غالب کی تفہیم کے لیے یکسوئی اور خاص وقت کی ضرورت : ڈاکٹر تقی عابدی
پریس ریلیز۔نئی دہلی
جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سینٹر آف انڈین لنگویزکے تحت ’’میں عندلیب گلشن نا آفریدہ ہوں‘‘کے عنوان پر ایک توسیعی خطبہ کا انعقادکیا گیا۔ جس میں کنیڈا سے تشریف لائے سفیر اردو ڈاکٹر تقی عابدی نے کلام غالب پرتفصیلی روشنی ڈالی ۔ انھوں نے عہد غالب کے پس منظر میں ان کے متعدد اشعار کی دلنشیں تشریح کی ۔ انھوںنے کہا کہ غالب کے فارسی تقریباً20ہزار اشعار اور اردو سرمایہ میں وہ معنویت پوشیدہ ہے ، جس کی تفہیم کے لیے ذہن وماغ کی یکسوئی اور خاص وقت کی ضرورت ہے ۔ انھوںنے کہا کہ شعر کہنے کے لیے جس بیدار مغزی کی ضرورت ہے ، اسی طرح شعر فہمی کے لیے بھی بلندتخلیل کی ضرورت ہے ۔ اس لیے غالب کے اشعار پر مہملیت کا الزام عائد کرکے نظر اندازکرنا ادب کے ساتھ انصاف نہیں ہے ۔ ٹی ای ایلیٹ کے اقوال کی روشنی میں انھوں نے کلام غالب کی تفہیم پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس ادب عالیہ موجود ہے ،جس سے ہم روشنی حاصل کرتے رہیں گے ۔انھوں نے کہا کہ برصغیر میں عبدالقادر بیدل ، غالب اور سلامت علی دبیر کی تفہیم کا حق ادانہیں کیا گیا ہے اور اقبال کے یہاں احترام ِآدمیت کے جذبہ میں غالب کا عنصر پایا جاتا ہے، مگر اس پس منظر میں غالب کی تفہیم کی کوشش نہیں ہوئی ۔ قبل ازیں سی آئی ایل کے چیئر پرسن پروفیسر انور پاشا نے غالب تفہیم پر اجمالی روشنی ڈالی ۔انھوںنے کہا کہ کلام غالب اور اس کے حسن سے محظوظہونے کے لیے بیدار مغزی کی ضرورت ہے ۔ پروگرام کے کنوینر پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے ڈاکٹر سید تقی عابدی کی ادبی وطبی خدمات کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ وہ سفیر اردو ہیں ۔ عالمی سطح پر انھوں نے نہ صرف زبان کو متعارف کروایا ہے ، بلکہ اردو ادب کے فروغ کی بھی مہم چلائی ہے ، یہی وجہ ہے کہ ان کے ذریعہ اردو کی نشرو اشاعت ہورہی ہے ۔ اس موقع پرڈاکٹر توحید خان،پروفیسررضوان الرحمان،ڈاکٹر ہادی سرمدی کے علاوہ بڑی تعداد میں اردو،فارسی اور عربی کے ریسرچ اسکالرس موجود تھے جنہوں نے اس توسیعی لیکچر سے کافی استفادہ کیااوراپنے مہمان سے روبرو بھی ہوئے جس میں غالب کے پنہاں گوشے سے واقفیت حاصل کرتے ہوئے مستقبل میں تخلیقات غالب پر کام کرنے کا عزم بھی اٹھایا۔