Home / Socio-political / پاکستان میں دہشت گردی کا نیامحاذ – پنجاب صوبہ

پاکستان میں دہشت گردی کا نیامحاذ – پنجاب صوبہ

ڈاکٹر قمر تبریز

پاکستان میں دہشت گردی کا نیامحاذ – پنجاب صوبہ

”حکومت پنجاب نے رواں مالی سال کے لیے اقوام متحدہ کے ذریعے ممنوعہ دہشت گرد گروپ اور لشکر طیبہ کی سرکردہ شاخ جماعت الدعوة سے وابستہ اداروں کے لیے 8 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔“

دہشت گردی کے تعلق سے پاکستان کی پنجاب ریاست سے آنے والی خبریں نہ صرف حکومت پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہیں، بلکہ ہندوستان کے لیے بھی یہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے کیوں کہ صوبہ پنجاب ہندوستانی سرحد کے قریب واقع ہے اور نومبر 2008 میں ممبئی کے دہشت گردانہ حملوں کے دوران واحد زندہ بچ جانے والا بندوق بردار، اجمل عامر قصاب، جسے اب ہندوستانی عدالت کے ذریعہ پھانسی کی سزا دی جا چکی ہے، اس کا بھی تعلق اسی پنجاب صوبہ کے فرید کوٹ ضلع کے مرید کے گاو


¿ں سے تھا۔

حالیہ خبروں کے مطابق پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ صوبائی حکومت نے جماعت الدعوة سے وابستہ اداروں کے لیے رواں مالی سال میں 80 ملین روپے مختص کیے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جماعت الدعوة وہی تنظیم ہے جس کا چیف، حافظ محمد سعید 26/11 ممبئی حملوں کا کلیدی ملزم ہے اور ہندوستان کے ذریعے اس کے خلاف پاکستان کو متعدد ثبوت فراہم کرنے کے باوجود وہاں کی عدالت نے ممبئی حملوں سے متعلق سعید کے خلاف تمام الزامات کو خارج کردیا ہے اور اسے ضمانت بھی دے دی ہے۔

چند دنوں قبل پاکستان کے ایک مشہور انگریزی اخبار’ڈان‘ نے اپنے اداریہ میں ان مذہبی رہنماو


¿ں پر تنقید کی تھی جو ایک ریلی کے دوران حافظ سعید کے ساتھ اسٹیج پر موجود تھے۔ اداریہ نے لکھا تھا کہ ”سب سے زیادہ چونکا نے والی بات یہ ہے کہ سعید نے اپنی تلخ تنقید پر مبنی تقریر ان لیڈروں کی موجودگی میں کی ہے جن کا تعلق سرکردہ مذہبی پارٹیوں سے ہے۔ سعید کو باضابطہ اس پروگرام میں مدعو کیا گیا تھا۔ کیا اس کا مطلب یہ نکالا جائے کہ ہمارے علما سعید کے نظریات سے اتفاق کرتے ہیں؟ کیا وہ جہاد سے متعلق اس کے انتہاپسندانہ نظریات اور طالبان کی سرگرمیوں کے بارے میں ظاہری طور پر اس کے مثبت خیالات کو درست مانتے ہیں؟“

قابل غور ہے کہ حافظ سعید نے حال ہی میں فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیلی مظالم کی مذمت کرتے ہوئے ایک ریلی نکالی تھی اور ایک بڑے مجمع سے خطاب کیا تھا جس میں جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن، جمعیت اہل حدیث کے رکن پارلیمنٹ ساجد میر، جمعیت علمائے اسلام کے رکن حافظ حسین احمد اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ حمید گل بھی شامل تھے۔

یوں دیکھا جائے تو پاکستان کا تعلیم یافتہ طبقہ بھی حافظ سعید کے خیالات و نظریات سے اتفاق کرتا نظر نہیں آتا اور اس کا ماننا ہے کہ ہندوستان او رپاکستان کے درمیان موجود تلخ رشتوں کی سب سے بڑی وجہ حافظ سعید جیسے انتہاپسند لیڈر کو ملک کے اندر ملنے والی ہر قسم کی آزادی ہے۔

اب بات کرتے ہیں پاکستانی صوبہ پنجاب کی۔ پاکستانی صوبہ پنجاب کی حکومت اور ممنوعہ دہشت گرد گروہوں کے درمیان مراسم کی تصدیق اس خبر سے بھی ہوتی ہے کہ پنجاب کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) طارق سلیم ڈوگر نے حال ہی میں لشکر طیبہ کی جہادی شاخ کے چیف سکریٹری، پاکستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ کرنل کے ساتھ میٹنگ کی ہے۔ یہ خبر کسی اور نے نہیں بلکہ خود وہاں کے ایک انگریزی اخبار ’ڈیلی ٹائمز‘ نے دی ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ اس میٹنگ میں مظفر گڑھ کے ڈی پی او منظور احمد بھی شریک تھے۔ طارق سلیم ڈوگر نے لشکر طیبہ کے جہادی وِنگ کے چیف سکریٹری سے میٹنگ سے پہلے اسلام آباد میں انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ سے ملاقات کی تھی اور ان کے ساتھ جنوبی پنجاب میں ممنوعہ دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں سے متعلق ایک رپورٹ پر گفتگو بھی کی تھی۔ قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے پنجاب کی ممنوعہ دہشت گرد تنظیموں کے تحرےک طالبان پاکستان اور القاعدہ کے ساتھ رابطوں سے متعلق باوثوق ذرائع پر مبنی ایک رپورٹ تیار کی ہے۔ اور اس رپورٹ کے ذریعے پاکستانی حکومت کو مشورہ دیا جارہا ہے کہ وہ پنجاب میں سرگرم ممنوعہ دہشت گرد گروہوں پر پابندی لگائے، ورنہ یہ گروپ آنے والے دنوں میں پاکستان کی اندرونی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔ لیکن پنجاب حکومت میں شامل کچھ وزرا اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی پنجاب کی ممنوعہ دہشت گرد تنظیمیں اپنے پرانے ممبران سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ گروپ میں دوبارہ شامل ہو جائیں۔ خود پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے یہ بات قبول کی ہے کہ مقامی دہشت گرد گروہوں کے 20 سے 30 فیصد ممبران پنجابی طالبان کے نیٹ ورک میں شامل ہو چکے ہیں اور وہ بہت جلد صوبہ پنجاب میں کوئی بڑی تباہی پھیلانے والے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی رانا ثناءاللہ نے ان کے خلاف کوئی فوجی آپریشن شروع کرنے سے منع کیا ہے اور کہا ہے کہ حقیقی خطرہ شمالی وزیرستان کے دہشت گردوں سے ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ثناءاللہ اس قسم کا بیان اس لیے دے رہے ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر مقامی دہشت گردوں کی مدد سے اپنے سیاسی مفادات کو حاصل کر سکیں۔یہاں پر یہ بھی قابل ذکر ہے کہ سپاہِ صحابہ پاکستان کے ساتھ مبینہ روابط رکھنے پر ثناءاللہ کی بڑے پیمانے پر تنقید بھی ہوتی رہے۔

پنجابی طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے جیش محمد، لشکر جھانگوی اور سپاہ صحابہ پاکستان جیسی پنجاب کے مقامی اور ممنوعہ دہشت گرد گروہوں کے ساتھ ہاتھ ملا لیے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان کے وزیر داخلہ رحمن ملک نے بھی ممنوعہ دہشت گرد تنظیموں کو ریلیاں نکالنے اور اشتہار بازاری سے گریز کرنے کے لیے کہا تھا۔ صدر آصف علی زرداری اور متحدہ قومی موومنٹ کے ایک وفد کے ساتھ میٹنگ کرنے کے بعد رحمن ملک نے 14 جون کو نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ اگر ممنوعہ دہشت گرد گروہوں نے نئے ناموں کے ساتھ اپنی کارروائیوں کو بند نہیں کیا تو ان تمام پر نئے سرے سے پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔ لیکن ان تمام وارننگ کے باوجود حکومت کی طرف سے اب تک ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے جو یہ ثابت کرتا ہو کہ واقعی حکومت پاکستان ان دہشت گرد تنظیموں پر پابندی عائد کرنے میں سنجیدہ ہے۔

ایسے میں جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 24 جون کو اسلام آباد میں خارجہ سکریٹری سطح کی بات چیت کا انعقاد ہونے جارہا ہے تو پاکستان ’اعتماد کی بحالی‘ سے متعلق ہندوستان کو کیا جواب دے گا؟ ہندوستان حافظ سعید سے متعلق اپنی تشویشوں کا اظہار پاکستان سے بار بار کر چکا ہے، لہٰذا ایسے میں یہ خبر کہ پاکستانی صوبہ پنجاب کی حکومت کے ذریعے جماعت الدعوة کے تحت کام کرنے والے اداروں کو ریاستی حکومت رواں مالی سال میں 80 ملین روپے مختص کر رہی ہے، ہندوستان کی تشویشوں میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ کیا پاکستان اس بات کی گارنٹی دے سکتا ہے کہ صوبہ پنجاب کے ذریعے جماعت الدعوة کو دی جانے والی مالی امداد کا استعمال ہندوستان کے خلاف نہیں ہوگا؟ پاکستانی حکومت کے موجودہ رویے سے تو ایسا ہرگز نہیں لگتا۔ پھر ہندو پاک جامع مذاکرات کا ڈراما کیوں؟

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *