Home / Socio-political / ’’ندامت کا گھر‘‘

’’ندامت کا گھر‘‘

’’ندامت کا گھر‘‘

سمیع اللہ ملک

غزہ میں ظلم کی حد ہوگئی‘اور اس میں اچنبھے کی کوئی بات بھی نہیں کیونکہ اہل فلسطین اپنے مسلمان اور اسرائیل کے پڑوسی ہونے کی قیمت پچھلے ۶۴سال سے چکا رہے ہیں۔یہودیوں کی تاریخ ہے کہ وہ اپنے وجود کی قیمت گردو پیش سے وصول کرتے ہیں۔یہ سلسلہ بنی اسرائیل سے عہد نبوی تک جاری رہا  ہے۔جدید دنیا میں جرمنی کا نسل پرست قائد راڈولف ہٹلر وہ شخص تھا جس نے یہودیوں کو پوری طرح سمجھنے کی کوشش کی۔فلسطینی مسلمانوں کی بد قسمتی کا سفر تو اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب فتنہ پروری کی تاریخ رکھنے والی اس در بدر قوم کے سر چھپانے کیلئے ان کی سر زمین کا انتخاب ہوا تھا۔ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام کا افسانہ جسے ’’ہولوکاسٹ‘‘کا نام دیا گیا ‘دراصل میڈیا وار ہی تو تھی اور اس کا تعلق یہودیوں کیلئے ایک الگ مملکت کے قیام کی ضرورت سے تھا کیونکہ صہیونی اکابرین نے اپنے لئے ایک الگ وطن کی حمائت میں اس دلیل کا سہارا لیا تھا کہ انہیں ایک اور ’’ہولوکاسٹ‘‘کا شدید خطرہ ہے‘جس سے بچنے کیلئے یہودیوں کو ایک محفوظ شیلٹر‘ایک پناہ گاہ درکار ہے۔اس وقت کی عالمی طاقتوں نے یہودیوں کو ایک محفوظ شیلٹرفراہم کرنے کیلئے اسرائیل کے نام سے عین عالم اسلام کے قلب میںخنجر گھونپنے کا فیصلہ کیاحالانکہ مغربی و مشرقی یورپ میںبے شمار ایسے علاقے تھے جہاں یہودیوں کی اس ’’نایاب نسل‘‘ کو  بچانے کیلئے محفوظ شیلٹرقائم کئے جا سکتے تھے۔

یوں یہودیوں نے مظلومیت کے لبادے میں جس سفر کا آغاز کیا۔۔۔۔۔طاقت‘اختیار‘وسائل اور الگ وطن ملنے کے ساتھ ہی وہ ظلم کی بد ترین شکل اختیار کر گیا اور ہٹلر کے مظلوم و مقتول خود ہٹلر کی طرح ظالم اور قاتل بن بیٹھے۔انہوں نے کمال چالاکی سے اپنے مقدر کی دربدری‘بے وطنی‘آہوں اور سسکیوں کی لکیر فلسطینی وجود پر کھینچ دی۔اس وقت سے آج تک فلسطین کا ہر شہر غزہ ہے ،اسرائیل کے ہر غصے کا انجام ایک ’’ہولوکاسٹ‘‘پر ہوتا ہے۔اسرائیل تو جو کر رہا ہے ‘اپنے فتنہ پرور مزاج کے ہاتھوں مجبور ہو کر کر رہا ہے اور اپنی تاریخ دہرا رہا ہے ‘لیکن مسلم دنیا کیا کر رہی ہے؟عرب دنیا کہاں ہے؟اس دفعہ تو غزہ کے لوگوں کیلئے دواؤں اور دودھ کیلئے اپنی بے پناہ دولت سے زکوٰۃ کے چند درہم و دینار وقف کرکے تاریخ کا قرض چکانے کی کوشش بھی نہیں کی گئی۔

تین سال پہلے عین اس وقت جب غزہ میں اسرائیل انسانیت کا دامن تارتار کر رہا تھا ‘پتہ نہیں کہ سرد جنگ میں مضمحل اور گھائل ہونے والے روس کو کیا سو جھی کہ اس نے چند دن کیلئے یورپ کو گیس کی سپلائی روک دی تھی۔گیس پائپ لائینوں کے بے رونق ہوتے ہی یورپ کی رنگین دنیا جب اجڑنے لگی تو اس کے سارے رنگ ماند اور ساری روشنیاں ٹمٹمانے لگیں،کئی ملکوں میں صنعت کا پہیہ رک گیااور حکومتوں کو ایمر جنسی نافذ کرنا پڑی۔اس سے جہاں یورپ کی چیخیں نکل گئیںوہیں مسلمانوں کی بے تو قیری اور بیچارگی کا مذاق بھی اڑ گیا کہ جو دنیا میں تیل پیدا کرنے والے علاقے پر کنٹرول رکھتے ہیں ‘لیکن اس دولت کو ڈالروں میں بدلنے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔اس دنیا میں عزت اور عروج حاصل کرنے کیلئے ‘ حد تو یہ کہ عالمی نظام میں ایک باوقار حیثیت حاصل کرنے کیلئے استعمال کرنے کی قدرت بھی نہیں رکھتے۔ حالانکہ نیویارک کے مجسمہ آزادی کے گرد رنگوں کی بہار اور لندن آکسفورڈ سٹریٹ کی روشنیوں کی قطار تک مغربی اور یورپی دنیا میں اس سیال دولت کا بنیادی حصہ ہے جو ارض فلسطین کے دائیں بائیں پانی کی طرح بہہ رہی ہے۔یہ ایک ایسی تلوار ہے جسے عرب دنیا چاٹ رہی ہے اور وہ اس بات سے مکمل بے خبر ہے کہ اس کے ہاتھ میں تلوار در حقیقت ایک ہتھیار بھی ہے۔

سعودی فرماں رواشاہ فیصل مر حوم عرب دنیا کے وہ واحد قائد تھے جن پر یہ حقیقت آشکارہ ہوئی تھی لیکن پھر کیا ہوا ‘یہ تاریخ کا حصہ ہے۔اپنی طاقت کا ادراک تو درکنار‘فلسطین کے ہمسائے اپنی خاموشی‘غور کرنے اور تشویش کا اظہار کر نے کے ذریعے اور آپس میں بے سود تبادلہ خیال کرکے اسرائیل کو اکامو ڈیٹ کر رہے ہیں ۔ظلم کی حد تو یہ ہے کہ نہ صرف یہ ہمسائے اسرائیل کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی پابندی کرتے ہوئے بد ترین ناکہ بندی پر عمل کر رہے ہیں بلکہ اپنی زمین اور فضاؤں کو بھی غزہ پر حملوں کے استعمال کی اجازت دے رکھی ہے جس طرح پاکستان کے کمانڈو صدر پرویز مشرف نے پاکستان کی بری اور بحری اور فضائی حدود کو امریکہ کے استعمال میں دے دیا تھا اور موجودہ جمہوری حکومت توپہلے سے بڑھ کر وفاداری کا ثبوت دے رہی ہے اور نجانے یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔

فلسطین حریت پسندوں کے ایک اخبار نے اس صورتحال میں ماضی میں فلسطین کی آزادی کی جدوجہدکرنے والی تنظیم الفتح‘‘ کے موجودہ کردار پر تنقید کرتے ہوئے اسے ’’ندامت کا گھر‘‘ قرار دیا ہے۔لیکن اس وقت کی مسلم دنیا‘او آئی سی‘اور عرب لیگ کیلئے اس سے خوبصورت نام شاید ہی کوئی اور ہو۔المیہ یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں نے اپنی مصلحت کوشی‘ لاچارگی ‘ اور اپنے تاج و تخت کی خاطر جبر ناروا سے قدم قدم پرمفاہمت کی روش کی بناء پر ایک ارب سے زائد مسلمانوں کو ’’ندامت کا مکیں‘‘ بنا کر رکھ دیا ہے ۔ کچھ نہ ہوتے ہوئے ذلت طاری ہونا کوئی انہونی بات نہیں‘لیکن سب کچھ ہوتے ہوئے ذلت کے عملی عذاب کی تصویرہو تا آج کا عالم اسلا م موجودہ مسلم حکمرانوں کی وجہ سے بنا ہوا ہے۔

اسرائیل کے ایف سولہ جنگی طیاروں اور اپاچی ہیلی کا پٹروں نے غزہ کو کھنڈر اور مقتل بنادیا ہے ۔ اس کا مقصدغزہ کے ڈیڑھ ملین عوام کو خوفزدہ کرنا نہیں بلکہ اس کا مقصد اسرائیل کے ہمسایہ عرب ملکوں،ایران اور ایٹمی ملک پاکستان پر دھاک بٹھانا بھی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اسرائیل کی علاقائی قیادت و سیادت کیلئے چیلنج بننے کا خیال بھی دل میںنہ لائے۔غزہ ایک عظیم انسانی المیے اور یہودی نازی ازم کے دور کا سامنا کر رہا ہے ‘لیکن مسلمان ملکوں کی تشویش،غور و خوض،اجلاسوں،بالمشافہ ملا قاتوں،ٹیلیفونک گفت و شنید کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جارہا ہے۔برطانوی خبر رساں ادارے ’’رائٹر‘‘کا عیسائی نامہ نگار اجڑے اور کھنڈر غزہ کی اداس صبحوں اور بے کیف شاموںکا احوال رقم کرتے ہوئے کہتا ہے کہ’’ غزہ کے قبرستان اب’’ہاؤس فل‘‘کا منظر پیش کر رہے ہیں۔وہاں کسی نئے مہمان کیلئے کوئی جگہ باقی نہیں رہی‘ا لّا یہ کہ پہلے سے آسودہ خاک کوئی مردہ اپنی لحد میں کسی نئے مہمان کیلئے کوئی جگہ چھوڑ دے‘اور غزہ کے سب سے پرانے اور سب سے بڑے شیخ رضوان قبرستان میں ایسا ہو رہا ہے۔اسرائیل کی بمباری سے شہید ایک نوجوان کے لواحقین اس کی لاش کو لیکر ہر قبرستان میں مارے مارے پھرے مگر کوئی خالی جگہ نہیں ملی۔بے بسی کے ان لمحوں میں ایک شخص کو خیال آیا کہ کیوں نہ اس نوجوان کو دوبرس قبل ایک مظاہرے میں شہید ہونے والے اس کے چچا زاد بھائی کی قبر میں ہی دفن کیا جائے۔اور پھر یہی ہوا،اس جواں سال خون آلود لاشے کو دوبرس قبل شہید ہونے والے کی قبر میں اتار دیا گیا‘‘۔یہ کہانی سناتے ہوئے یہ عیسائی نامہ نگار پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور کہنے لگا کہ’’ میں بتا نہیں سکتا کہ میں آج کس قدر اداس ہوں‘‘۔

غزہ میں اسکول ،ہسپتال، مساجد،گھر اور اقوام متحدہ کے شیلٹر ہی تباہ نہیں ہوئے بلکہ تادیر اور نسلوں تک قائم رہنے والے المیوں کے دائرے بڑھتے چلے جارہے ہیں۔بچوں کا المیہ جو ڈیڑھ ملین آبادی کا نصف ہیں،عورتوں کا المیہ جو جواں سال ہیں اور ان کے ہم سفر شہادت کی وادیوں اور اجل کی راہوں میں گم ہو چکے ہیںاور پھر شہادت  کے احترام میں غزہ کی یہ مقامی روایت کہ شہید کی بیوہ شادی کرنے کی بجائے شہید کی میراث اور نشانی جو کسی بچے کی شکل میں ہوتی ہے ،کی تعلیم و تربیت میں عمر بتا دیتی ہے اور اگر کسی کے پاس یہ نہ ہوتو وہ شہید کی یاداور شہادت کے احساس برتری کو اپنے پیروں کی زنجیر اور گلے کا ہار بنا لیتی ہے۔غزہ کی تباہی کے بعد ان تباہ حالوں کو تعمیر نو کی اجازت تو مل جائے گی لیکن انسانی المیوں کی اس زنجیر کا کیا ہوگا جسے ان کی خاموشی نے د ائرہ در دائرہ ،حلقہ در حلقہ ایک خوفناک انتقام کی آگ کی وادی میں دھکیل دیا ہے جس کے اثرات آنے والے وقتوں میں ظاہر ہونا شروع ہوں گے۔باقی رہا اسرائیل تو وہ اپنے ظلم کا بیج بو کر غزہ اور فلسطین میں ہی نہیں‘عالم عرب میں رد عمل کی فصل کاٹنے کا ساماں کر رہا ہے۔اسامہ جیسے کردار انہی مظاہر سے پیدا ہوتے ہیں اور انہی سے آکسیجن حاصل کرتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ مستقبل کے ہزاروںاسامہ اب پاکستان اورافغانستان کے جنگلوں اور پہاڑوں میں نہیں بلکہ غزہ کے کھنڈروں‘خون میں لتھڑے جسموں،بازوؤں پر سجے اور سینے سے لگے معصوم لاشوں اور بین کرتی عورتوں کے آنسوؤں میں ملیں گے اوریقینا وہ وقت اپنا انتقام کمانڈو پرویز مشرف اور این آر او کے تحت آنے والے غلاموں جیسی جنس سے شروع ہوگا ۔الامان الحفیظ!!!

ظالم اور عیارسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم اس امریکی تجویز پر رضامند ہوئے ہیں کہ طاقت کے استعمال سے پہلے وہ مصر کی طرف سے جنگ بندی کے منصوبے کو ایک موقع دیں اور حالات کو قابو میں لانے کے لیے امن کی طرف قدم اٹھائیں۔حماس کے سیاسی رہنما خالد مشال نے کہا کہ اسرائیل کی جارحیت ناکام ہو گئی اور معاہدے میں حماس کے مطالبات مان لیے گئے ہیں،غزہ کے تمام راستے کھول دیے جائیں گے جس میں مصر کی طرف راستہ بھی شامل ہے۔قصرِ سفیدکے فرعون اوبامہ کو انتخابی مہم میں پریشان کرنے والے اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر ۱۶۱غزہ کے شہیدوں کاتحفہ ارسال کرتے ہوئے عالم اسلام کے اس ندامت کے گھرکا پتہ بھی اپنے غلاموں کی فہرست کے ساتھ فراہم کر دیا ہے۔امریکی صدر براک اوباما نے معاہدے کو تسلیم کرنے پر اسرائیلی رہنماؤں کی تعریف کی اور کہا کہ وہ اسرائیلی دفاعی نظام کو اور بہتر بنانے کے لیے مزید رقم فراہم کرنے کی کوشش کریں گے۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *