Home / Socio-political / پاک بھارت رشتے : کبھی ہاں کبھی نا

پاک بھارت رشتے : کبھی ہاں کبھی نا

پاک بھارت رشتے : کبھی ہاں کبھی نا

ہند اور پاکستان کے مابین رشتہ عجیب نوعیت کا ہے جس کے بارے میں کبھی بھی کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی ہے۔ خاص کر پاکستان کے تناظر میں اگر بات کی جائے تو ایوان اقتدار میں ہر شخص اپنی الگ رائے رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں سامنے کچھ اور پس پشت کچھ کی بھی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ رحمان ملک نے اپنے حالیہ دورہ بھارت میں فطرتاً کئی بار اپنی زبان کو پھسلنے کا موقع دیا اور پھر اپنے بیان کی تشریح بھی خود ہی کرتے نظر آئے تاہم ان کا دورہ دونوں ملکوں کے تعلقات کے حوالے سے مثبت رہا لیکن ہندوستان میں اپنے بیانات کی مصلحت پسندانہ تشریح کرنے والے رحمان ملک پاکستان پہونچتے ہی پھر اپنی پرانی روش پر لوٹ آئے ہیں۔ بلوچستان کے مسئلہ پر بات کرتے ہوئے ایک بار پھر انہوں نے وہی پرانے جملے دہرانے شروع کردئیے ہیں کہ بھارت بلوچستان میں قتل و غارت گری کے واقعات میں ملوث ہے اور عنقریب وہ بھارت کو اس کے شواہد سونپیں گے۔ ایک عرصہ سے بلوچستان جل رہا ہے اور رحمان ملک میڈیا کے سامنے یہی الفاظ دہراتے آ رہے ہیں۔ اب یہ بات بعید از فہم ہے کہ اگر ثبوت کی عدم موجودگی میں حافظ سعید کو با عزت بری کر دیا جاتا ہے تو بغیر کسی دستاویزی ثبوت کے رحمان ملک کے اس مفروضے پر کیسے یقین کر لیا جائے کہ بلوچستان میں بھارت حالات کی خرابی کا ذمہ دار ہے۔

                یہ درست ہے کہ موجودہ پی پی پی حکومت بھارت کے ساتھ اپنے رشتے استوار کرنے کے لئے سنجیدگی سے کوشاں ہے تاہم اسٹیبلشمنٹ اور شدت پسند عناصر جو پاکستان کی رگ پے میں سرایت کر گئے ہیں یہ نہیں چاہتے کہ یہ رشتہ بہتر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ رحمان ملک کے بھارتی دورے دوران حافظ سعید اور اس کے حواریوں نے واہگہ بارڈر تک مارچ کیا تاکہ حکومت ہند کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ اس کی آزادی پر کسی قسم کا حرف نہیں آنے والا ہے۔ حکومت پاکستان روایتی بے بسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جمہوریت کی دہائی دیتی ہوئی نظر آتی ہے اور شاید یہی اس کے حق میں بہتر بھی ہے کیونکہ جرات شجاعت ہر موقع پر کام نہیں آتی بلکہ کئی مواقع ایسے بھی ہوتے ہیں جب مصلحت پسندی درکار ہوتی ہے اور وہی دیر پا بھی ہوتی ہے۔  اس صورت حال میں بہتر یہی ہے کہ دونوں ممالک اپنے اپنے ملک میں متشدد عناصر کی ان چالوں کو حکمت عملی سے ناکام کریں اور پاک بھارت رشتے کو نئی اونچائیوں تک لے جائیں لیکن موجودہ حکومت چند روزہ مہمان کی حیثیت رکھتی ہے اور عنقریب انتخابی ضابطوں کے تحت ایک عبوری حکومت تشکیل پائیگی ایسے میں یہ کہہ پانا ممکن نہیں ہے کہ  آیا ان کاوشوں کا کوئی مفید ثمر ہمیں دیکھنے کو ملے گا یا نہیں۔

                بہت سے تجزیہ نگار یا وہ حضرات جو جن میں تجزیاتی حس کم اور کوری جذباتیت زیادہ ہے کشمیری اور سندھ تاس معاہدے کی خلاف ورزیوں کا ڈھول پیٹتے نظر آتے ہیں جبکہ یہ دونوں مسئلے ایسےہیں کہ حکومت پاکستان ان پر خاموش رہنا ہی پسند کرے گی۔ سندھ تاس معاہدے کی خلاف ورزی کے معاملے کو دیکھیں تو ہمیں ایک عجیب صورت حال نظر آئیگی۔ پاکستان جو سیلاب کے پانیوں کو صحیح طور پر استعمال نہیں کرسکتا وہ اور اضافی پانی لے کر کیا کرے گا؟ ہا ں جہاں تک پانی پر اس کے حق کا تعلق ہے وہ اس کے لئے دعوے کرتا رہا ہے تاکہ آئندہ جب وہ ان وسائل کے استعمال کے قابل ہو تو وہ ان کا استعمال کر سکے۔ اب رہی بات کشمیر کی تو یہ مسئلہ اتنا آسان بھی نہیں کہ اسے دو دنوں میں سلجھایا جا سکے۔ بھارت کے مسلمان کیوں چاہیں گے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ان سے الگ ہو جائے۔ پاکستان کی خواہش یہ ہے کہ کشمیر اس کا حصہ بن جائے، کشمیری عوام کا ایک حصہ کشمیر کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دیکھنا چاہتا ہے اور بھارت اسے اپنا ایک اٹوٹ حصہ بتاتا ہے۔ ایسے میں اقوام متحدہ کی پرانی قرارداد اب  بے مصرف ہو چکی ہے اور ضرورت یہ ہے کہ تمام فریقین مل کر کوئی حل تلاش کریں۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *