Home / Socio-political / نئے سال کا جشن کیوں منائیں ؟

نئے سال کا جشن کیوں منائیں ؟

نئے سال کا جشن کیوں منائیں ؟

نئے سال کی آمد آمد ہے اور ہر جانب جشن کا ماحول ہے ۔ساری دنیا میں لوگ اس موقعے کو نئے انداز سے منانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں ۔ اس تیاری میں اسراف بے جا کے بھی امکانات بے شمار ہیں ۔ اگر ان تمام اخراجات کوجوڑا جائے جسے اس خاص موقعے پر دنیا خرچ کرے گی تو   ایک عام قیاس کے مطابق اس صرفے سے کسی ایک ملک کی غریبی دور کی جاسکتی ہے ۔ لیکن ایسا نہ کبھی ہوا ہے اور نہ اس کا امکان ہے۔ کیونکہ ہر جانب ابھی سے ہی  مبارک باد دینے کی ہوڑ لگی ہوئی ۔ مختلف اشتہارات اور رنگ و نور کی جو محفل سجائی جائے گی اسی سے دنیا کے غریب بچوٕں کے لیے کتابیں خریدی جاسکتی ہیں ۔ لیکن اس جشن کے ماحول میں کون انسانی مجبوریوں کو سمجھتا ہے  اور کسے  فکر ہے ۔کاش اس نئے سال میں کوئی عالمی سطح پر یہ تحریک چلا سکے کہ اس  برس نہ سہی آنے والے برس میں کوئی ایسی جشن کی تقریب نہیں منائی جائے گی ، بلکہ اسی تقریب کے اخراجات کو ان لوگوں پر خرچ کیا جائے گا جو گذشتہ سال کسی ناگہانی آفت کے شکار ہوئے ہیں ۔کاش کوئی اٹھے ۔ ہم نے تو آواز بلند کر دی ہے  لیکن مجھے معلوم ہے یہ آواز نقارے خانے میں طوطی کی آواز کے مصداق ہے ۔

          جہاں تک جشن کے ماحول کا تعلق ہے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہےکہ 25 دسمبرکو کرسمس منایا جاتا ہے ، اس وجہ   سے بھی پوری دنیا میں جشن کا سماں رہتا ہے اور نئے سال کی آمد تک یہ ماحول خوشیوں میں ڈوبا رہاتاہے۔مجھے یہ دیکھ کر اچھا لگتا ہے کہ ہندستان میں ہر جگہ لوگ کرسمس مناتے ہیں ۔ لیکن ان منانے والوں میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کو یہ معلوم نہیں کہ کرسمس کیا ہے ۔ لیکن ہمارے میڈیا اور اقتصادی اداروں نے اسے ایسا رنگ دیدیا ہے جیسے یہ کوئی خاص فرقے کا تہورا نہیں ہے ۔  اسے دیکھ کر اکثر یہ محسوس کرتا ہوں کہ کاش ہمارے تہواروں کو بھی اسی طرح دیکھا جاتا  اور کسی تعصب کے بغیر  لوگ  عید کی خوشیاں مناتے ۔  مگر جب  ہمارے اپنے تہوار ہوتے ہیں تو لوگ اسی کسی اور نظریے سے دیکھتے ہیں۔ان باتوں کے کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں اس کرسمس کا مخالف ہوں لیکن اتنا ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ جس طرح کرسمس کو ہم مناتے ہیں اسی انداز سے ہندستانی تہواروں کی بھی منایا جانا چاہیئے۔

جہاں تک نئے سال کے جشن کی بات ہے تو یہ بھی سمجھ سے باہر ہے کہ نئے سال کے جشن کا کیا مطلب ہے ۔ یہ تو محض ہم نے اپنے دنوں کو  سمجھنے اور اس کے شمار کے لیے بنایا ہے ۔ اس دن کوئی خاص بات تو  نہیں کہ اسے جشن میں تبدیل کر دیا جائے۔ میں نے اپنے طور پر بہت معلوم کرنے کی کوشش کی کہ آخر نئے سال کے جشن کی ابتدا کیسے اور کب ہوئی ؟لیکن یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ابتدا اور جشن منانے کی روایت بہت قدیم ہے ۔ ظاہر ہے کسی قدیم روایت پر بات کرنی یا اس کے متعلق شکوک شبہات کا اظہار کرنا  لوگوں کے عتاب کے شکار ہونے کے مترادف ہے۔مگر میں کسی کو ناراض کیے بغیر صرف غور وفکر کرنا چاہتاہوں کہ اگر اسے منایا جائے تو کوئی نیا انداز اختیار کیاجاسکتاہے؟ کیا اسے سال گذشتہ کے کے احوال و کوائف کو سامنے رکھ کر منا سکتے ہیں ۔ بہتر تو یہی ہوتا کہ اسے سال گذشتہ کے احتسا ب کے طور پر مناتے ۔ ممکن ہے ایسا کرنے سے کئی سال تک سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے کیونکہ جب ہم اپنے گزرے ہوئے ایام پر نظر ڈالتے ہیں تو سوائے فتنہ پردازی ، بد عنوانی ، لوٹ کھسوٹ کے کچھ نظر نہیں آتا۔ ایسے میں جب ہم اپنے سود زیان پر نظر ڈالیں گے تو غم وغصہ کی ہی کیفیت حاوی ہوگی ۔ لیکن جب یہی روایت کا حصہ بن جائے گی تو ہم سود و زیان  کے ذمہ داروں کی گرفت بھی کرنے کی سوچیں گے اس طرح رفتہ رفتہ وہ لوگ جب سر عام بے نقاب ہوں گے اور لوگوں کے عتاب کے شکار ہوں گے تو عین ممکن ہے نئے سال منانے کی روایت کچھ نفع کا سامان بن سکے گی۔ ورنہ ظلم واستحصال اور جبر استبداد کے اس ماحول میں بھلا ہم جشن کیوں کر اور کیسے منائیں؟

          ہم ہندستانی اگر سال گزشتہ کی بات کریں تو  نہ صرف مایوسی ہوتی ہے بلکہ شرمندگی بھی ہوتی ہے کہ دنیا کے ایک بڑے جمہوری ملک میں کیسے کیسے شرمناک کام ہو رہے ہیں ،  پارلیامنٹ کو پورا شیشن ہنگامے کی نذر ہو گیا ، اپوزیشن اور حکمراں جماعت دونوں اپنی اپنی ضد پہ اڑے ہیں ۔ عوام کا کسی کو خیال نہیں ۔ اربوں روپے صرف ضد میں تباہ ہورہے ہیں ۔ جب کہ اسی ملک میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو ایک وقت کی روٹی کو محتاج ہیں ۔عوام کی بات کرنے والے بھی احتجاج کا کوئی ایسا طریقہ ڈھونڈنا نہیں چاہے  جس  سے مسائل کا حل نکل سکے ، وہ توا یسے ہی طریقوں کو اپناتے ہیں جس سے عوام کو بے وقوف بنایا جاسکے اور حکومت کو شرمسار کر سکیں ۔ لیکن جب حقیقت سامنے آتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایساکچھ نہیں تھا جس کے سبب اس قدر ہنگامہ  حشرات بر پا کیا جائے ۔ مثال کے طور پر ہندستانی سیاست میں اپوزیشن کا رول ادا کرنے والی بی جے پی کو ہی دیکھیں جو خود کے لیے کچھ اور اصول بناتی ہے اور دوسروں کے لیے کچھ اور ۔ ممبئی میں سوسائٹی کی زمین اور ملکیت کے حوالے سے بی جے پی نے آسمان سر پہ اٹھا لیا ، مگر اسی بی جے پی کے وزیر اعلیٰ بنگلور میں ہر طرح کی بد عنوانیوں میں مبتلا پائے گئے لیکن اس کے لیے ان کے پاس جواز موجود ہے ۔یہ تو ان کی دورخی پالیسی ہے ۔مگر ان چھوٹی پارٹیوں کی لیڈر شپ پر بھی  حیرت ہوتی ہے جو اہل اقتدار کو گھیرنے کے لیے بی جے پی کی ہاں میٕں ہاں ملا رہی ہیں ۔ کیا انھیں اسی بی جے پی کی بد عنوانی نظر نہیں آتی ؟ اب بتائیں کہ ملک میں جب ایسی صورت حال ہو کہ حکومت اپوزیشن کے ہنگاموں سے  بلا وجہ پریشان   ہو ۔ عوام بد حال ہو ، کھانے پینے کی چیزیں  مہنگائی کی وجہ سے نایاب ہوتی جارہی ہوں ۔ہر طرف ملاوٹ خوروں کا بازار گرم ہو ، دودوھ ، دہی ، سبزی اور نجانے کس کس چیزمیں صحت کو نقصان پہچانے والی چیزیں ملائی جارہی ہوں ۔ لیکن حکومت ان پر  لگام لگانے سے قاصر ہو ۔۔۔۔ ایسے میں آپ ہی بتائیں کہ ہم کن خوشیوں کے سبب جشن منائیں ؟ کن فتوحات اور کن کامیابیوں پر نئے سال کا جشن منائیں ؟

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *