صاحبان اقتدار نیٹوسپلائی کی بحالی پرامریکاسے تحریری معاہدے پربغلیںبجارہے ہیںاورپاک امریکاکے نئے تعلقات کی خوش گمانیوں سے قوم کو مسرت کی نویددیتے ہوئے کہہ رہے ہیںکہ اس معاہدے کے بعدامریکااتحادی سپورٹ فنڈکی ادائیگی پربھی رضامند ہو گیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسی مد میںا مریکانے پاکستان کودوارب ۸۰ کروڑ ڈالر ادا کرنے تھے جبکہ امریکی کانگرس نے ۶۵کروڑڈالر کی کٹوتی کابل منظورکرکے پاکستان کوایک واضح نقصان پہنچادیاہے۔ امریکی اپوزیشن جماعت ری پبلکن پارٹی کے رکن ٹیڈپونے دہشتگردی کے خلاف جنگ میںپاکستان کے تعاون پراعتراض اٹھاتے ہوئے پاکستان کی فوجی امدادمیںایک ارب۳۰ کروڑ ڈالرکی کٹوتی کامطالبہ کیاکہ پاکستان نے امریکاکے ساتھ غداری کی ہے اس لئے وہ اب اس امداد کامستحق نہیں۔فلوریڈاکے رکن بل ینگ نے اس بل کی حمائت کی جس کے بعد پاکستان کی فوجی امدادمیںکمی کوامریکاکے دفاعی بل کاحصہ بنادیا گیا ہے ۔
دوسری طرف امریکاکی جانب سے پاکستان کے قبائلی علاقوںمیںکاروائی کرنے کے بیانات نے نہ صرف قبائلیوںمیںتشویش پیداکردی ہے بلکہ قبائلی علاقوںمیںنیامیدان جنگ بننے کاخطرہ بھی بڑھ گیاہے ۔ امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکاافغانستان سے متصل پاکستانی سرحدی علاقے شمالی وزیرستان میںحقانی نیٹ ورک اوردیگرشدت پسندوںکے خلاف کاروائی کاارادہ رکھتاہے اورعین ممکن ہے کہ آئندہ نیٹو سپلائی کے کسی کنٹینرزقافلے پرکوئی خوفناک حملہ یہ جوازپیداکردے۔اے پی کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی فوجی کمانڈروں نے امریکی محکمہ دفاع سے پاکستانی علاقے شمالی وزیرستان میںحقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی کی اجازت مانگی ہے اوراس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج پرہونے والے حملوںمیںحقانی نیٹ ورک ملوث ہے۔پاکستان نے بارہاامریکااورافغان حکومت سے ٹھوس شواہد کا مطالبہ کیاہے تاہم امریکااورافغانستان اس حوالے سے کوئی ثبو ت دینے سے قاصرہیں۔
امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا امریکی فوجیوں کے انخلا کے منصوبوں پر بات چیت کے لیے جب افغانستان پہنچے تو اپنے دورہ کابل میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے حقانی نیٹ ورک کی بیخ کنی کے معاملے پرامریکاکے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے۔امریکی افواج سے خطاب کرتے ہوئے اس دبا ؤکو برقرار رکھنے کااعلان کرتے ہوئے کہا کہ اپنا دفاع کرنا ہمارا حق ہے اور ہم صاف طور پر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم حقانی نیٹ ورک سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار ہیںاور ہمیں پاکستان پر بھی دبا ؤبڑھانا ہوگا کہ وہ بھی ان کے خلاف حرکت میں آئے۔یہی وجہ ہے کہ مایوسی کا شکار امریکہ نے حالیہ دنوں میں وزیرستان کے علاقے میں شدت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں کے خلاف ڈرون طیاروں سے میزائل حملے بھی تیز کردئیے ہیں۔ ایسے ہی ایک حملے میں القاعدہ کے ایک اہم رہنما کی ہلاکت پر امریکی وزیر دفاع پنیٹا نے ازراہ مذاق کہا کہ آج کل اگر کوئی بدترین نوکری آپ کو مل سکتی ہے تو وہ القاعدہ کا نائب رہنما یا پھر ایک رہنما ہونا ہے۔
