Home / Socio-political / نسبت کاتقاضہ

نسبت کاتقاضہ

نسبت کاتقاضہ
سمیع اللہ ملک تجربہ شاہد ہے کہ نسبت باعث عظمت ،باعث نجات ہے،باعث جنت ہے،نسبت خودسپردگی کادوسرانام ہے،نسبت جذبات کا تلاطم ہے،نسبت سراونچاکرتی ہے ، نسبت بے بسی و بے کسی کے کارن قعرمذلت سے نکالتی ہے اوربے چارگی کوختم کرتی ہے ۔ نسبت تنہانہیںرہنے دیتی،خلوتوںمیںبھی ہم جلیس ہوتی ہے ،مجالس میںبھی ہمسفر ہوتی ہے اور حضر میں بھی ہم نواہوتی ہے ۔ نسبت لطف دیتی ہے۔نسبت بے چین بھی رکھتی ہے اوربے قراربھی،نسبت رلاتی بھی ہے اورتڑپاتی بھی ہے۔نسبت اس وقت بھی ساتھ ہوتی ہے جب کوئی دوسراساتھ نہیںہوتابلکہ منسوب خودایسا وقت تلاش کرتاہے جب وہ ہواوراس کامنسوب الیہ ، وہ نہ ہوتواس کی یاد سے دل ہروقت معموررہے۔وہ خودسپردگی میں پہروں اس سے باتیںکرتارہتاہے،اس سے ہم کلام رہتا ہے ۔ اس کی سنتاہے اوراپنی سناتاہے۔نسبت اس کی حفاظت کرتی ہے،نسبت محفوظ رکھتی ہے۔منسوب الیہ کی نسبت سے اس کادرجہ گھٹتا اور بڑھتا ہے، لوگوںکاقرب اوردوریاںاسی نسبت سے عبارت ہیں۔نفرتیں اور محبتیں اسی سے جنم لیتی ہیں،وقار اور ذلتیں اسی سے آگے بڑھتی ہیں۔
اگرنسبت اس سے ہوجس کی اس جہاںمیںنہ مثال ہواورنہ نظیر،صرف ماضی میں نہیںبلکہ حال اورمستقبل میںبھی اس کی نظیرملناناممکن ہو۔جس نے وحشیوںکونہ صرف جینا سکھایا بلکہ غلاموںکو زمانے کاآقابنادیا۔جس نے خودکچھ نہ رکھا،سب کچھ لٹادیا۔جس نے ہماری آسائش کی خاطراپناآرام ٹھکرادیا۔جب زمانے والے اسے ٹھکرارہے تھے تواس کا مولا اسے سارے جہانوں کا ماہتاب وآفتاب بنارہاتھا۔ جوافق عالم سے اس گرتی ہوئی مخلوق کوآن ہی آن میںاس بلندی پرلے گیاکہ سارے عالم نے اس کوچڑھتے ہوئے دیکھا ۔ سرفرازہوتے ہوئے دیکھا،ابھرتے ہوئے دیکھا۔وہی آفتاب عالم پرہدائت بن کرابھرااوردیکھتے ہی دیکھتے سارے عالم پرچھاگیا۔جس کی بتائی ہوئی راہِ ہدائت کی روشنی نے تاریکی کابسترگول کردیااورجس کے کردارنے ہرکسی کے قلب ونظرکوخیرہ کرکے رکھ دیااورآج تک تاریخ اس کی کوئی اورنظیرپیش کرنے سے قاصرہے بلکہ تاقیامت ایسی مثال ملنا ناممکن ہے بلکہ اب ایسا محبوب تودنیامیںکبھی نہیں آئے گا۔
