Home / Socio-political / مشاعرہ کو معاشرہ سے ہم آہنگ کرنے کی ایک کوشش

مشاعرہ کو معاشرہ سے ہم آہنگ کرنے کی ایک کوشش

ر وایت سے انحراف کرتے ہوئے پہلی بار گاؤں میں کل ہند مشاعرہ کا انعقاد۔ مشاعرہ کو معاشرہ سے ہم آہنگ کرنے کی ایک کوشش

ارریا (بہار) ۱۰ پریل () جب تک گاؤں کی ترقی نہیں ہوگی اس ملک، کی ترقی کی بات کرنا حقیقت سے منہہ چرانے کے مترادف ہوگا کیوں کہ تمام سرگرمیوں کا مرکز اب شہر تک محدود ہوگیا ہے جس کی وجہ سے گاؤں کہیں دور چھوٹ گیا ہے۔ یہ بات مقررین نے یہاں آل انڈیا مشاعرہ اور سیمنار کا افتتاح کرتے ہوئے کہی۔

بزم حسن کے زیر اہتمام منعقدہ اس سیمینار اور مشاعرہ میں ضلع پولیس سپرنٹنڈنٹ شیودیپ لانڈے نے کہا کہ گاؤں کے کل ہند مشاعرہ میں شرکت کرکے انہیں بے پناہ مسرت ہورہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا جب گاؤں میں روایتی کھیلوں پر کافی توجہ دی جاتی تھی لیکن گلوبلائزیشن کے اس دور نے گاؤں کو بھی نہیں چھوڑا اور اب گاؤں میں لوگوں کے پاس فرصت نہیں ہے۔انہوں نے لوگوں میں بیداری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تعلیم سے ہی بیداری آئے گی اوراسی وقت ان میں یہ احساس پید ا ہوگا کہ نوکر شاہ ان کے خادم ہوتے ہیں اور وہ اپنے کام ان سے بے دھڑک کراسکتے ہیں۔

مسٹر لانڈے نے لوگوں میں پولیس کا خوف کااعتراف کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو پولیس سے نہیں ڈرنا چاہئے اور ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ کیوں کہ وہ اپنے حقوق کے تئیں بیدار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بزم حسن مبارکباد کے لائق ہے جس نے اس سمت میں پہل کی ہے اور اپنا پہلا مشاعرہ گاؤں میں منعقد کیا ہے۔اس سے مقامی جہاں شعراء کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے وہیں انہیں یہ ایک پلیٹ فارم بھی مہیا ہوا ہے۔

مشاعرہ اور سیمنار کے کنوینر اور مشہور شاعر زبیرالحسن غافل نے کہ کچھ دہائی قبل تک گاؤں شاعروں اورادیبوں کا محوری موضوع ہوا کرتا تھا لیکن اب گاؤں ہماری تحریروں سے غائب ہوتا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مشاعرے میں جہاں ہم نے مشہور شعراء کو دعوت دی ہے وہیں اس بزم نے مقامی اور نئے شعراء کو اپنے جلوہ گری کا موقع فراہم کیا ہے۔

بزم حسن کے روح رواں ڈپٹی کمشنر (کسٹم اینڈ ایکسائز) نے لوگوں میں اپنی زبان و ثقافت کے تئیں بیدار ہونے پر زور ڈالتے ہوئے کہا کہ اس سیمنار اور مشاعرہ کا مقصد علاقے میں تعلیم اور مسابقت کے تئیں تحریک پیدا کرنا ہے۔یہ مشاعرہ کا انعقاد اس گاؤں میں اس لئے کیا گیا ہے تاکہ مشاعرہ کومعاشرہ سے ہم آہنگ کیا جاسکے ۔

سیمنارمیں متعد مقالہ نگاروں نے اس گاؤں کملداہا کے مرحوم شاعر ظہور الحسن حسن اور مظہر القیوم مظہر کی شاعری کی مختلف جہتوں پر روشنی ڈالی۔ اس کے بعد باضابطہ مشاعرہ کاآغاز ہوا۔ جس مملک کے مختلف حصوں سے تشریف لائے شاعروں نے اپنے کلام سے سامعین کو محفوظ کیا۔ مشاعرہ کی نظامت مشہور شاعر ہارون رشید غافل نے انجام دی۔ چالیس سے زائد شعراء نے اس مشاعرہ میں حصہ لیا۔ جن کے اشعارسے سامعین بہت محظوظ ہوئے اور جن کے اشعار بے حد پسند کئے گئے ان میں سے چند شعراء کے کلام درج َذیل ہیں۔

کلکتہ سے تشریف لائے معروف شاعر حبیب ہاشمی ۔ یہ شعر بہت پسند کیاگیا۔

اللہ اللہ یہ فصاحت یہ بلاغت، یہ کلام۔ علم شرمندہ ہے امی لقبی کے آگے

حامد حسین حامد کا یہ شعر بھی واہ واہ لوٹنے میں کامیاب رہا۔

ہر ایک شخص کو تازہ گلاب دینا ہے۔ بہت اندھیرا ہے روشن کتاب دینا ہے

ابھی اندھیرے میں روشنی سے ملنا ہے۔ جو مجھ کو بھول گیا ہے اسی سے ملنا ہے ۔ (ریحانہ نواب کلکتہ )

وہ سچے لوگ تھے وطن کرگئے آزاد۔ یہ اور لوگ ہیں پھر سے غلام کردیں گے (انورایرج)

ہم ناسپاس کہاں جاکے اب رہیں۔ بستی میں سارے شہر کے ہوشیار آگئے (شمیم فاروقی سابق ڈائرکٹر (اے آئی آر)

شہروں کی طرح کوئی سڑک بے شجر نہیں ۔ کٹتا ہے سفر اب بھی یہاں دھوپ چھاؤں میں۔

بچے بڑوں کو کرتے ہیں اب تک یہاں سلام۔ تہذیب ہے بچی ہوئی کچھ اب بھی گاؤں میں (زبیر الحسن غافل)

چلنے کو ساتھ ساتھ چلے عمر بھر مگر۔ اس کے ہمارے بیچ بہت فاصلہ رہا (کوثر پروین کوثر)

کتنا لکھوں میں حالات کے قصے۔ لکھ لکھ کر تھک گیا ہوں میں گجرات کے قصے (دنیش تپن)

مذہب کے بازار میں بکتے اللہ رام ۔ خون کا کوئی مل نہیں ہے پانی مانگے دام (اسلم حسن)

زبیرالحسن غافل

کنوینر مشاعرہ

08130102660

بزم حسن ارریہ/ نئی دہلی

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *