ہندستان اور دنیا کے کئی ممالک میں دیوالی کا تہوار بڑے دھوم دھام سے منا یا جاتا ہے ۔ اس تہوار میں عام طورپر ہر طرف روشنی کا اہتمام کیا جاتاہے اور خوشیوں میں رنگ بھرنے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر آتش بازی کی جاتی ہے۔ اس روز ہر طرف پٹاخوں کی آواز سے فضا گونجتی رہتی ہے۔لیکن پاکستان میں دیوالی کا یہ منظر دو دن قبل ہی نظر آیا اور ایسی دیوالی جس میں پٹاخوں کے بجاےت ہینڈ گرینیڈ اور گولیوں کی آواز تھی جس سے لاہور کا تاریخی شہر دہشت گردوں کی کاروائیوں سے گونج اٹھا۔ ایک ہی دن میں لاہور میں تین حملے ہوئے جس کے نتیجے میں کئ افراداجان بحق ہوگئے ۔یہاں دیوالی کی آتش بازی کے بجائے بموں اور گولیوں کی آواز سے ہر طرف خوف و ہراس پھیل گیا۔اس واقعے نے نہ صرف پاکستان کے ہوش اڑا دئے ہیں بلکہ پڑوسی ممالک سمیت عالمی برادری بھی پاکستان میں خود کش حملوں کے بڑھتے رجحان اور دہشگردوں کے بڑھتے حوصلے سےتشویش میں ہے ۔ اس مہینے ہی پاکستان میں اس طرح کے متعدد واقعات رونما ہوئے جن میں کافی جانی اور مالی نقصانات ہوئے ، لیکن اس سے بڑھ کر پاکستان کی سالمیت کو خطرہ پہنچا ۔ مگر حیرت ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں اس طرح کی واردات کو وقت سے پہلے روکنے میں ہمیشہ ناکام رہی ہے ۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ ہر طرف یہ رجحان عام ہوتا جا رہاہے ، اس لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ کب ؟ کون ؟ اور کہاں ؟ ایسے حملے ہوسکتے ہیں ۔ اب تک تو قبائلی علاقوں کو ہی اس حوالے سے متاثر سمجھا جا رہا تھا ۔ مگر اب دیکھتے ہی دیکھتے شہری علاقے بھی اس کی زد میں آنے لگے ہیں ۔دوسری اہم وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کئی معاملات میں پاکستانی اور امریکی ایجنسیاں مل کر کام کر رہی ہیں اس لیے بھی آپس میں تال میل نہیں بیٹھ پارہی ہوگی۔کیونکہ امریکی آرمی کا ہدف کچھ اور ہے اور پاکستانی آرمی کا ہدف کچھ اور! اس کےعلاوہ اکثر اوقات پاکستان کی خفیہ ادارے راہ فرار سے کام لیتے ہیں ، جب کچھ نہیں ملا تو ہندستان کا نام لے لیا اور تمام تفتیش الزامات اور بہتان کی جانب مُڑ جاتی ہے۔ کل ملا کر دیکھا جائے تو اس میں پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کا ہی قصور ہے کہ وہ بر وقت کاروائی کرنے میں ہمیشہ پیچھے رہی ہے۔
ان حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ نے کہا ہے کہ جی ایچ کیو اور دیگر حساس اداروں پر حملے امریکہ کی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیے جا رہے ہیں۔ بلیک واٹر اور دیگر تنظیموں کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ قبائلیوں کو دھوکہ اور ترغیب دے کر پاکستان میں تخریب کاری کے منصوبے کو عملی جامعہ پہنائیں اور اس کا آغاز کر دیا گیا ہے اور خدشہ ہے کہ دہشت گردوں کا اگلاہدف ایٹمی تنصیبات ہو سکتی ہیں۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر سیکورٹی کے مزید اقدامات نہ کئے گئے تو آئندہ کہوٹہ ڈاکٹر اے کیو خان لیبارٹریز اور دیگر حساس تنصیبات پر حملے ہو سکتے ہیں لہذا حکومت کو اس طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے ۔مرزا اسلم بیگ کا خیال ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی لہر میں شدت آگئی ہے ۔ جس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ امریکیوں کی طرف سے ہزاروں مشین گنیں دھماکہ خیز مواد اور دیگر بھاری اسلحہ بارود پاکستان لانے پر پابندی کی وجہ سے ان کو تکلیف ہوئی ہے اور اس کی پاداش میں انھوں نے پاکستان کی اہم تنصیبات پر حملے کرانے کا منصوبہ بنایا ہے ۔امریکیوں کو اس بات کی سخت تکلیف ہوئی ہے کہ ان پر پاکستان میں آزادانہ آنے اوراسلحہ بارود لانے پر کیوں پابندی عائد کی گئی ہے ۔مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ حکومت ہوشیار رہے ۔ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر بھی حملہ ہو سکتا ہے ۔مرزا اسلم بیگ کے مطابق افغانستان میں امریکی فوج کا قبضہ خطے میں تمام مسائل کی جڑ ہے ۔ جب امریکہ یہاں نہیں آیا تھا خطے میں اس قسم کے حالات نہ تھے ۔ ان خراب حالات کے اصل ذمہ دار امریکہ اور پرویز مشرف ہیں۔
یہ بات تو طے ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے غلطیاں کی ہیں ۔ لیکن ابھی اس کا وقت نہیں کہ غلطی کرنے والوں کا مواخذہ کیا جائے ۔مواخذہ تو بعد میں بھی ہوسکتا ہے لیکن ابھی عملی اقدمات کرنے کی ضروت ہے اور ان مقامات کو نیست و نابود کرنے کی بھی ضرورت ہے جہاں اس طرح کے فدائین تیار کئے جاتے ہیں ۔ لاہور میں حملے سے چند روز قبل ہیاسلام آباد میں تھانہ شالیمار کے علاقہ سے دو دہشت گردوں کو خودکش جیکٹس اور ہینڈ گرنیڈ سمیت گرفتار کرلیا گیا،اسلام آباد پولیس کے ذرائع کے مطابق دہشت گردوں کے نام زین اور عبداللہ بتائے جارہے ہیں اور انہیں اسلام آباد میں ایک ناکہ پر چیکنگ کے دوران گرفتار کیا گیا،اس موقع پر ان کا تیسرا ساتھی اندھیرے کا فائدہ اٹھا کرفرار ہونے میں کامیاب ہوگیا،جس کی گرفتاری کے لیے پولیس کے مختلف مقامات پر چھاپے جاری ہیں۔پاکستانی ذرائع کے مطابق ان ملزمان کے قبضے سے خودکش جیکٹس،ہینڈگرنیڈاور پستول برآمد ہوئے ہیں۔ جو قانون نافذکرنے والے ادارے کے دفتر کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔ آخر ان کی تفتیش کس طور پر کی گئی کہ انھیں لاہور پر ہونے والے حملے کی بھنک تک نہیں لگ سکی ؟ لاہور میں حملے کے بعد جو دہشت گرد پکڑے گئے ان پانچ دہشت گردوں میں دو کی شناخت ہوگئی ہے۔قانون نافذ کرنے والے ذرائع کے مطابق شناخت ہونے والے دو حملہ آوروں کے نام صیغہ راز میں رکھے جارہے ہیں۔ ان کا تعلق ایک کالعدم تنظیم سے ہے۔دونوں کی عمریں بیس اور اکیس سال کے درمیان بتائی جارہی ہیں جبکہ دوسری طرف قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شاہدرہ کے علاقے میں ایک مدرسے پر چھاپہ مار کر مدرسے کے مہتمم اور اسکے دو بھانجوں کو حراست میں لے لیا۔ ان کے قبضے سے جہادی لٹریچر اور سی ڈیز برآمد ہوئی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ تخریبی ذہن رکھنے والے پاکستان میں اتنی تیزی سے کیوں پنپ رہے ہیں اور ان کا مقصد کیا ہے ؟ اس پر حکومت پاکستان کو غور کرنا چاہیئے کیونکہ اس کے بغیر اس لہر کو روک پانا ناممکن ہے اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو ایک طرف امریکی کاروائیاں اور دوسری جانب دہشت گردوں کی کاروائیوں سے ملک تبا ہ و برباد ہوجائے گا۔ ملک میں امن و سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ سختی سے ان عناصرسے نمٹا جائے ۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب پاکستان اپنی غلطیوں کو چھپانے کے جبائے اس کی اصلاح کی سمت میں کوشش کرے۔