ہندستان کی تعمیر وترقی میں میں علمائے کرام کی خدمات
اور
موجودہ دورمیں قیادت کا فقدان
ہندستان کی تعمیر وترقی کی تاریخ میں ہندستان کے صوفیا اور علمائے کرام نے گراں قدر خدما ت انجام دیئے ہیں لیکن جائے افسوس یہ ہےکہ اب علما کی قیادت کافقدان نظر آرہا ہے ۔ ہندستان کی پہلی جنگ آزادی سے آزادی ٴ وطن تک کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہو گا کہ علمائے کرام نے نہ صرف ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیا بلکہ ہر طرح کی تحریک اور احتجاج کی قیادت علما نے کی ۔ لیکن یہ کیا ہو ا کہ آزادی کے بعد سے ہی اچانک علمائے کرام سین سے غائب ہوگئے ۔ کسی بھی طرح کی تحریک اور قیادت کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں سے دور ہوتی گئی ۔ اس ایک وجہ جو عام طور پر یہ جانی جاتی ہے کہ علمائے کرام نے جمہوری نظام کی خامیوں کو دیکھتے ہوئے اپنے دامن کو بچانے کےلیے اور صاف ستھرا رکھنے کے لیے خود کو سیاست سے دور رکھنا ہی مناسب سمجھا ۔ دوسر ی وجہ یہ بتائی جاتی ہےکہ تقسیم ملک کے بعد نفسیاتی طور پر مسلمانوں پر ایک دباوؤ بن گیا اور علما کی ایک بڑی تعداد پاکستان چلی گئی ۔ یہاں تک تو درست ہے کہ تقسیم کی بعد ملت کے شیرازے میں ایک بکھراؤ نظر آنے لگا ۔ لیکن کسی نے بڑھ کر اس کو جوڑنے کی منظم کوشش نہیں کی۔ بلکہ ہوا یہ کہ مسلک اور عقیدے کے نام پر کئی شہروں میں مستقل فساد ہوتے رہے ۔الگ الگ خیموں میں بٹ کر علمائے کرام دینی اور سماجی فرائض ضرور انجام دیتے رہے ۔ مگر سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھ کر سب دور دور رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب اتنے دنوں کے بعد جب ضرورت محسوس کی جانے لگی ہے تو اس جانب بھی متوجہ ہوئے ہیں ۔ یہ ایک اچھی کوشش ہے ۔
جمعیت العلما کا حالیہ جلسہ ایک کامیاب کوشش ہے ۔ اس طرح کی کوششوں سے ملک کی دوسری بڑی اکثریت کو ملک میں ساجھا مل سکتا ہے ۔لیکن اس کے لیے ایک اور بڑا کام کرنا ہوگا جو شاید اس سے بھی مشکل اور کٹھن ہے ۔ اس کے علاوہ اپنے طریقہ ٴ کار میں بھی کچھ تبدیلی لانے کی ضرورت ہوگی۔ بڑا کام یہ ہےکہ ہندستان میں عام طور پر جمعیت العلما میں وہی لوگ شامل ہیں جن کا تعلق دیوبند سے ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا شخص دور دور تک نظر نہیں آتا ۔ اس لیے اگر ایسی کوئی کوشش کی جائے کے تمام مسالک و مشارب کے لوگ کسی ایسے جلسے میں شامل ہوسکیں تو اس کے اثرات اور بھی پائیدار ہوں گے ۔ ابھی حکومت بھی جانتی ہے کہ ہندستان میں مسلمان کئی خیموں میں بٹے ہوئے ہیں اور کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں ہے جہاں سب مسلمان کے نام پر جمع ہوسکیں ، یہاں تک کہ اب پرسنل لا ء کے معاملے میں بھی الگ الگ آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہمارا انداز ہمیشہ مدافعانہ رہتا ہے ۔ مثلا ً دہشت گردی کے حوالے سے دیکھیں تو کم از کم پچھلے دو تین سال میں مسلمانوں کی جانب سے دہشت گردی کی مخالفت میں جتنی آوازیں اٹھی ہیں ، اتنی تو غیر مسلموں کی جانب سے بھی نہیں اٹھی ہیں ۔اس لیے ہر جگہ اور ہر محفل میں مسلمانوں کی جانب سے دہشت گردی کی مخالفت کا جو فیشن چل پڑا ہے اسے بھی روکنے کی ضرورت ہے ۔جس انداز سے دوسرے شہری اس کی مخالفت کرتے ہیں اسی انداز سے ہمیں بھی کرنے کی ضرورت ہے لیکن صرف مسلمان ہونے کے ناطے ہم زیادہ زور سے چلائیں یہ بات اچھی نہیں ۔
سوال یہ ہےکہ جمعیت کے اتنے بڑے اجلاس میں جب ملک کے وزیر داخلہ بابری مسجد کی مسماری کی بات کرتے ہوئے اظہار تاسف کرتے ہیں تو حکومت سے ہم مجتمع ہو کر کیوں یہ نہیں پوچھ سکتے کہ مسجد کو شہید کرنے والے افراد او ر پارٹی کے حوالے سے حکومت کیا کر رہی ہے۔ آج تک مسلمانو ں کی جانب سے ایسی کوئی تحریک نہیں چلی جس میں فرقہ وارانہ فساد میں مارے جانے والوں کی باز آباد کاری کی مانگ کی گئی ہو۔ملک میں جب سکھ قوم اپنے سکھ بھائیوں کے قتل عام کے لیے احتجاج اور دھرنا دیتے ہیں تو وہ کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے، اس احتجاج کو درج کرانے کےلیے جب جرنیل سنگھ چدمبرم پر جوتا پھینکتا ہے تو وہ مجرم قرار نہیں پاتا ۔ کیوں ؟ صرف اس لیے کہ وہ مجتمع ہیں جب کہ دوسری حقیقت یہ ہے کہ وہ تعداد میں ہم سے بہت ہی کم ہیں ۔ اور ہمارا تصور یہ ہے کہ اگر مسلمان اپنی قوم کے لیے کوئی مطالبہ کرے تو دوسرے کے کندھے کا سہارا لے ۔ آج تک کوئی ایسا جلسہ نہیں ہوا جس میں غیروں کو مدعو کر کے ان کی زبان سے کہلوانے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ جب ہم اپنے جلسوں میں رام دیو بابا کو بلائیں گے تو ہمیں بھی ان کے یہاں جانے کا جگر رکھنا ہوگا ۔ اولاً ایک تو وہ ہمیں کسی ایسے جلسے میں بلاتے ہی نہیں اور اگر بُلا لیا اور چلے گئے تو ہماری قوم ہمیں پر لعنت بھیجتی ہے۔ اس صورت حال سے نپٹنے کے لیے بھی ہمیں تیار رہنا ہوگا۔
میں سمجھتا ہوں کہ جمعیت کے جلسوں اور ریلیوں نے مسلمانوں کی موجودگی کو درج تو کرایا ہے مگر اس کا مدافعانہ انداز شاید وقت کی ضرورت ہو ، لیکن اگر اپنے وقار کے ساتھ ہم اپنے مطالبات رکھنے کو تیار ہیں اور مسائل پر کھل کر بات کرنے کو تیار ہیں تو ضرور جمہوری طریقہ اپنا نا ہوگا لیکن حکومت پر یہ بھی واضح کرنا ہوگا کہ آج تک ہندستان کی تاریخ میں کوئی ایسی تنظیم یا مدرسہ کی کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جس نے دہشت گردی کو سپورٹ کیا ہو لیکن اسی ملک میں کئی ہندو تنظیمیں ہیں جو اس طرح کے امور میں شامل ہیں ، حکومت آج تک صرف سیمی کے نام پر کئی گنہگار اور کئی بے قصوروں کو پکڑ چکی ہے اور اس کی تشہیر بھی خوب ہوتی ہے ۔ لیکن مودی جیسا شخص موجود ہے جو مدد مانگنے پر احسان جعفری جو ہمارے جمہوری نظام کا ایک اہم رکن تھے ، انھیں گالیاں دیتا ہے ، شیو سینا کے لوگ کھلے عام مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ، سناتن سنستھان کے لوگ اس دہشت گردی کے الزام میں پکڑے جاتے ہیں ، تب حکومت اور اس کے عملے اور پولیس کےلوگ شور کیوں نہیں مچاتے ،حکومت سے اس طرح کے سوالوں کے جواب مانگنے کے لیے ہمیں شاید کچھ اور حکمت عملی بنانے کی ضروت ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور پہلو ایسا ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان اگر کھل کر مسلمان کے لیے کام کرے تو وہ قدامت پرست کیسے ہو سکتا ہے ؟ لیکن یہ عام روش بن چکی ہے کہ مسلمان سب سے زیادہ مسلمان کی ہی مخالفت کرتا ہے ۔ جب کہ اسی ملک میں کئی اقوام ایسی ہیں جو کھل کر اپنی قوم کے لیے باتیں کرتی ہیں ۔ ہمیں بھی ہندستان کے شہری ہونے کے ناطے کھل کر ملک سے اور حکومت سے بات کرنے کا انداز سیکھنا ہوگا اور مدافعانہ انداز کے بجائے حکیمانہ اور دانشمندانہ قدم اٹھانا ہوگا۔اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہمارے علما بھی مسالک و مشارب کے جھگڑے سے الگ ہوکر قوم کی قیادت کےلیے سامنے آئیں گے اور وہ مسلمان جو سیاست میں ہیں انھیں یہ سمجھنا ہوگا کہ قوم کی خدمت کرنا سیکولراز م کے منافی نہیں ہے ۔
ہندستان کی تعمیر وترقی میں میں علمائے کرام کی خدمات اورموجودہ دورمیں قیادت کا فقدان کے عنوان آپ کا یہ مضمون واقعی دل کو چھو لئےنے والا ہے۔ جمیعت کے علماء میں بہت سارے دوسرے علماء شامل نہیں ہوتے یہ جان کر بہت افسوس ہوا۔ دنیا تو یہی ان کی باتوں کو سن کر یہی سمجھ رہی ہوگی کہ یہی آواز سارے مسلمان کی جب کہ حقیقت کچھ اور ہے۔ آپ نے اس حقیقت پر سے پردہ ہٹا کر دنیا کی آنکھیں کھول دیں۔
آپ کا مضمون سلجھے ہوئے مسلمانوں کے دل کی آواز ہے۔آپ کو اس کے لئے مبارک باد!
جمعیت العلما کا حالیہ جلسہ ایک بڑی کونٹرو ورسی کا باعث بھی بنا ہوا ہے۔ ایک خاص so called قومی گیت کی وجہ سے۔میری سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ اس ملک کے پڑھے لکھے طبقے اس بات کو کیوں نہیں سمجھ پاتے کہ اگر کسی بات سے مذہبی جذبات کو ٹھس پہنچ رہی ہے تو اس کو ترک کردیں جب کہ یہ بات بھی سب پر عیاں ہے کہ اس گیت کے نہ گانے سے کسی کا کوئی نقصان نہیں ہو سکتا۔ نہ ہی اتنے سالوں سے گاتے چلے آ رہے لوگوں کا کبھی کچھ بھلا ہی ہوا ہے۔لوگ ایک عجیب سی ہٹھ دھرمی میں لگے ہوئے ہیں۔
آپ کا مضمون سلجھے ہوئے مسلمانوں کے دل کی آواز ہے۔آپ کو اس کے لئے مبارک باد!
جمعیت العلما کا حالیہ جلسہ ایک بڑی کونٹرو ورسی کا باعث بھی بنا ہوا ہے۔ ایک خاص
so called
قومی گیت کی وجہ سے۔
میری سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ اس ملک کے پڑھے لکھے طبقے اس بات کو کیوں نہیں سمجھ پاتے کہ اگر کسی بات سے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچ رہی ہے تو اس کو ترک کردیں جب کہ یہ بات بھی سب پر عیاں ہے کہ اس گیت کے نہ گانے سے کسی کا کوئی نقصان نہیں ہو سکتا۔
نہ ہی اتنے سالوں سے گاتے چلے آ رہے لوگوں کا کبھی کچھ بھلا ہی ہوا ہے۔
لوگ ایک عجیب سی ہٹھ دھرمی میں لگے ہوئے ہیں۔
انظار صاحب نے بالکل صحیح کہا کہ اس گیت کو لے کر لوگ عجیب ہٹھ دھرمی میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر اس ناول کو پڑھیں تو اس میں اسلام اور مسلامان دشمنی کے ارادے کا صاف پتہ چلتا ہے۔ اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ ناول آنند مٹھ صرف اور صرف انگریزوں کو خوش کرنے کے لئے لکھا گیا تھا۔ وہی انگریز حضرات جن سے پوری ہندوستان قوم پریشان ہوئی (سوائے چند مفاد پرست آنند مٹھیوں کے) اور جن کے ظلم سے آزادی حاصل کرتے ہوئے کئی کئی نسلیں قربان ہوئیں۔ ثابت تو یہی ہوا کہ جو لوگ اس گیت کی ہمایت کرتے آ رہے ہیں ان کی اس ملک سے دشمنی ہے۔ اور وہ کسی بھی اعتبار سے ملک کے خیر خواہ نہیں بلکہ انگریزوں کے خیر خواہ ہیں اور ان کا اسرار اس گیت کے لئے ایک ملک مخالف قدم ہے نہ کہ دیش بھکتی۔
بھئی آپ نے سولہ آنے سچ کہا کہ اس گیت کی حمایت کرنے والے اصل میں ملک دشمن اور دیش دروہی ہیں نہکہ دیش بھکت۔!
واقعی یہ سچ ہے کہ وہ ناول انگریزوں کو خوش کرنے کے لئے لکھا گیا تھا۔
کیا خوب کہی بھائیوں نے۔ لوگ بھلے ہی اس بات سے چراغ پا ہوں لیکن سچ تو یہی ہے کہ ناول انگریزوں کو خوش کرنے کے لئے لکھا گیا تھا۔
آزادی حاصل کرتے ہوئے ہمارے بہت سے بزرگوں نے کیسی کیسی شہادتیں پائیںآج اگر ملک سے محبت کرنے والے حضرات اس بات کا احترام کریں اور اسی احترام میں ان تمام چیزوں کو ملک میں بین کیا جائے یا ان تمام چیزوں کو ترک کرنے کا فیصلہ لیا جائے جو ظالم انگریزوں کی حمایت میں یا ان ظالموں کی خوشامد میں لکھا یا کیا گیا ہے تو اج آنند مٹھ سر فہرست ہوگا اور اس گیت کو گانے والوں کو دیش دروہی قرار دیئے جائے گے۔
انظار صاحب نے بالکل صحیح کہا کہ اس گیت کو لے کر لوگ عجیب ہٹھ دھرمی میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر اس ناول کو پڑھیں تو اس میں اسلام اور مسلامان دشمنی کے ارادے کا صاف پتہ چلتا ہے۔ اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ ناول آنند مٹھ صرف اور صرف انگریزوں کو خوش کرنے کے لئے لکھا گیا تھا۔ وہی انگریز حضرات جن سے پوری ہندوستان قوم پریشان ہوئی (سوائے چند مفاد پرست آنند مٹھیوں کے) اور جن کے ظلم سے آزاد ہونے میں کئی کئی نسلیں قربان ہوئیں۔ ثابت تو یہی ہوا کہ جو لوگ اس گیت کی حمایت کرتے آ رہے ہیں ان کی اس ملک سے دشمنی ہے۔ اور وہ کسی بھی اعتبار سے ملک کے خیر خواہ نہیں بلکہ انگریزوں کے خیر خواہ ہیں اور ان کا اسرار اس گیت کے لئے ایک ملک مخالف قدم ہے نہ کہ دیش بھکتی۔
انظار صاحب نے بالکل صحیح کہا کہ اس گیت کو لے کر لوگ عجیب ہٹھ دھرمی میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر اس ناولآنند مٹھ کو پڑھیں تو اس میں اسلام اور مسلامان دشمنی کے ارادے کا صاف پتہ چلتا ہے۔ اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ ناول آنند مٹھ صرف اور صرف انگریزوں کو خوش کرنے کے لئے لکھا گیا تھا۔ وہی انگریز حضرات جن سے پوری ہندوستان قوم پریشان ہوئی (سوائے چند مفاد پرست آنند مٹھیوں کے) اور جن کے ظلم سے آزاد ہونے میں کئی کئی نسلیں قربان ہوئیں۔ اس سے ثابت تو یہی ہوا کہ جو لوگ اس گیت کی حمایت کرتے آ رہے ہیں ان کی ہی اس ملک سے دشمنی ہے۔ اور وہ کسی بھی اعتبار سے ملک کے خیر خواہ نہیں بلکہ انگریزوں کے خیر خواہ ہیں اور ان کا اسرار اس گیت کے لئے ایک ملک مخالف قدم ہے نہ کہ دیش بھکتی
اس ملک میں ہی نہیں بلکہ تمام عالم کے مسلمان کہیں بھی ایک نہیں ہیں۔ آپ کا مشورہ بالکل درست ہے کہ جمعیت العلما کے جلسے میں سبھی مسلک کے علماء سبھی خطے کے لوگوں کا پارٹیسیپیشن ضروری ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ ہر مسلمان دیوبند کی طرح نہیں سوچتا اور نہ ہی اس کو دیو بند سے کوئی بیر ہے۔
آپ کا کی تحریر پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ کوی تو ہے جو سچے ہندوستانی اور سچے انسان کی طرح سوچتا ہی نہیں بلکہ اپنی آواز بھی ایمانداری سے بلند کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔
آپ نے ہندوستانی مسلمان کے دل کی آواز کو بلند کیا ہے کہ حکومت سے ہم مجتمع ہو کر کیوں یہ نہیں پوچھ سکتے کہ مسجد کو شہید کرنے والے افراد او ر پارٹی کے حوالے سے حکومت کیا کر رہی ہے۔واقعی آج تک مسلمانو ں کی جانب سے ایسی کوئی تحریک نہیں چلی جس میں فرقہ وارانہ فساد میں مارے جانے والوں کی باز آباد کاری کی مانگ کی گئی ہو۔ ملک میں جب سکھ قوم اپنے سکھ بھائیوں کے قتل عام کے لیے احتجاج اور دھرنا دیتی ہیں تو وہ کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے، اس احتجاج کو درج کرانے کےلیے جب جرنیل سنگھ چدمبرم پر جوتا پھینکتا ہے تو وہ مجرم قرار نہیں پاتا ۔ کیوں؟ دراصل اس ملک کے سیاست دانوں کی نیت خراب ہے۔ یہ نیت آج خراب نہیں ہوئی بلکہ آزادی کے بعد سے ہی خراب نظر آتی ہے۔
مسلمان بس ایک ہو جائیں اور اپنی حقیقت کو اس ملک میں سمجھ لیں تو مجھے لگتا ہے کہ سب کو تسلیم کرنا پرے گا کہ مسلمان وہی مسلمان ہیں جنہوں نے ہندوستان کی جنگ آزادی میں اور ملک کی طرقی میں اہم کردار نبھایا ہے۔
