نالۂ شب گیر :نیا تجربہ ، نیا ڈسکورس
—ڈاکٹر مشتاق احمد
’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘
علامہ اقبال کے عہد تک، میرے خیال سے عورت کی اس سے زیادہ کوئی تعریف ممکن ہی نہیں تھی۔ یعنی عورت کا وجود نہ ہوتو کائنات کی تصویر کا ہر رنگ ادھورا۔ اس تعریف میں عورت وہی برسوں پرانی عورت ہے، جسے مرد اساس معاشرے نے اپنی ضرورتوں کے تحت استحصال اور استعمال کی چیز سمجھ رکھا تھا۔ طاقت، حکمرانی، سلطنت مردوں کے پاس تھی۔ مرد حاکم تھا اور عورت محض ایک جسم بن کر تصویر کائنات میں رنگ بھرنے کا ذریعہ تھی۔ شاید اس سے زیادہ عورت کا کوئی وجود نہیں تھا۔ اور اسی لئے شاعری سے افسانوں اور ناول تک عورت کو اسی کمزوری کے آئینہ میں دیکھنے کی کوشش کی گئی۔ قرۃ العین حیدر کے شہرہ آفاق ناول سیتاہرن میں سیتا رامچندانی کے کردار کا جائزہ لیجئے تو یکے بعد دیگرے مردوں کو نشانہ بنانے والی سیتا آخر میں مظلوم سیتا ہی ثابت ہوتی ہے۔ قرۃ العین حیدر کا قلم بھی عورت کو اس کا صحیح مقام دلانے، وقت کامقابلہ کرنے، حکومت اور طاقت کا استعارہ بنانے میں وہ کردار ادا نہیں کر سکا، جس کی ضرورت تھی۔ نفسیاتی طور پر جائزہ لیں تو سو برسوں میں اپنی مضبوط شناخت کی طرف چھلانگ لگاتی مشرقی عورت کو بغاوت کی علامت کے طور پر یا نئے تصور میں دیکھ پانا اس لئے بھی ممکن نہ تھا کہ ہم اُسے گھر کی چہاد یواری کے اندر ایک کمزورماں، کمزور بیٹی اور کمزور بہن کے طور پر دیکھنے کے عادی ہو چکے تھے۔ ڈپٹی نذیر احمد نے تعلیم نسواں کا مسئلہ اٹھایا تو ان کی مخالفت بھی ہوئی۔ اُس سماج کا تصور کیجئے جب ننھی سی لڑکی کے پائوں گھر سے مدرسہ یا اسکول کی جانب پہلی بار نکلے ہوں گے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ بیس پچیس برس پہلے تک عورت کو وہ آزادی حاصل نہیں تھی کہ وہ اپنے حقوق کے لئے آواز بلندکر سکے۔ اور بیس اکیس برسوں کی بات بھی چھوڑ دیجئے تو ہندوستان سے پاکستان تک آج بھی ایک ایسا معاشرہ سامنے ہے، جہاں عورت زندگی سے روزگار کی طرف قدم بڑھانے تک کے لئے آزاد نہیں۔ گلوبل نظام میں اُڑان کا تصور ان مخصوص ’قدموں‘ کے لئے وقف ہے جو اڑان بھرتی ہوئی میٹرو پولیٹشن شہروں میں آباد ہو جاتی ہیں۔ وومین امپاورمینٹ، وومین آرگنائزیشن، این جی اوز کے باوجود ہمارے معاشرے کا ایک بڑا حصہ اُسے آزادی دینے کے تصور سے کانپ اٹھتا ہے۔ وہ اپنے گھر میں بھی غیر محفوظ ہے اور باہر کی دنیا میں بھی اُس پر خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