مجازی عاشقوںکاحال بھی ہم نے دیکھاہے۔محبوبوں،معشوقوں،مطلوبوںکے اشاروںپرناچتے ہیں۔جوکہتے ہیں اس پربلاسوچے سمجھے عمل کرتے ہیں۔ان کارنگ،ڈھنگ،ان جیسی چال ، ان جیسی شکل وران جیسالباس اپنانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ایسے محبوب ظالم اوربے وفاہوتے ہیں،موقع شناس ہوتے ہیں،آنکھیںپھیرلینے والے ، قدر نہ کرنے والے ،وفاؤں کو نظر اندازکرنے والے ،منہ موڑلینے والے ،طالب کی بے بسی کی تضحیک کرنے والے ،مذاق اڑانے والے بلکہ اکثرہمیشہ ہمیشہ کیلئے ٹھکرا کے چلے جانے والے ہوتے ہیںلیکن اگرہم اپنی نسبت ، محبت کامرکز،اپنے طلب کی انتہاء ،اپنی چاہتوںکامحوراس محبوب کوبنالیں جس کومحبوبیت زیب دیتی ہے،جودنیامیںچاہنے والوں میںسب سے زیادہ چاہا جانے والاہو،جسے انسان چاہیں، حیوان قدموںپرنچھاورہوں،چرندپرندسلامی کوآئیں،جن وانس غلامی کوباعث افتخارسمجھیں،ملائکہ ہم کلام ہوں،خود اس کاخالق اس کوچاہے،اس کے راستے کے تقدس کی قسمیں کھائے، مولا اس کے حسن کی داددے،اس کی اداؤںکوتلاوت کاحصہ بنادے ،اس کی نسبت یقینا ہمارے لئے باعث عظمت بھی ہو گی ،باعث تکریم بھی اورباعث نجات بھی۔جس کی نسبت حضرمیںہم جلیس ہو ،سفرمیںہماری رفیق ہوبلکہ جس سے نہ صرف ہماری دنیابلکہ آخرت بھی سنورجائے۔یقیناہم سب کی یہ دلی تمناہے کہ ایسی نسبت کودل وجاں کامحوربنالیںتوآئیے پھرصرف اس ہستی سے اپنی نسبت کارشتہ جوڑلیںجس کیلئے خودرب العزت نے قرآن کریم میںارشادفرمایا:بیشک میںاورمیرے فرشتے نبی اکرمﷺپردرودبھیجتے ہیں،اے ایمان والوتم بھی نبی اکرﷺپرکثرت سے درودبھیجو۔
یادرکھئے!ایک وقت آنا ہے اورضرورآناہے ،قبر میں،اندھے غارمیں جہاں ہمارے اعمال کی کتاب کاپہلاورق اپنے رب اوراپنے ہادیؐ اکرم ﷺ کی پہچان سے شروع ہوگا۔وہؐ دیکھیں اور پہچان لیںکہ یہ تومیراہے،مجھ سے محبت کرنے والاہے،میںجواپنے رب کاپیغا م چھوڑکرآیاتھا اس پراس نے من وعن عمل کیاہے۔اس کاچہرہ، دل،پیشانی،خیال، دماغ میری یادوںاورمیری تعلیمات سے بساہواہے۔میری اداؤںسے سجا ہوا ہے۔آپ کی یہ پہچان ،یہی اپنائیت ابدالآبادکی رہبرہوگی اوراگرانہوںنے دیکھ کریہ پوچھاکہ بھئی کون ہو اور کیانام ہے تمہارا؟ میں کہوں سرکارؐ مجھے غلام محمدکہتے ہیںتوکہیںایسانہ ہوکہ وہ فرمادیںکہ میںنے کیاکہاتھااورتم کیابن کرآگئے ہو،ایسے ہوتے ہیںمحمدﷺ کے غلام؟ مجھ سے محبت کادم بھرنے کی واضح نشانی تووہ قرآنی تعلیمات ہیںجن کومضبوطی سے تھامنے کی تلقین کرکے آیاتھالیکن ان تعلیمات کوتھامناتودرکنارتم توایسی فروعی بحث مباحثے میںالجھ گئے جس نے تم میںایسی تفریق پیداکردی اور انہی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میرے دشمنوںنے آزادیٔ رائے کے نام پر کبھی میرے خاکے اورکارٹون شائع کرکے اورکبھی ایسی فلمیںبناکربیہودگی کااظہارکرتے ہوئے تمہاری غیرت کاللکارہ لیکن تم نے پھربھی اپنی روش نہ بدلی!
