبان کہتے تھے ۔ آزادی تک یہی زبان تھی جوعوام کے درمیان مقبول تھی ۔ عام گفتگو سے لے کر تجارت اور قانون تک یہی زبان حاوی تھی ۔ اور یہ اردو ہی تھی جس نے ملک کو آزاد کرانے میں نمایاں کردار انجام دیا ۔ اس لیے اردو کا موازنہ ہندوستان کی دیگر زبانوں سے نہیں کیا جا سکتا ۔ اردو کا معاملہ الگ ہے۔ اگر اردو کو کمزور کیا جاتا ہے تو اس سے ملک کا سیکولر کردار کمزور ہوتا ہے ۔ اور اس کے ساتھ ہی ملک میں جمہوریت کا ڈھانچہ بھی کمزور ہوجاتا ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ سیاست نے اردو کا رشتہ صرف مسلمانوں سے استوار کیا اور آہستہ آہستہ اس زبان کو حاشیہ پر ڈالنے کی کارروائی بھی زور پکڑنے لگی ۔ کانگریس نے اردو کو فروغ دینے کے لئے وعدوں کا سبز باغ تو دکھایا لیکن کہیں کوئی عمل نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ آج کی تاریخ میں دوردرشن کا اردو چینل بھی سیاست کی بھینٹ چڑھ چکا ہے –
انتخابات آتے ہی سیاسی پارٹیوں کو مسلمانوں کی فکر ہو جاتی ہے ۔ اور مسلمان بھی اس بات سے بھی واقف ہیں کہ یہ سیاسی پارٹیاں انہیں ووٹ بینک سے زیادہ اہمیت نہیں دیتیں- افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمانوں کے بھروسے فتح کا خواب دیکھنے والی پارٹیاں بھی اردو کے حق میں کوئی منشور جاری نہیں کرتیں۔ لیکن اب وقت کا تقاضہ ہے کہ مسلمان اس ملک میں اپنی سیاسی شناخت، سیاسی حیثٔت اور سیاسی حصہ داری بھی چاہتے ہیں۔ اور مسلمانوں کو وہ پارٹیاں گوارہ نہیں جو اب تک ان کی شناخت سے کھیلتی رہی ہیں۔ اردو پورے ملک کی زبان ہے ۔ آج کے ماحول کو کچھ سیاسی پارٹیوں نے نفرت کا رنگ دینا شروع کیا ہے ۔ اس نفرت کے رنگ کو محبت میں تبدیل کرنے کا کام اردو ہی کر سکتی ہے۔ اس لیے اردو کے بہی خواہ، اس زبان سے محبت کرنے والے یہ بھی مانگ کرتے ہیں کہ سیاسی پارٹیاں اپنے منشور میں اردو کے فروغ کا بھی ذکر کریں۔ اردو اگر ایک بار پھر سے گنگا جمنی تہذیب کا حصہ بن جاتی ہے تو ہم بہت حد تک نفرت کے ان رنگوں کو دھونے میں کامیاب ہو سکیں گے، جو ہمیں ایک مدت سے پریشان کیے جارہے ہیں۔ آر ایس ایس کے ذریعہ اردو اخبارات نکالنے ، اردو چینلس کھولنے۔ اور ریڈیو اف ایم پر اردوکے پروگرام شروع کیے جانے کی خبریں اردو زبان کو خطرناک سیاسی ایجنڈے سے جوڑتی ہیں۔ اردو کے خلاف ہونے والی اس سازش کو اردو والے قبول نہیں کریں گے۔ اور اردو کے فروغ سے الگ اُسے کسی سازش یا خطرناک سیاسی ایجنڈے کا حصہ بننے نہیں دیا جائے گا۔