نالۂ شب گیر پر گفتگو سے قبل اس عورت کو سمجھنا ضروری ہے، جو زنجیروں اور مردانہ حکومت کی بیڑیوں میں آزادی کی پکار آج بھی کر رہی ہے۔ اب سوال ہے کیا ذوقی نے بھی عورت پر ہونے والے جبر اور ظلم و ستم کی آواز کو قبول کر لیا ہے؟ یا اپنی طرف سے کوئی نئی آواز اٹھانے کی کوشش کی ہے؟ میرے خیال سے اگر نالۂ شب گیر کو نئی آواز یا بغاوت کی پہلی بڑی دستک کا نام دیا جائے تو یہ بھی اس ناول کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔ کیوں کہ ناول کے مطالعہ کے بعد جس نئی دنیا کا دروازہ ہمارے لئے کھلتا ہے، اُسے دیکھنے یا سمجھنے کے لئے جس قوت مشاہدہ اور وژن کی ضرورت ہے، وہ اس عہد میں صرف اور صرف اور ذوقی کے ہاں نظرآتی ہے۔ اور ذوقی اپنے مختلف ناولوں میں یہ نئی دنیا نہ ہمیں صرف دکھا چکے ہیں بلکہ ہمیں حیران بھی کر چکے ہیں۔ نالۂ شب گیر کے مطالعہ کے بعد میں نے گوگل سرچ پر ایسے ناولوں یا کتابوں کے صفحے پلٹنے کی کوشش کی، جو عورتوں کو موضوع بنا کر تحریر کئے گئے تھے۔ مجھے ایک پوسٹ کو دیکھنے اور پڑھنے کاموقع ملا جہاں لکھا تھا۔ 75 Books Every Woman Should Read —۷۵ کتابوں کی تفصیلات تو نہیں دی جا سکتی لیکن کچھ کتابوں کے تذکرے یہاں ضروری سمجھتا ہوں۔ ورجینا وولف کی دلائٹ ہائوس، زیڈی اسمتھ کی وہائٹ تیتھ، سلویا پلاتھ کا دبیل جار، جھمپا لاہری کا دنیمسیک، ٹانی ماریسن کی بی لوڈ، گستاو فلابیر کی مادام بواری، جین آسٹن کی پرائیڈ اینڈ پریجوڈس، جارج ایلیٹ کی مڈل مارچ، سیمون د بوار کی دسیکنڈ سیکس، ایلس منرو کی ہائی وے، ایملی برونٹی کی ودرنگ ہائٹس، اگاتھا کرسٹی کی اینڈ دین، دیر ویرنن، اینے فرینک کی د ڈائری آف اینے فرینک، پرل اس بک کی دی گوڈارتھ، گابرئیل گارسیا مار خیز کی لوان دی ٹائم آف کالرا، ارندھنی رائے کی دگاڈ آف اسمال تھنگس وغیرہ۔ پوسٹ میں اس فہرست کو دی کمپلیٹ لسٹ یعنی مکمل فہرست کا نام دیا گیا ہے۔ میرے لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ ورجینا وولف سے ارندھتی رائے اور جھمپا لاہری تک نئی اور تبدیل ہوتی عورت کو کس نظریہ سے دیکھا گیا۔ لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ فہرست اس وقت تک ادھوری ہے جب تک اس فہرست میں ذوقی کے ناول نالۂ شب گیر کا اضافہ نہ کیا جائے۔ میرا یہ یقین بھی پختہ ہے کہ مغربی ادب میں بھی شاید عورت کو اس نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ بے اطمینانی، اضطراب، تخیل، وجدان اور مثبت تبدیلی کے خوابوں کو دیکھتے ہوئے ذوقی ہمیں ایک ایسے عالمی بازار میں لے آئے ہیں، جہاں گول گول گھومتی ہوئی دنیا نفرت اور عصبیت کے خول سے باہر نکل کر عورت کے قدموں کے پاس پڑی ہے۔ اور یہ عورت ہے، ہندوستانی سرزمین سے پیدا ہونے والی ایک باغی عورت، ناہید ناز۔ انسانی رشتوں کو حریت فکر اور جرأت اظہار کے ساتھ ذوقی نے ایک نئی تعریف، ایک نئی زبان دینے کی کوشش کی ہے۔ اور اس لئے ناہید ناز کے کردار کو صرف بغاوت سے تعبیر کرنا انصاف نہیں ہوگا۔ اجتماعی تہذیب و تمدن کی صورت گری میں، صدیوں کے ظلم و ستم کو سہتی ہوئی ناہید ناز ایک ایسی عورت کے طور پر سامنے آئی ہے، جسے اپنی زیست یا شناخت کے لئے کسی مرد کا ساتھ نہیں چاہئے۔ ایڈز اور کینسر کی طرح حاکم مردوں کے خوفناک وجود کی انکاری کے ساتھ وہ ایک ایسا چہرہ بن کر ابھرتی ہے، جسے اب تک ناولوں اور کہانیوں میں دیکھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ سائنسی اور صنعتی انقلاب کی دستک کے ساتھ خوابوں کی دنیا سے باہر نکل کر، حقیقت سے آنکھیں چار کرنے والی، اپنی آزادی اور شناخت کا اعلان کرنے والی یہ عورت (ناہید ناز) اب پیدا ہو چکی ہے۔ اور اس لئے سیمون د بوار کے یہ لفظ اب پرانے ہو چکے ہیں کہ عورت اب پیدا نہیں ہوتی، بنائی جاتی ہے۔ ذوقی نے ابتدائیہ میں تحریر کیا ہے۔
’’ہم جس معاشرے میں ہیں، وہاں آج بھی عورت کی آزادی کا تصور نہیں کیا جا سکتا— اس لیے ’’نالۂ شب گیر‘‘ صدیوں کی وہ درد بھری موسیقی ہے ،جو شب کے بحر ظلمات کا سینہ چیر کر پیدا ہو رہی ہے… مگر یہاں کون ہے جس کے پاس درد کی ان صدائوں کو سننے کے لئے وقت ہے۔ یہاں کی ہر عورت’ سیمون دبوار‘ ہے، جسے درد بھری آواز میں آخر کار یہی کہنا ہوتا ہے ،عورت پیدا کہاں ہوتی ہے… وہ تو بس بنائی جاتی ہے…‘‘
لیکن کیا یہ تصور کیا جائے کہ یہ عورت صرف ذوقی کے تخیل یا فنٹاسی سے پیدا ہوئی ہے؟ یا اس عورت کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے؟ یا اس عورت کو بننے میں ابھی صدیاں لگیں گی؟ یا یہ کہ اس طرح کی عورت کبھی سامنے آئے گی ہی نہیں؟ یہ عورت صرف خیالوں میں دستک دیتی رہے گی اور مرد معاشرہ اپنی احساس برتری کے طفیل کبھی اس عورت کو سامنے آنے کا موقع ہی نہیں دے گا؟ میں اس سے الگ سوچتا ہوں۔ مجھے خیال ہے کہ یہ عورت پیدا ہو چکی ہے اور بیدار بھی۔ یہ محض تصور یا فنٹاسی نہیں ہے کیوں کہ اسی دنیا میں عورتوں کے تعلق سے ہونے والے ہزاروں واقعات اس بات کی پیشن گوئی کر چکے ہیں کہ عورت کی ذات اب مرد کی محتاج نہیں ہے۔ اسی لئے عورت زندگی سے وابستہ ہر شعبے میں مضبوطی کے ساتھ دخل دینے یا کھڑا ہونے کی کوشش کر رہی ہے بلکہ اس کوشش میں وہ لگاتار کامیاب بھی ہوئی ہے۔ یوں تو اس ناول میں ایک عہد کی دستک سنائی دیتی ہے۔ لیکن یہ ناول محض پندرہ برسوں پر محیط ہے، جب برق رفتاری سے یہ دنیا تغیر و تبدیلی کی وہ داستان سنانے لگی تھی، جس کے ایک سرے پر بھیانک دہشت گردی کے واقعات و حادثات تھے اور دوسرے سرے پر سائنس و ٹکنالوجی میں جنم لینے والے انقلابات تھے، جس نے دنیا کا چہرہ اچانک بدل دیا تھا۔
Y2K یعنی نئی صدی کے ۱۵ برسوں کی یہ دنیا عورتوں سے منسوب ہے۔ مرد صرف مہرہ بن کر رہ گیا ہے۔ عورت ایک بڑی لکیر بن کر ابھری ہے۔ اور وہ طاقت سے مرد کی لکیر کو چھوٹا کرتی جا رہی ہے۔ یہ بغاوت نہیں ہے۔ نئی دنیا کی دہلیز پر عورت کی وہ دستک ہے کہ وہ چاہے تو اکیلی بھی رہ سکتی ہے۔ اور خواہش ہو تو عورت، عورت کے ساتھ ہی زندگی بھی گذار سکتی ہے۔ کہانی کے اخیر میں مصنف کافکا کے لازوال کردار کیکڑے کی جگہ چوہے میں تبدیل ہونا بھی اس بات کا اشارہ ہے کہ اب عورت مرد کو کوئی سایہ دار درخت یا پناہ دینے والے سائبان کا درجہ نہیں دیتی۔ صدیوں سے چلے آرہے ظلم و ستم کی آندھیوں کے بعد وہ آزاد ہوئی ہے اور اپنے لیے، اپنی شناخت کے لئے اسی دنیا میں اپنے نئے دروازے کھول رہی ہے۔ وہ آزاد ہے۔ اور مرد، اس کی آزادی پر ہزاروں حملے کیو ںنہ کرے، لیکن یہ حملہ بھی مرد کی ناکامیوں کو ہی پیش کرتا ہے۔ مرد اپنی احساس برتری اور بلندی سے الگ اب توازن کی طرف لوٹ رہا ہے۔ عورت آزادی کی سیڑھیاں چڑھ رہی ہے۔ اور اس کو یہ سیڑھیاں چڑھنے کا حق بھی ہے۔ اب وہ صرف ایک جسم نہیں ہے۔ وہ آہستہ آہستہ اس مہذب، ترقی یافتہ سماج میں طاقت کا استعارہ بن کر ابھری ہے۔ ناہید ناز کا کردار ایک ایسا کردار ہے، جو ناول کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمارے ذہن و دماغ میں اپنی جگہ محفوظ کرلیتا ہے۔ ذوقی اس زندہ کردار کے لئے بھی یاد رکھے جائیں گے—
انسانی قدریں اگر اعلیٰ ترین معیار پر پہنچ چکی ہیں تو تہذیبوں کا تصادم کیوں سامنے ہے؟ معاشرہ اور ادب کی ذمہ داری کیا ہے؟ تازہ ماحول میں مذاہب کیا وسیع ترہم آہنگی کے لئے نقصان دہ ثابت نہیں ہو رہے؟ جنگی جذبات نئے مسائل کو لے کر سامنے آرہے ہیں۔ اور ان کے درمیان عورت کہیں استحصال اور ہوس کا شکار اور کہیں کوکھ میں ہی مار دی جاتی ہے— انتشار و جبر سے آزاد معاشرے کا قیام ممکن ہی نہیں— دنیا ایک بڑے قید خانے کا تصور جہاں احتجاج کی ہر آواز خاموش کر دی جاتی ہے—اس خوفناک فضا کو محسوس کریں تو ذوقی کا یہ ناول انوکھے خیال، مستقبل پر کمند، تہذیبوں کے تصادم پر تفصیلی بحث اور ہیئت کی پختگی کے ساتھ مہذب سماج اور معاشرہ پر ایسی ضرب لگاتا ہے کہ ہزاروں سوال سامنے ہوتے ہیں۔ ان کے جواب مشکل نہیں تو آسان بھی نہیں— اس کے لئے اُس بڑی آواز کو سننے کی ضرورت ہے جو تہذیبوں کے تصادم سے پیدا ہوئی ہے، جس کا ایک چہرہ ذوقی اپنے ناول ’لے سانس بھی آہستہ‘‘ میں ہمیں دکھا چکے ہیں۔ یہ دوسرا چہرہ مکمل آزادی کے ساتھ جینے والی ناہید ناز کا ہے، اور ہمارے معاشرے میں یہ قوت نہیں کہ اس چہرے کو قبول کر سکے— یہ ایک بڑا ناول ہے۔ اس کا ترجمہ انگریزی اور دیگر زبانوں میں بھی ہونا چاہئے—