امریکاکی جانب سے پاکستان کے قبائلی علاقوںمیںکاروائی کرنے کے بیانات نے نہ صرف قبائلیوںمیںتشویش پیداکردی ہے بلکہ قبائلی علاقوںمیںنیامیدان جنگ بننے کاخطرہ بھی بڑھ گیاہے ۔دراصل امریکا افغانستان میںاپنی ناکامی چھپانے کیلئے حقانی نیٹ ورک کوموردِالزام ٹھہراکرپاکستان کے اندرخانہ جنگی کراناچاہتاہے کیونکہ شمالی وزیرستان میں ممکنہ امریکی مداخلت پورے ملک میںآگ لگاسکتی ہے۔ایک طرف تو ملک میںتوانائی کے بحران ،بے روزگاری اورمہنگائی نے قیامت ڈھارکھی ہے تودوسری جانب پاکستان کے عوام اپنے مسائل کاذمہ دارامریکی پالیسیوںکوقراردے رہے ہیںکیونکہ امریکہ کی بے جامداخلت سے پاکستان کے اندرعدم استحکام پیداہورہاہے۔یہ خبربھی گرم ہے کہ امریکاجنوبی وشمالی وزیرستان اورجنوبی اضلاع میںجاسوسی کانیٹ ورک بناناچاہتاہے اوراس سلسلے میںبھارت کاتعاون بھی اسے حاصل ہے تاہم انہیں تاحال اس میںکوئی کامیابی نہیںمل سکی کیونکہ شکیل آفریدی کاانجام لوگوںکے سامنے ہے اوردوسری جانب پاکستان کی سیکورٹی اداروںنے بھی بھرپورتیاری کے ساتھ تمام حالات پرکڑی نظررکھی ہوئی ہے۔
لیون پنیٹا امریکہ کے وزیر دفاع کے طور پر پہلی بار ۶جون ۲۰۱۲ء کودو دن کے دورے پر بھارت کے دارالحکومت دلی پہنچے جہاںانہوں نے اپنے دورے کا مقصد بھارت اور امریکہ کے دفاعی تعلقات کومزید مستحکم کرنا بتایا ۔امریکی وزیر دفاع نے دلی پہنچنے کے بعد بھارت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ سے مفصل بات کی۔ دونوں رہنماؤں نے اس ملاقات میں باہمی دفاعی معاملات کے علاوہ پاکستان کی صورت حال اور دو برس بعد افغانستان سے امریکی افواج کے ممکنہ انخلا ء کے بعد حالات پر تبادل خیال کیا۔بعدازاںلیون پنیٹاکے اپنے بھارتی ہم منصب اے کے اینٹونی اور قومی سلامتی کے مشیر شیو شنکر مینن سے تفصیلاً مذاکرات کئے۔اطلاعات ہیں کہ اس دورے میں بعض دفاعی سودوں پر بھی بات ہو ئی اور اس کے ساتھ ساتھ امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے بحرالکاہل خطے میں امریکہ کی طویل مدتی عسکری حکمت عملی پر بھی تبادلہ خیال کیا ۔ بات چیت میں دونوں ملکوں کے درمیان فوجی سازوسامان کی خریداری کے راستے ہموار کرنابھی ان کے ایجنڈے میںسرفہرست تھا ۔واضح رہے کہ گزشتہ سات برس میں بھارت نے امریکہ سے آٹھ ارب ڈالر سے زیادہ کے فوجی ساز و سامان خریدا ہے۔دلی میں امریکہ کی نئی سفیر نینسی پاول نے کچھ دنوں پہلے کہا تھا کہ دونوں ممالک اضافی آٹھ ارب ڈالر مالیت کے تجارتی اور فوجی سودے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔وزارت دفاع نے چھ سو ملین ڈالر مالیت کی ڈیڑھ سو ہلکی ہاوٹزر توپیں اور فضائیہ کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر کے بائیسں اپاچی ہیلی کاپٹرز خریدنے کی منظوری دی ہے لیکن ان سودوں کو حتمی شکل دیا جانا باقی ہے۔ امریکہ کے صدر باراک اوباما نے اس برس کے اوائل میں بحرالکاہل خطے کیلئے اپنی جس طویل مدتی عسکری حکمت کا ذکر کیا تھا اس میں بحر ہند خطے میں سلامتی برقرار رکھنے کے لیے بھارت کے ساتھ طویل مدتی عسکری اشتراک کی بات کہی گئی تھی۔
