سیاسی عمائدین سیاست کا کھیل کھیلتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ شطرنج کی بازی میں دوسرا حریف بھی چال چلنے کیلئے ہی بیٹھا اور چال چلنا اس کا بھی حق ہے۔ سیاست کو عبادت جان کر کیا جائے تو چال اور چالبازی کے اس کھیل سے بہتر نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے ۔ خارجہ و داخلہ پالیسی کو دوغلا پالیسی کے بغیربھی اقتدار کی غلام گردشوں کو متحرک رکھا جا سکتا ہے۔ملکی سلامتی اور معاشرتی امن وامان کیلئے ہر سیاسی جماعت کا ایک ہی منشورہے کہ ملکی سلامتی اورمعاشرتی امن وامان کیلئے کسی دقیقہ سے فروگذاشت نہیں کریں گے۔
ملکی سلامتی کیلئے سیکولر ہونا یا مذہبی ہونا ضروری نہیں بلکہ محب الوطن ہونا بنیادی نکتہ ہے۔ حب الوطنی کا نعرہ لگاتے ہیں مگرجب وطن کو ضرورت پڑتی ہے تو اس وقت ذاتیات کا عمل دخل اس کو مشکوک بنا دیتا ہے۔پاکستان کو اس وقت جس مشکل کا سامنا ہے اس کا بنیادی سبب کیا ہے ۔ اس کی ذمہ داری کیا عوام پر عائد ہوتی ہے کہ ان کی وجہ سے امن وامان کی صورتحال خراب ہوئی ۔کیا عوام کی وجہ سے مہنگائی اور بیروزگاری کا عفریت اس معاشرے پر حملہ آور وقابض ہوا۔ کیا اس معاشرے میں خواتین کی عزت تار تار ہونے اور گینگ ریپ کے واقعات میں اضافہ کا سبب عوام ہیں۔ کیا ملک میں جمہوریت کے عدم استحکام اور اس کے تسلسل میں رکاوٹ کا سبب عوام ہیں۔ ملک میں بجلی گیس کی عدم دستیابی کا سبب عوام ہیں۔ استنائی ا ٓئین وقانون عوام کے مطالبے اور ضرورت پر بنایاگیا ؟
ملک ومعاشرے کو کس نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ موجودہ حالات کی ذمہ داری آخر کس پر عائد ہوتی ہے۔ حالات کو کیسے سنبھالا دیا جائے ۔ معاشرے میں عود آئی خرابیوں کو کیسے دور کیا جائے ۔ دہشت گردی و بدامنی کی کوئی وجہ سے اکابرین دانشور مشیران مملکت اس سے اگاہ نہیں ۔ ڈالروں کی بھیک اور دنیا کے سامنے گھگیانے سے معاشرے میں امن وامان اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا۔اداروں کو یرغمال بنانے کی پالیسی معاشری استحکام اور امن وامان کی ضامن ہوگی۔ میرٹ پر فیصلے کرنے اورمیرٹ سے ہٹنے والے کا احتساب کرنے میں حکومت کیوں متوجہ نہیں ہوتی۔ ڈنگ ٹپائو اور ڈانگ چلا ئو پالیسیاں عوا م ہی کیلئے کیوں ؟ اپنی ذات کیلئے نقصان دہ ثابت ہونے والے کسی اقدام یا کسی شخصیت کو اکابرین معاف کر سکتے ہیں۔ جب اپنے لیے نہیں تو معاشرتی ناسور کس لیے نظرانداز کر دیئے جاتے ہیں۔ معاشرے کو ڈستے آستین کے سانپ کھلے چھوڑ انہیں دودھ پلا یاجاتا ہے ۔ انہیں چھپانے کیلئے آئین وقانون کی چھتری مہیا ہے۔دشمن سے لڑنے کیلئے واویلا تو کیا جاتا لیکن اس سے لڑنے کی بجائے مذاکرات کی آشا کی جاتی ہے۔یہ دوغلا پن کس لیے ہے۔
ٰبھوک لگنے پر اپنوں کا گوشت کھانے کے باوجودشکوہ بھی ان کو ہی ہے۔ لسانی گروہی مذہبی تحریکیں اس سوچ کی غماز اور علمبردارہیں۔ یہ مذہب اور لسانیت کی بنیاد پر معاشرے کودیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں ۔ حقوق کیلئے آواز بلند کرنا ہر پاکستانی شہری کا بنیادی حق ہے ۔ اس سے انکار آئین پاکستان ہی سے انکارنہیں بلکہ مذہب اسلام کی تعلیمات سے انکارہے ۔ حقوق کے نا م پر عصبیتوں کا فروغ اور دہشت گردی کو کیا نام دیا جائے۔ حقوق کے نام پر معاشرے میں گروہی اور لسانی فسادات کو حقوق کی جنگ قرار دیا جائے یا ذاتیات کی ترویج کے لیے کوشش قرار دیا جائے۔ معاشرے میں اس طرح چھوٹے چھوٹے گروہ اپنے مفادات کیلئے اگر ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ مسجد بنا رہے ہیں تو ان معاملات کو دیکھنا اکابرین کا بنیادی ایشو ہونا چاہیے تھا۔ سیاسی قائدین بجائے معاشرتی یکجہتی کے مسائل کو اہمیت دینے کی بجائے دیگر ایشوز کو زیادہ وقت دے رہے ہیں۔ معاشرتی یکجہتی پاکستا ن کی قومیت کے جسم کی روح ہے ۔ اگر اس کو مجروح کرنے والے عناصر سے اغراض برتنے کے نتیجے میں ہی گروہی اور لسانی عصبیت کا ناسور معاشرے کی قومی یکجہتی کو ادھا مئوا کر رہا ہے ۔
طالبان علیحدہ اپنے مطالبات کیلئے معاشرے کو میدان جنگ بنائے ہوئے ہیں۔ بلوچستان سے بھی لسانی اور گروہی بنیاد پر صدا کو مسلح جدوجہد کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ سرائیکی بیلٹ کے نام پر ایک نعرہ ابھی اس درجہ تقویت حاصل نہیں کر پایا لیکن جلد ہی کچھ ناکام سیاسی اکابر اس کو بھی مسلسل سامنے لا کر ایشو بنا کر چھوڑیں گے۔ حکومت ان ایشوز پر توجہ دے کر ان کا مناسب حل نکالنے کیلئے ایک مستقل وزیر کی ڈیوٹی کیوں نہیں لگاتی کہ وہ ان کے ساتھ مذاکرات کرکے ان ایشو کی تلخی کو کم کرنے کی کوشش کریں۔ انہیں مسلح کاروائیوں سے روکنے کیلئے ان سے مذاکرات کرنے میں کیوں تاخیر کی جارہی ہے۔ اس تاخیر کے سبب تلخی میں اتنا اضافہ ہو گیا ہے کہ اب مذاکرات کیلئے بھی یہ ایک قومی ایشو کی بجائے دشمن سے مذاکرات کے مترادف ہو چکے ہیں۔ اب بھی مذاکرات سے اس تلخی کو کم کیا جا سکتا ہے ۔ حت الوسع کوشش کی جائے کہ مذاکرات جلد شروع کیے جائیں اور اس میں ان کو یہ باور کرایا جائے کہ ایک قوم کے فرد ہونے کے ناتے انہوں نے جس رستے کا انتخاب کیا ہے وہ مناسب نہیں۔ ان کے مطالبات جائز ہیں تو ان کو تسلیم کرنے میں کوئی عارنہیں کہ ان کا حق ہے ۔ اگرمطالبات قومیت کے جسد پر کاری وار ہیں تو پھر انہیں روکنا ضروری ہے۔ بھائی اگر گلا کاٹنے پر آ جائے اور وہ بھی لاڈ میں تو بغیر کسی وجہ کے اسے اس انوکھے لاڈلے کی یہ تمنا پوری کیسے کی جا سکتی ہے۔ اس کا ہاتھ روکنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو بھائی کا گلا کاٹنے سے گریز نہیں کر رہا وہ بھائی نہیں غیروں سے بڑھ کر غیر ہے۔دیکھنے میں آ رہا ہے کہ غیروں کے ورغلانے پر بھائی بھائی کا گلاکاٹنے کو دلیری اور بہادری کا اعزاز جان کر یہ فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔ اس سوچ کو بدلنے کیلئے نرمی کے ساتھ سختی کی بھی ضرورت ہے۔
ذاتی ترویج کے ایجنڈے سے وطن کا قرض نہیں اتارا جا سکتا۔ اکابرین خود کو گروہی لسانی عصبیتوں سے عملی طور پر پاک ثابت کریں۔ تقلید کاروں کو ان سے بچنے کی باقائدہ نصیحت کریں۔ سیاسی اکابرین غیروں کے اگے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں تو اپنوں کی بات سننے کیلئے تھوڑا سر خم کرنے کو باعث عار نہ جانا جائے۔ بات سنی جائے اور اس کا مناسب جواب دیا جائے۔ انہیں مطمئن کیا جائے اگر پھر بھی نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی رہے تو اس کا مطلب صاف ہے کہ بھائی بھائی نہیں دشمن کا فرستادہ ہے۔ قومی دھارے سے علیحدہ ناراض عناصر کو قومی اسمبلی کے فلور پر لا کر مباحثہ براہ راست قوم کو دکھایا جائے کہ یہ لوگ کیا کہتے ہیں۔ حکومت کیا کہتی ہے اور کون حق پر اورکون غلط ہے۔ کون صرف ذات کے خول سے باہر آنے کیلئے تیارنہیں۔ ڈرائینگ روم کے فیصلوں سے قوم کو علم نہیں ہوتا تو وہ حکومت کو جابر اور انہیں مظلوم جان کر ان کیلئے دل میں نرم گوشہ پیدا کر لیتی ہے۔ حقیقت کو واضح کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ان عناصر کو وڈیولنک مذاکرات یا قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پر قوم کے سامنے پیش کیا جائے اور ان سے مذاکرات سے اگاہ کیا جائے