آج یہ بات جگ ظاہر ہے کہ کہ ہندوؤں کی کئی تنظیمیں ملک میں اور ملک سے باہر دہشت گردی پھیلانے میں ملوث ہیں۔ لیکن ان پر ملک کا دانشور طبقہ بالکل خاموش ہے۔ اس حوالے سے کئی گرفتاریاں بھی ہوئیں لیکن کوئی اہم کاروائی عمل میں نہیں آئی۔ ہاں عزیز برنی صاحب نے کچھ بہت زور دیا تو ہے لیکن وہ بھی لگتا ہے کہ وہ خود کو مشتہر کرنے پر زیادہ زور دیتے ہیں۔
ہاں آپ نے یہ بالکل درست فرمایا کہ ہمارے ملک کے مسلمان خاص کر جو سیاست میں سرگرم ہیں انہیں اپنی قوم کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے اکثر شرم محسوس ہوتی ہے۔ پتہ نہیں انکا سیکولرزم اس میں ڈگمگانے کیوں لگتا ہے؟
آپ نے بالکل درست فرمایا کہ علمائے کرام نے جمہوری نظام کی خامیوں کو دیکھتے ہوئے اپنے دامن کو بچانے کےلیے اور صاف ستھرا رکھنے کے لیے خود کو سیاست سے دور رکھنا ہی مناسب سمجھا ۔ دوسر ی وجہ یہ بتائی جاتی ہےکہ تقسیم ملک کے بعد نفسیاتی طور پر مسلمانوں پر ایک دباوؤ بن گیا اور علما کی ایک بڑی تعداد پاکستان چلی گئی ۔ یہاں تک تو درست ہے کہ تقسیم کی بعد ملت کے شیرازے میں ایک بکھراؤ نظر آنے لگا ۔ لیکن کسی نے بڑھ کر اس کو جوڑنے کی منظم کوشش نہیں کی۔ بلکہ ہوا یہ کہ مسلک اور عقیدے کے نام پر کئی شہروں میں مستقل فساد ہوتے رہے ۔الگ الگ خیموں میں بٹ کر علمائے کرام دینی اور سماجی فرائض ضرور انجام دیتے رہے ۔ مگر سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھ کر سب دور دور رہے
اور آج اگر پھر سے لوگ ایکٹیو ہوئے ہیں تو نیک فعال ہے لیکن سر آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ لوگ آپس میں کبھی نہیں ملنے والے، اپنے آپ کو سب سے اعی سمجھتے ہیں اور تعصب بھی ہے ان میں۔ پڑھے لکھے انگریزی بولنے والے ہیں لیکن وسیع القلبی نہیں ہے ان میں
اور وسیع القلبی نہیں ہے تو سیکولر تو ہو ہی نہیں سکتے۔ آپنے بات تو صحیح کہی کہ قوم کی خدمت کرنا سیکولرزم کی منافی نہیں لیکن قوم کی خدمت کے لئے وہ جذبات تو دل میں پیدہ ہوں۔
آپ کی باتیں اچھی لگیں۔
بہت خوشی ہوئی یہ جان کر کہ اتنا وسیع نظریہ رکھنے والے حساس مفکر ہیں ابھی ہندوستان میں۔
آپ کی نظر ہر مسائل پر ہے اس کے لئے مبارک باد!
خیر اندیش
رستم علی شیخ
آپ کا مضمون پڑھا۔ بہت دیانت داری سے لکھا گیا مضمون ہے۔ یہ صحیح کہا آپ نے کہ جمیعت العلماء کی مجلسوں میں دیو بند کے علاوہ دوسرے لوگوں کو شامل نہیں کیا جاتا۔ اور آپ نے بہت مناسب بات کہی کہ ہم مسلمانوں نے دہشت گردی کو کچھ زیادہ ہی اہمیت دے دیا ہے۔ ہر محفل میں ہر مجلس میں دہشت گردی کے متعلق نعرے بلند ہوتے دکھائی دینے لگے ہیں آج کل۔ جب کہ اور بھی بہت ساری وجہیں جن کے لئے ہمیں آواز اٹھانی چاہئے۔ بیشک دہشت گردی ایک اہم مسئلہ ہے لیکن واحد مسئلہ نہیں۔ مسلمانو ں کی قیادت کا مسئلہ۔ مدسے سے تعلیم پانے والے عالموں کے لئے روزگار کا مسئلہ۔ مسلمانوں کے کھوئے ہوئے وقار کو واپس دلانے کا مسئلہ وغیرہ بہت سارے مسائل ایسے ہیں جن پر دھیان بھی نہیں دیا جا رہا۔
آپ کے مشورے بہت نیک ہیں۔ سیاسی رہنماؤں اور علماء کرام کو سبق لینا چاہئے۔