امریکہ کو خدشہ ہے کہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت سے امریکہ کے اقتصادی اور سلامتی کے مفادات پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔بھارت کے بارے میں عسکری ماہرین کا یہ خیال ہے کہ وہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کو قابو میں رکھنے کی اہلیت رکھتا ہے لیکن بھارت ابھی تک چین سے اس طرح کے ٹکرا ؤ کے تاثرات دینے سے گریز کررہاہے تاہم حالیہ مہینوںمیں بھارت نے چین کے جنوبی سمندر میں اپنے بحری جنگی جہاز بھیج کر اپنی پوزیشن پر زور دینے کی کو شش کی ہے۔بھارت نے حال میں تھائی لینڈ اور ویت نام سے دفاعی معاہدے کیے ہیں اور جنوبی کوریا میں اپنا دفاعی اتاشی مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔لیون پنیٹا نے بھارتی رہنماؤں سے اپنی بات چیت میں ان سوالوں پر بھی مفصل بات چیت کی ہے۔ویتنام سے دلی کے لیے روانہ ہونے سے قبل وزیر دفاع پنیٹا نے کہا تھا کہ میں ایک ایسے ملک سے ایک مضبوط دفاعی تعلقات قائم کرنے کے لیے جا رہا ہوں جس کے بارے میں میرا خیال ہے کہ وہ اکیسویں صدی میں خوشحالی لانے اور سلامتی کے قیام میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔
ادھربھارتی افواج کواسلحہ فراہم کرنے والے ایک مغربی ملک کے ڈیلرنے انکشاف کیاہے کہ بھارتی انٹیلی جنس ’’را‘‘پڑوسی ملکوںکی جاسوسی کیلئے اسرائیل سے طیارے خریدرہی ہے ۔ بھارت قیام پاکستان کے وقت سے ہی پاکستان کی سلامتی کے خلاف اپنے مذموم منصوبوںکوجاری رکھے ہوئے ہے اوروہ اسی جنون میںمسلسل اپنے دفاعی بجٹ میںاضافہ کرتا چلا جارہاہے۔امریکاومغربی ممالک،روس اوراسرائیل سب سے دھڑادھڑاسلحہ خریدرہاہے اوراب اسرائیل سے جس جاسوس طیارے کی خریداری کے منصوبے کاانکشاف ہواہے،وہ بھی صرف پاکستان کیلئے خریداجارہاہے کیونکہ چین کامقابلہ کرناتوبھارت کے بس کی بات ہی نہیںہے اورنہ وہ طیاروںکے ذریعے چین کی جاسوسی کرنے کی ہمت رکھتاہے لہندایہ جاسوس طیارے صرف پاکستان کیلئے خریدے جارہے ہیں۔
بھارت کی خفیہ ایجنسی’’را‘‘پہلے بھی جاسوسی سمیت امریکااورافغانستان کے توسط سے دہشتگردوںکی مددکرکے ہماری سلامتی کونقصان پہنچانے کی کئی کوششیںکرچکی ہے اور بلوچستان میںاس کی دخل اندازی اور علیحدگی پسندرحجانات کوتقویت دینے کیلئے دہشتگردوںکی افغانستان میںتربیت اوراسلحہ سے مددکے کافی شواہدبھی موجودہیں،اب اگروہ جاسوس طیارے کے ذریعے ہماری جاسوسی شروع کردے گاتوہماری کوئی بھی چیزاس کی دستبرد سے محفوظ نہیںرہے گی۔اس لئے ہمارے حکام دفاعی اورقانون نافذکرنے والے اداروںکوبھارت کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت کے پیش نظراپنے دفاع کومضبوط کرنے کی ابھی سے مزید ٹھوس منصوبہ بندی کرنے کی اشدضرورت ہے تاکہ شاطردشمن اپنے مذموم مقاصدمیںکامیابی نہ حاصل کرسکے۔اس حوالے سے اوربھی ضروری ہوگیاہے کہ پاکستان میں’’را‘‘کی مبینہ دخل اندازی کے ثبوت ساری دنیا کے سامنے لاکران کو بے نقاب کیاجائے کہ بھارتی دہشت گردپاکستان کی سلامتی کے درپے ہیںلیکن یہاںملکی سلامتی کی ہوش ہی کہاں ہے۔اہل اقتدارکوتویہ مطلوب ہے کہ ملک کولوٹنے کیلئے اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے امریکاکی خوشنودی کیسے حاصل کرنی ہے۔