صحابیؓ رسول حضرت عبید ؓ شہرمدینہ میںکسی کام کے سلسلے میںجا رہے تھے،ان کاتہمندٹخنوںسینیچالٹکاہواتھااوراس دور جہالت میںایسالباس استعمال ہوتاتھابلکہ یہ حرکت کچھ بڑائی کااحساس بھی دلاتی تھی۔ ہمارے ہاںتواب بھی ایسا ہوتا ہے۔اچانک پیچھے سے آوازآئی:’’عبید!اپناتہمند ٹخنوںسے اونچاکروکہ یہ پرہیزگاری کی علامت بھی اور خدا کے احکام کی تعمیل بھی!اس سوال میںحکم بھی تھا،درس بھی، حکمتوںکاسبق بھی۔حضرت عبیدؓ نے پیچھے مڑکر دیکھا تو حسن و جمال کی ایک زندہ تصویر،خلق ومحبت کاایک اعلیٰ نمونہ ، فخر انسانیت جناب رسول اکرمﷺکی ذات استودہ وصفات اوررب کے احکام کی مکمل تعمیل کرنے والی تبسم کناںہستی سے ملاقات ہوگئی۔غلام نے عرض کیا،میرے آقا،بندہ پرور،یہ ایک کالی دھاری والی سفیدچادرہی توہے ؟آپﷺ کاتبسم کناںچہرہ مبارک فوراً جلال رسالت میںبدل گیااورپرجوش لہجے میںارشادفرمایا’’کیاتمہارے لئے میری ذات ایک مکمل نمونہ نہیں؟ ‘‘ فضا میں ایک لرزش پیداہوئی اوریہ الفاط بجلی کی ایک کوند بن کردنیاکی فضاؤںمیںبکھرگئے اوردنیابھرمیںغلامی کادم بھرنے والوںکوایک پیاری اورالبیلی راہ دکھلا گئے۔نسبت کاتقاضہ بھی یہی ہے کہ منسوب الیہ کویہ کہنا ہی نہ پڑے کہ ’’کیامیری ذات تمہارے لئے ایک نمونہ نہیں‘‘ ۔بابااقبالؒ نے کیاخوب بات کہی ’’چوںمی گویم مسلمانم برلزم کہ دانم مشکلات لاالہ‘‘۔رب کریم نے توقرآن کریم میںواضح ارشادفرمایا:
لا تجِد قوما یومِنون بِاللہِ والیومِ الآخِرِ یوادون من حاد اللہ ورسولہ ولو انوا آباہم واٗ بناہم وِاٗخوانہم و عشِیرتہم واولئک کتب فِی قلوبِہِم الِایمان وایدہم بِروح مِنہ ﷺ ویدخِلہم جنات تجرِی مِن تحتِہا النہار خالِدِین فِیہا رضِی اللہ عنہم ورضوا عنہ اولئکِ حِزب اللہِ لااِٗن حِزب اللہِ ہم المفلِحون (سورۃ مجادلہ: ۲۲)
جو لوگ خدا پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں تم ان کو خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ دیکھو گے۔ خواہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان ہی کے لوگ ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں خدا نے ایمان (پتھر پر لکیر کی طرح)تحریر کردیا ہے اور فیض غیبی سے ان کی مدد کی ہے۔ اور وہ ان کو بہشتوں میں جن کے تلے نہریںبہہ رہی ہیں داخل کرے گا ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ خدا ان سے خوش اور وہ خدا سے خوش۔ یہی گروہ خدا کا لشکر ہے۔(اور)سن رکھو کہ خدا ہی کا لشکر مراد حاصل کرنے والا ہے۔
اگرہم اپنی نسبت میںسچے اورمخلص ہیںتوہمیں آج ہی اپنے محبوب رسول اکرمﷺ کی اس حدیث پرغورکرناہوگا’’قیامت کے دن کچھ لوگ ایسے ہونگے جن کے مقام پرانبیاء اور شہدابھی رشک کریں گے،یہ نورکے منبروںپرسوارہونگے ۔انبیاء اورشہداء سوال کریںگے کہ یہ لوگ کون ہیںکہ جن کے درجات ہم سے بھی بلندہیں؟انہیںجواب ملے گایہ وہ لوگ تھے جواللہ کیلئے دوستی کرتے تھے اوراللہ کیلئے دشمنی کرتے تھے۔حضرت مالکؒ کاقول بھی پڑھ لیںجوانہوںنے خلیفہ ہارون الرشیدکے حرمت رسولﷺ کے سوال کے جواب میںارشادفرمایا:اس امت کے باقی رہنے کاکیاجوازہے جس کے نبی کی توہین کردی جائے۔

دنیامیں یہودی اقلیت ہونے کے باوجود’’ہولوکاسٹ‘‘جیساقانون لاسکتی ہے تودنیامیں ڈیڑھ ارب سے زائدبسنے والے مسلمان ایسا قانون متعارف کروانے میں آخراتنے بے بس کیوں ہیں جہاںحضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت موسیٰ علیہ السلام،حضرت عیسیٰ علیہ السلام اوررسالت مآب ﷺ کی شان میںکسی کوگستاخی کرنے کی بالکل کوئی اجازت نہ ہو ۔کیااس قانون میں رکاوٹ ڈالنے والے مسلمان ممالک میں صاحب اقتدارامریکی کمیوںکورخصت کرنے کاوقت نہیں آگیاجنہوںنے اپنے آقاؤںکوخوش رکھنے کیلئے ابھی تک ایساقانون بنانے میں کبھی بھی کسی دلچسپی کااظہارنہیں کیا؟

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *